
ڈاکٹر عبد الکریم نائک کی رحلت،ہزاروں سوگواروں کے بیچ ناریل واڑی قبرستان میں تدفین

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:(معیشت نیوز)ممبئی کی مشہور سماجی و ملی شخصیت ڈاکٹر عبد الکریم نائک کا آج صبح حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔انا لللہ واناالیہ راجعون۔موصوف کئی برسوں سے مسلسل بیمار چل رہے تھے۔۸۷سالہ ڈاکٹر نائک کےپسماندگان میں ان کے دو بیٹے ڈاکٹر ذاکر نائک وڈاکٹر محمد نائک جبکہ ایک بیٹی سلویٰ رسول اور ان کی بیوہ ہیں۔ڈاکٹر عبدالکریم نائک کی تدفین ممبئی کے ناریل واڑی قبرستان میں عمل میں آئی جہاں ممبئی کی معزز و بااثر شخصیات سیکڑوں کی تعداد میں موجود تھیں۔ڈاکٹر عبدالکریم نائک کی رحلت سے ممبئی کی فضا دوبارہ سوگوار ہوگئی ہےکیونکہ ایک روز قبل ہی ممبئی کی ملی شخصیت ہارون موزہ والا کا انتقال ہوا ہے اور پھر یہ دوسرا ملی صدمہ اہل ممبئی کو پہنچا ہے۔
ڈاکٹر عبد الکریم نائک مختلف اداروں سے وابستہ تھے جبکہ مشہور زمانہ مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ادارہ اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کو قائم کرنے میں ڈاکٹر عبد الکریم نائک نے ہی اہم کردار ادا کیا تھا۔معیشت کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض کے مطابق’’ڈاکٹر ذاکر نائک کو عالمی مبلغ بنانے میں ان کے والد کا اہم رول رہا ہے،ایک مرتبہ دوران گفتگو ڈاکٹر عبدالکریم نائک نے کہا تھا کہ ’’جب احمد دیدات نےمجھ سے دعوتی امور پر گفتگو کی اور اس کام کی اہمیت کا تذکرہ کیا تو میں نے ذاکر کو بلوایا اور ان سے تعارف کروایا پھر کچھ عرصہ کے لیے ذاکر کو ان کے پاس ڈربن بھیج دیا۔ڈربن سے واپسی کے بعد میں نے ذاکر سے کہا کہ تم ایک ادارہ قائم کرو اور اس کام کا باقاعدہ آغاز کردو۔لہذا ذاکر نے میری کلینک کی جگہ سے ہی دعوتی امور انجام دینا شروع کیا اور دھیرے دھیرے اپنا حلقہ اثربنانا شروع کردیا‘‘۔دانش ریاض کے مطابق’’یہ بڑا المیہ ہے کہ ڈاکٹر عبد الکریم نائک کا ایسے وقت انتقال ہوا ہے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائک مٹی میں شامل ہونے سے بھی محروم رہ گئے ہیں‘‘۔دانش ریاض کے مطابق’’ڈاکٹر عبدالکریم نائک جب ممبئی کے چار نل پر واقع آفس میں بیٹھا کرتے تھے تو بڑی تعداد میں بیوائوں ،یتیموں اور ضرورت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی جو اپنے مسائل لے کر موصوف کی کلینک میں آتے تھے اور پھر مسکراتے چہروں کے ساتھ واپس جاتے تھے۔نوجوانوں کو رشتہ ازدواج میں باندھنا اور بہتر رشتہ تلاش کر جوڑا بنانا بھی موصوف کے کاموں میں شامل تھا بلکہ وہ غریب جوڑوں کے شادی کے مکمل اخراجات بھی خود ہی برداشت کرتے تھے۔میں نےان کے ساتھ ایران کا سفر کیا تو آٹھ دنوں تک ان سے استفادہ کا موقع ملا،دلچسپ بات تو یہ ہوئی کہ انہوں نے ایک ایرانی دوشیزہ سے میرا نکاح پڑھوانا چاہا جو انہیں وہاں پسند آگئی تھی ۔موصوف نے مولانا ظہیر عباس رضوی صاحب کی موجودگی میں کہا کہ ’’دانش !یہ دوشیزہ تمہاری زندگی کے لیے بہتر ثابت ہوگی اگر تم اجازت دو تو مولانا کو بھیج کر ان کے گھر والوں کو بلوالوں،اس سفر میں میں بھی تو کچھ نیک کام کر لوں ‘‘۔دانش کہتے ہیں’’ڈاکٹر صاحب کو مجھ سے اتنی محبت تھی کہ جب بھی کوئی تحریر پڑھتے تو فوراً فون کرتے اور مبارکباد دیتے۔ایک بار انہوں نے ایک تصویر لینے کے لیے کہا میں نے کیمرہ نہ ہونے کی معذوری ظاہر کی تو انہوں نے اپنے اسٹاف میں شامل محمد حنیف کو رقم دے کر بھیجا اور میرے لیےایک کیمرہ منگوا دیا۔شاید صحافت کے میدان میں کام کرتے ہوئے یہ پہلا کیمرہ تھا جو ڈاکٹر عبدالکریم نائک نے مجھے دیا تھا۔‘‘
