
عمارت ودیگر تعمیراتی کارکنوں کے فلاح و بہبود حکومت کے لئے زبردست چیلنج
ممبئی : (پریس ریلیز) آج ملک میں غیر منظم سیکٹر میں تقریباً ملک کی 93% آبادی کام کر رہی ہے-لیکن آج انکی سماجی و معاشی حالات ابتر ہے- انکی غریبی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے- اکثر محنتکش افراد کو روز گار کے لئے دربدر کی ٹھوکر کھانی پڑتی ہے-انھیں ہر روز کام بھی نہیں ملتا اور اگر کام ملے تو اجرت مناسب نہیں ہوتی ہے- ایسے کم تنخواہ والے مزدور اپنی صحت کو لیکر بھی پریشان نظر آتے ہیں-سماجی تحفّظ کی اسکیمات بھی ناکافی ہیں- غیر منظم سیکٹر میں کام کر رہے لوگوں میں عمارت دیگر تعمیراتی مزدوروں کی ایک بہت بڑی تعداد نظر آتی ہے، جو اپنے جان پر کھیل کر مختلف تعمیراتی پروجیکٹس کو نقشہ سے زمین پر اتارنے کا کام کرتے ہیں ،لیکن انکی خود کی زندگی بہت مشکل میں نظر آتی ہے- لیبر موومنٹ کے برسوں کی محنت کے بعد حکومت ہند نے” عمارت اور دیگر تعمیراتی ورکرز ایکٹ، 1996″ کے تحت ان محنت کشوں کی فلاح و بہبودگی کے لئے ایک کوشش کی، لیکن ریاست مہاراشٹر میں انھیں ابھی تک اس کوشش سے خاطر خواہ فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے-
مذکورہ بالا قانون کے تحت دس لاکھ روپیہ کی لاگت والے تمام پروجیکٹس پر کل لاگت کا ایک فیصد محصول عائد کر کے ویلفیئر فنڈ کا انتظام کیا گیا تھا- سال 2011 میں مہاراشٹر کی ریاستی حکومت نے پروجیکٹ کی لاگت کو دس لاکھ سے کم کر کے پانچ لاکھ روپیہ کر دیا اور اس قانون کے تحت ایک ویلفیئر بورڈ کا قیام عمل میں آیا –مزدوروں کے ویلفیئر کے لئے فنڈ تعمیراتی کام میں لگے ٹھیکیداروں یا پروجیکٹ مالکان سے وصول کیا جاتا ہے، آج اس بورڈ کے پاس تقریباً پانچ ہزار کروڑ روپیہ جمع ہے ، لیکن ریاستی حکومت اس فنڈ کا 6%بھی استعمال نہیں کر پائی ہے-میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست میں کل55 لاکھ تعمیراتی مزدور ہیں لیکن ابھی تک اس اسکیم کے تحت لگ بھگ تین لاکھ مزدوروں کا ہی رجسٹریشن ہو پایا ہے- مزدوروں کا اس اسکیم کے تحت رجسٹریشن کا عمل بہت مشکل ہے- یہی وجہ ہے کہ دیگر سرکاری فلاحی اسکیموں کی طرح ہی یہ اسکیم بھی نفاذ کی سطح پر فیل نظر آتی ہے-
اس اسکیم کے تحت ایک تعمیراتی پروجیکٹس میں جتنے لوگ بھی شامل ہوں، چاہے وہ پلمبر ہو،پینٹر ہو، بجلی کا کام کرنے والا ہو، کارپنٹر ہو یا پھر اینٹ و سیمنٹ ڈھونے والے مزدور سبھی لوگ کنسٹرکشن ورکر کہلاتے ہیں اور اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہیں-حکومت ہند کی اس سکیم کے تحت رجسٹرڈ مزدور کے شادی سے لیکر موت تک مالی مدد کا نظم کیا گیا ہے- اس اسکیم کے تحت مزدوروں کو انکی صحت سے لیکر انکے بچوں کی تعلیم ، موت ہو جانے کی صورت میں معاوضے کے ساتھ ساتھ مزدور کی بیوی کو پنشن تک کا انتظام ہے- آئیے اس اسکیم سے ملنے والی سہولیات پر ایک نظر ڈالتےہیں-
