عزیزو! یہ بھی حق کو تلف کرنا ہے؟

ندیم صدیقی،ممبئی
’’فر ض‘‘ اور’’ حق ‘‘ اُردو کے یہ دو لفظ اِنسانی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ہم مسلمانوں کے دیٖن کی ایک اساس اسی پر ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ (فی زمانہ) سب سے زیادہ ان دو لفظوں یا ان دو اُصولوں کی پامالی ہمارے ہاں ہی ہوتی ہے۔ اس پامالی کا انداز بھی عجب ہے کہ ہم اپنے حق کے لئے تو کوشاں ہی نہیں ، شاکی بھی رہتے ہیں مگر اس کا احساس چھٗو کر بھی نہیں گزرتا کہ کیا ہم دوسروں کا وہ حق ادا کر رہے ہیں جو ہم پر واجب ہے، فرض ہے۔!!
کسی کی حق تلفی ایک ’’ظلم ‘‘ سے تعبیر کی گئی ہے۔ اور ظلم ۔۔۔ظلم ہی ہوتا ہے وہ کسی بھی طو ر ہو ،کسی کے بھی ساتھ ہو۔ بہت مشہور ہے کہ کوئی شخص جس نے ہشام بن عمرو کو کچھ نقدی بطورِقرض دی تھی اور جب دینے والا، اُس کے پاس لینے گیا تو اُس نے دینے سے انکار کر دیا۔ رسولِ کریمؐ تک یہ بات کسی طور پہنچی تو اُنہوں نے قرض دینے والے کو ساتھ لیا اور ہشام بن عمرو کے گھر پہنچے اور اُس سے اس کا قرض چکانے کو کہا۔ واقعہ ہے کہ ہشام جو ہماری تاریخ میں ابو جہل کے نام سے لعین ہے، اس نے چند لمحوں میں وہ قرض چکا دِیا۔
اس واقعے میں صرف یہی نہیں ہے کہ ابو جہل ،۔۔۔رسول کریمؐ سے مرعوب ہوگیا، واضح رہے کہ وہ تو محمدﷺ کا دُشمنِ جانی تھا ، وہ چاہتا تو اِنکار کر دیتا مگر یہاں مددِ الٰہی بھی کا م کر رہی تھی کہ رسول کریم ؐ کے قول کی حرمت بھی ثابت کرنی تھی۔ اِسلام کا ایک بنیادی اصول یہ بھی بتایا گیا ہے کہ(مفہوم) ’’ ظلم کسی طور ہو رہا ہو تم کو ہاتھ سے روکنا چاہیے، اگر ہاتھ سے روکنے پر قدرت نہیں رکھتے تو زبان سے روکیے اور اگر زبان ہلا نے پر بھی کوئی تامل یا کوئی تردّد ہوتو پھر چاہیے کہ آپ اس ظلم و ظالم کی ، اپنےدِل میں مذمت کیجیے مگر یاد رہے کہ یہ آخری عمل آپ کے ایمان کی کمزور ترین صورت ہوگی۔‘‘
اس اصول کو چودہ سَوسال ہو رہے ہیںجس وقت یہ اصول نافذ ہوا تھا تو اس پر عمل کرنے والے ایک نہیں بیشمار تھے بلکہ جس نے کلمۂ حق ادا کر دِیا وہ اپنی جان کو اس اصول پر قربان کر نے پر آمادہ تھا اور اب یہ ہے کہ یہ جو باتیں ہم لکھ رہے ہیں بس لکھ رہے ہیں۔ عمل کرنے کی توفیق۔۔۔۔ اِلا ماشا اللہ۔
حا ل ہی میں فیس بک پر کسی صاحب نے ایک قول ِحق پوسٹ کیا ہے کہ’’ دُنیا میں انسانی ذ ہن نے زمین سے زیادہ سونا اُگلا ہے۔‘‘ پڑھتے ہی یہ خیال گزار کہ جن لوگوں نے دُنیا میںاپنے ذہن کا سونا اُگلا اُن میں بہت سے ا یسے ہیں جنہیں اپنی محنت کے عوض سونا تو کیا لوہا بھی ہاتھ نہیں آیا، اُن کے حصے کا سونا تو دوسرے لے اُڑے۔
آئندہ مہینے کے نویں دن شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی سالگرہ ہوگی۔ علامہ اقبال اُردو زبان کا ’’ اقبال‘‘ ہیں۔ ساری دُنیا میں جہاں جہاں اُردو والے ہیں وہاں وہاں اقبالؔ کویاد ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہاں کی دانش گاہوں میں اقبال ؔکے افکار واشعار کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اُنھیں پڑھایا جاتا ہے۔ بہت سی جامعات میں باقاعدہ اقبال سے موسوم شعبے قائم ہیں۔ جو ہم سب کےلئے ایک افتخار کی بات ہے کہ اقبالؔ کی وجہ سے ہماری زبان بھی ’ اقبال مند‘‘ ہے۔ یاد آتا ہے کہ کوئی بیس تیس برس قبل کلکتہ یونی ورسٹی میں اقبالؔ کے نام سے ایک چیئر قائم کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس کیلئے پاکستان سے فیض احمد فیضؔ کو منتخب کیا گیا کہ وہ اس کی سربراہی کریں۔ معاملات طے ہوگئے تھے مگر عین موقع پر نجانے کیا ہوا کہ فیضؔ کی آمد منسوخ ہوگئی۔ چونکہ جامعۂ مذکور میں ’ اقبال چئیر‘‘ کا سرکاری اعلان کیا جاچکا تھا لہٰذا اِس اعلان کو عملی جامہ پہنانا حکومت کے وقار کا سبب بن گیا اور پھر اس ’ منصبِ اقبالی‘ پر اُردو کے پُر گو اور مشہور صاحبِ طرز شاعر پروفیسر مظفر حنفی کو فائز کیا گیا ۔ کوئی بارہ برس سے زائد مدت مظفر حنفی جیسے دانشور شاعرسے کلکتہ کے اہلِ اُردو مستفید ہوتے رہے۔