ممبئی کانگریس کے نائب صدر مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں’’ڈاکٹرعبد الکریم صاحب کی شخصیت ہر دلعزیر رہی ہے، انہوں نے اپنے آپ کواپنے بیٹے ڈاکٹر ذاکر نائک کے علی الرغم ہمیشہ تنازعات سے دور رکھا ہے۔دورہ ایران کے دوران ان کا قیام شیعہ رہنما مولانا کلب صادق صاحب کےساتھ تھا ،دونوں احباب ایک ہی کمرے میں رکے تھے اور بڑی ہی اچھی گفتگو کی تھی۔ڈاکٹر صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ وہ مسلکی تعصب سے دور تھے۔انہوں نےکافی خدمات انجام دی ہیں۔جب ضرورت مندوں کو بھیجا ہے تو اس کا لحاظ کرتے تھے۔انہیں ادب سے بھی خاص شغف تھا لہذا ’’نقش کوکن‘‘کے نام سے ایک ادبی پرچہ جاری کیا تھا۔ان کے انتقال سے ہم تمام کو افسوس ہوا ہے‘‘۔مولانا کہتے ہیں’’ڈاکٹر صاحب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ شیعہ سنی تنازعات سے دور رہنا چاہتے تھے وہ کہتے تھے’’میں ’’مسلکی لپھڑا‘‘سے دور رہنا چاہتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی باتوں کی وجہ سے ہی یادکیاجاتاہے‘‘۔
مشہور سماجی شخصیت ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ڈاکٹر عبد الکریم نائک جب بیس پچیس سال کے تھے اسی وقت سے ہی سماجی طور پر متحرک ہوگئے تھے۔ انہوں نے اچھے کاموں کا آغاز کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔وہ پیشہ سے سائیکریٹکس ڈاکٹر تھے لہذا ہر کسی کی نفسیات کو سمجھتےتھے۔وہ مجھ سے بڑے تھے اسلئے میں قدر کرتا ہوں۔ذاکر اپنی زبان کی وجہ سے بدنام ہیں جبکہ ڈاکٹر نائک اپنی زبان کی وجہ سے ہی یاد کئے جاتے ہیں۔انہوں نے کوکن کانفرنس کرکے تعلیم کی طرف کوکن کمیونیٹی کو مائل کیا ۔کوکن کمیونیٹی کے لئےحاجی عبد الرزاق کالسیکر کے بعدڈاکٹر عبد الکریم نائک کی رحلت بڑا نقصان ہے۔‘‘
ڈاکٹر نائک سے قریب رہے صحافی امتیاز خلیل کہتے ہیں’’رحمانی فائونڈیشن کا قیام، ڈاکٹر ذاکر کو ذاکر نائک بنانے کی کوشش اور پھر یہ کہ نوجوانوں کی رہنمائی ڈاکٹر صاحب کی خاص پہچان تھی۔دراصل ان کا شمار شخصیت ساز لوگوں میں ہوتا تھا‘‘امتیاز کہتے ہیں’’وہ اکثر کہا کرتے تھے’’امتیاز!یہ بہت الگ شہرہے ،ایماندار لوگوں کی قدر کرنے والا شہر ہے ۔لہذا ہمیشہ ایماندار رہنا تمہاری قدر کی جاتی رہے گی۔ان کا خاصہ یہ تھا کہ وہ نوجوانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے تھے و ہ کھبی یہ نہیں کہتے تھےکہ فلاں کے پاس چلے جائو تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ از خود مسئلہ کو حل کرتے تھے۔۔کوکنی کمیونیٹی کو جو مقام ڈاکٹر صاحب نے دلایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پوری کمیونیٹی اس کی مقروض ہے‘‘۔
جامعۃ الفلاح کے ناظم مولانا محمد طاہر مدنی تعزیتی پیغام میں کہتے ہیں’’ چند دنوں کے فرق سے ممبئی میں دو اہم شخصیات کا سانحہ ارتحال ہوا. انا لله وانا الیہ راجعون پہلے جناب ھار ون موزہ والا داغ مفارقت دے گئے. بڑی متحرک شخصیت تھی. مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر ملی اداروں کی بڑی خدمت کی. ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور خدمت خلق ان کا شیوہ تھا، جامعہ سے بڑا تعلق رکھتے تھے، کئی سال قبل یہاں تشریف بھی لائے تھے .ڈاکٹر عبد الکریم نائک کی شخصیت بھی بہت ہردلعزیز تھی اور ایک لمبی مدت تک وہ خدمت خلق کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے رہے. تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی کاموں میںبہت دلچسپی لیتے تھے.اللہ تعالی مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور متعلقین کو صبر دےـ‘‘ (آمین)