مزدور کی پہلی شادی کے اخراجات کے لئے دس ہزار روپیہ کی مالی مدد کا انتظام ہے- اسکے علاوہ میڈیکل کے تعلق سے رجسٹرڈ مرد کارکن کی بیوی اور / یا رجسٹرڈ خواتین کارکن کو نارمل زچگی کے لئے دس ہزار روپے اور آپریشن سے زچگی کے لئے پندرہ ہزار روپے کی مالی امداد،جو دو زچگی تک ملتا ہے،دو لڑکیوں کی ولادت کے بعد فیملی پلاننگ کرانے والے مزدوروں کی دونو ں بچیوں کو پچیس پچیس ہزار روپیے کا فکسڈ ڈپازٹ بنک میں کرایا جاتا ہے-جو بچیوں کے اٹھارہ سال کی عمر مکمّل کرنے پر ملتا ہے- مزدور کے فیصد 75 یا اس سے زیادہ مستقل معذوری کے معاملے میں ایک لاکھ روپے کی مالی امداد مزدور اور اس کی / اس کے خاندان کے ارکان کو شدید بیماریوں کے علاج کے لئے پچیس ہزار روپے کی طبی امداد اور موت ہو جانے کی صورت میں تدفین کے لئے پانچ ہزار روپیے کے ساتھ ساتھ مزدور کی بیوہ یا شوہر کو پانچ سال تک بارہ ہزار کی مالی مدد کا انتظام کیا گیا ہے-مزدور کی موت ہو جانے کی صورت میں دو لاکھ روپیے وارث کو دیا جاتا ہے- مزدور کے ہسپتال میں بھرتی ہونے کی صورت میں اس کی / اس کے شوہر یا بیوی کو سو روپیہ یومیہ خرچ کے لئے مالی مدد دی جاتی ہے-
جہاں تک تعلیمی امداد کا تعلق ہے تو اس اسکیم کے تحت پہلی سے ساتویں کلاس میں پڑھ رہے بچو کو ایک ہزار دو سو روپے اور آٹھویں سے دسویں کلاس میں پڑھ رہے بچوں کو دو ہزار چار سو روپے، دسویں اور بارہویں کلاس کے امتحان میں٪ 50 یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے بچوں کے لئے پانچ ہزار روپے، گیارہویں اور بارہویں کلاس میں پڑھ رہے بچوں کو پانچ ہزار روپے، گریجویشن کورس میں پہلے، دوسرے، تیسرے اور * چوتھے (* چوتھے سال، اگر قابل اطلاق ہو) سال میں پڑھ رہے بچوںکو پندرہ ہزار روپے، حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کالج یا انسٹی ٹیوٹ میں میڈیکل اور انجینئرنگ کا کورس کر رہے بچوں کے لئے پچاس ہزار روپے اور حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ ڈپلوما کورس میں پڑھ رہے بچوں کو دس ہزار روپے کی تعلیمی مددکا نظم کیا گیا ہے- یہ تمام سہولتیں زیادہ سے زیادہ دو بچوں کے لئے ہے-
اس اسکیم کا فائدہ اٹھانے کے لئے مزدور کو مہاراشٹر حکومت کے عمارت و دیگر تعمیراتی کارکن بہبود بورڈ میں اپنا نام رجسٹر کرانا ہوگا – اس کے لئے ضروری ہے کہ، مزدور کی عمر 18 سے 60 سال کے درمیان ہو اور گزشتہ بارہ ماہ کے دوران کم سے کام 90 دنوں تک تعمیراتی کام کیا ہو- اس منصوبہ کے تحت رجسٹریشن کے لئے عمر سرٹیفکیٹ، موجودہ کنٹریکٹر سے سرٹیفکیٹ یا لیبر یونین سے تصدیق شدہ حلف نامے اور پاسپورٹ سائز کی تین تصاویر کی ضرورت ہوتی ہے- بورڈ کی طرف سے مقررپچیس روپیہ کی فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے-
یوں تو ریاست میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئےکئی تنظیم سرگرم عمل ہیں، لیکن اب ریاست کی جانی مانی عوامی تحریک “موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس” ان دنوں عمارت اور دیگر تعمیراتی ورکرز کو ان کا حق دلانے کے لئے ریاستی مہم چلا رہی ہے، جس کا مقصد عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ اس فلاحی منصوبہ بندی کے مکمل نفاذ کے لیے حکومت پر دباؤ بنانا ہے-اس تنظیم نے ریاست کے مختلف حصوں میں مزدوروں کی مکمل رہنمائی کیلئے کیمپ، کارنر اور عوامی میٹنگز کا اہتمام کیا ہے- تنظیم کے جنرل سکریٹری افسر عثمانی کا کہنا ہے کہ، ہماری یہ مہم گاندھی جینتی سے شروع ہو کر 26 نومبر 2016 تک چلے گی- انہونے نے کہا کہ یہ مہم غیر منظم سیکٹر کے تمام ورکرز کے لئے ہے،لیکن ہم اس مہم کے دوران تعمیراتی مزدوروں کے ساتھ ساتھ گھریلو ورکر پر فوکس کر رہے ہیں، کیونکہ غیر منظم سیکٹر میں انکی بہت بڑی تعداد کام کر رہی ہے-