ہمارے ملک کی ایک بڑی ریاست مدھیہ پردیش جو اپنے اہلِ علم اور اہلِ فن کے سبب نیک نام ہے وہاں علامہ سیالکوٹی سے منسوب قومی سطح کا’’ اقبالؔ سمان‘‘ کسی شاعر کسی ادیب کو ہر سال دِیا جاتا ہے۔ جو ابتک اُردو کے کئی اہم اور مؤقر تخلیق کاروں کے حصے میں آچکا ہے جن میں فراق گورکھپوری سے لے کر قرۃ العین حیدر ، اختر الایمان، معین احسن جذبی، حیات اللہ انصاری، اوپندر ناتھ اشک، جوگندر پال،آنند نرائن ملا، مجروح سلطان پوری، جگن ناتھ آزاد، علی سردار جعفری جیسے کوئی بیس تخلیق کارشامل ہیں۔1986-87 میں جب اس اعزاز کا قیام عمل میں آیا تھا تو اُس وقت ایک لاکھ روپے کی بڑی حیثیت تھی اور یہ’ سمان‘ ہمارے تخلیق کاروںکو لکھپتی بنا دیتا تھا اور اب لاکھ روپے تو ایک ہزار کی’قدر‘ کو اُتر آئے ہیں۔ اُردو کے راجستھانی شاعر شین کاف نظام کوبھی 2006-7 میں’اقبال سمان‘ تفویض کیا گیا جو قابل ِتحسین عمل ہے مگر ہمارے ہاں ایسے بھی ہیں جو حسبِ مراتب کے لحاظ سے ان سے پہلے ایسے اعزاز کے حق دار ہیں جن میں بالکل سامنے اور سینئرنام پروفیسر مظفر حنفی کا ہے مگر اُنھیں اب تک اس کی چھاؤں بھی میسر نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے حکومت کسی کو بھی یہ اعزاز دے سکتی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو کسی جواب دہی کا پابند بھی نہیں سمجھا جا تا۔ مگر کوئی اخلاقی اور اصولی طور بھی تو ہو تا ہے۔ ہم نے آج یہ تذکرہ اسی اصول اور اسی اخلاقی ذمے داری کے پیشِ نظرکیا ہے۔ ہم جیسے اخبارچیوں کو جو دُنیا داری میں مصروف رہتے ہیں شاید یہ سمان اور مظفر حنفی یاد بھی نہ آتے مگر وہ جو اللہ یاد دِلا دے ۔ جمعرات کے اسی اخبار میں ایک خبر بڑے اہتمام سے شائع ہوئی ہے کہ جس میں شہر کے ایک صاحب ِ معزِز کو’ علامّہ اقبال ایوارڈ‘ دِیے جانے کا اعلان ہے۔ جس پر ہم سب کو مسرت ہونی چاہیے مگر اسی کے ساتھ ہمارا خیال ہے کہ اقبالؔ جیسے اُردو کے مفکرشاعر اور دانشور سے منسوب ایوارڈ کسی شاعر، کسی ادیب کسی اُستاد وغیرہ کا حق ہے ۔ کسی ایسے شخص کو جو کسی اور میدان کا ہو تو اسے اسی شعبے کے کسی مؤقر شخص سے موسوم اعزاز دیا جائے۔ مثلاً اگر کسی تعلیمی ادارے سے متعلق یا طِب جیسے شعبے سے وابستہ شخص کو سرسید اعزاز یا میڈیکل(طب) کا ایک اہم نام ڈاکٹر مختار انصاری سے موسوم ایوارڈ دیا جائے، جنہوں نے انگلینڈ سے ایم ڈی اور پھر ایم ایس کیا اور وہ بھی اُس دور میں کہ جب ڈاکٹر بننا مشکل ترین عمل تھا یہاں یہ ذکر بھی غیر ضروری نہیں کہ یہی ڈاکٹر مختار انصاری کانگریس جیسی تنظیم کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ کوئی شاکی نہیں ہوگا اگر ڈاکٹر مختار انصاری سے موسوم ایوارڈ کسی ڈاکٹر یا طبیب کو دِیا جائےمگر اقبال سے موسوم اعزاز کسی ایسے فرد کو دِیا جاتا ہے کہ جو اقبال کی شاعری کی تفہیم تو کجا اس کے اشعار بھی صحیح طور پر پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو ، اقبال جیسے شاعر کی توہین ہوگی اور ہم جیسے لوگوں پر فرض ہے کہ ایسی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کریں یہ تحریر اسی عمل کا ایک معمولی سا اظہار ہے۔ کسی کی توہین یا کسی شخص کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں۔ اللہ دِلوں کا حال جانتاہے۔