رہنما اصولوں کی دستوری درجہ بندی اور لا کمیشن کی انتہا پسندی

law-commission

ڈاکٹر سید ظفر محمود

دستور ہند ‘ پارٹ IVکے 17 دفعات میں جو 25 رہنما اصول(Directive Principles) دئے ہوے ہیں ان میںسے ہر ایک کے شروع میں مختلف اقسام کے الفاظ قصداًاستعمال کئے گئے ہیں جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے کس رہنما اصول کی کتنی شدت(Intensity) طے کی ہے اور اُس کا ترجیحی مقام (Priority)کیاہے۔ اس میزان پر ان 25 رہنما اصولوں کومند جہ ذیل ڈھلتے ہوے ترتیب وار 9 درجہ بند زمروںیا کیٹگریوں(9 categories in descending order)میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ ان رہنما اصولوں کا مکتوب الیہ (Addressee)ہے اسٹیٹ(State) اور آرٹکل 12کے مطابق’’اسٹیٹ‘‘ میںمرکزی‘ صوبائی حکومتیں‘ پارلیمنٹ واسمبلی شامل ہیں۔رہنما اصولوں کے زمرہ نمبر1 میں آتا ہے آرٹکل 47 کا پہلا حصہ جس کے شروع کے الفاظ ہیںThe State shall regard among its primary duties یعنی حکمراں لوگ اپنی اولین ڈیوٹی سمجھ کر لوگوں کی زندگی‘ غذائیت و صحتیابی کی سطح کو اونچا اٹھائیں گے۔ زمرہ نمبر 2میں آرٹکل 46 آتا ہے جس میںحکومت کی ذمہ داری عائد کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں The State shall promote with special care یعنی حکمرانوں کی ڈیوٹی ہے کہ کمزور طبقوں کے تعلیمی و اقتصادی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دیں اور ان لوگوں کو سماجی نا انصافی و ہر طرح کے استحصال سے محفوظ رکھیں۔زمرہ نمبر 3 میں آتا ہے آرٹکل 39(a),(b),(c) جس میں شروع کے الفاظ ہیں The State shall direct its policy یعنی ملک کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پالسی کی اس طرح تشکیل کریں کہ (a) مرد اور عورت شہریوں کو مناسب زندگی گذارنے کا برابر کا موقع ملے‘ (b) مادّی وسائل (Material resources) کی ملکیت اور ان پر کنٹرول کو ملک کے لوگوں میں اس طورسے تقسیم کیا جائے کہ جس سے مفاد عامہ(Common good) کو فروغ ملے نہ کہ صرف چند لوگوں کے مفاد کو اور(c) ملک کا اقتصادی سسٹم ایسا ہو کہ اس سے ملک کی دولت اور کارخانے صرف چند افرادکے ہاتھوں میں سمٹ کے نہ رہ جائیں۔

رہنما اصولوں کے زمرہ نمبر 4 کے تحت آرٹکل 39A آتا ہے جس میں شروع کے الفاظ ہیں The State shall secure یعنی حکمرانوں کی ڈیوٹی ہے کہ مفت قانونی مدد کی اسکیمیںبنائیںتاکہ کسی بھی شہری کو انصاف حاصل کرنے کے لئے دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ زمرہ نمبر 5 میں آرٹکل 49 آتا ہے جس کے الفاظ ہیں It shall be the obligation of the State یعنی حکمرانوں کا یہ فریضہ ہے کہ ہر اس قدیمی عمارت واثاثہ کو جسے پارلیمنٹ قومی اہمیت کاقرار دے ‘ اسے خراب و بربادہونے ‘ فروخت ہونے یا ملک سے باہر جانے سے محفوظ رکھے۔ زمرہ نمبر 6 کے تحت آتے ہیں آرٹکل 41 اور 42 جن کے شروع میں الفاظ استعمال ہوے ہیں The State shall make provision یعنی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کوحق دلائیں(i)کام کرنے کا ‘ (ii) تعلیم کا اور (iii) بے روزگاری‘بڑھاپے‘بیماری ومعذوری میں سرکاری امداد کا۔ ساتھ ہی یہ بھی سرکاری ذمہ داری ہے کہ(iv) روزگار کے دوران ہمدردانہ و مشفقانہ ماحول قائم رہے اور(v) زچگی کے لئے خواتین کو مناسب امداد بھی ملے۔زمرہ نمبر7 میں چار آرٹکل آتے ہیں 40,43A,48(ii),50جن کے الفاظ ہیں The State shall take steps یعنی حکمرانوں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ اس کا انتظام کریں کہ(i) گائوں میں خود مختارپنچایتیں بنیں‘ (ii) کارخانوں کے انتظامیہ میں مزدورں کی حصہ داری ہو‘(iii) زراعت اور جانور پالنے کا ماڈرن سائنسی بندوبست کیا جائے‘ گائے اور دیگر دودھ دینے والے اور وزن اٹھانے والے جانوروں کے زبیحہ پر پابندی لگائی جائے اور (iv) حکومت کی عوامی خدمات میں عدلیہ اور انتظامیہ کوایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔

آخر کے دو زمروں میں شروع کے سات زمروںکے مقابلہ میں کافی مختلف الفاظ استعمال ہوے ہیں۔ زمرہ نمبر8 کے تحت آتے ہیں آرٹکل 38(1) اور 38(2)(i) جن کے شروع میں الفاظ استعمال ہوے ہیں The State shall strive یعنی ملکی حکمراں خوب کوشش کریں کہ(i) وہ ملک میںایک ایسا معاشرہ مہیا کرائیں جس میں سماجی ‘ اقتصادی اور سیاسی انصاف قومی زندگی کے ہر شعبہ میںموئثر انداز میںسرایت کر جائے اور(ii) مختلف لوگوں کی آمدنی میں کمترین عدم مساوات رہ جائے ۔ رہنما اصولوں کے آخری زمرہ نمبر 9 کے تحت آٹھ آرٹکل رکھے گئے ہیں: 38(2)(ii),43,44,45,47(ii),48(i),48A,51جن کے شروع میں بالکل ہی مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں The State shall endeavourیعنی ملک کے حکمراں ’کوشش کرلیں ‘ کہ(i) لوگوں کی حیثیت(Status) اور ان کے لئے مہیا سہولتوں اور مواقع میں عدم مساوات ختم ہو جائے ۔ (ii) زرعی‘ صنعتی و دیگر کام کرنے والے مزدوروں کو کام ملے اور ان کومعقول زندگی ‘ فرصت کے اوقات‘ سماجی و ثقافتی مواقع فراہم ہوں اور گھریلو صنعت کاری کو فروغ ملے‘ (iii) شہریوں کے لئے ملک گیر پیمانہ پر یکساں سول کوڈ مہیا ہو‘ (iv) 14 برس کی عمر تک کے تمام بچوں کے لئے مفت و لازمی تعلیم مہیا ہو‘ (v) شراب نوشی ممنوع قراردی جائے ‘ (vi)زراعت اور جانور پالنے کے لئے ماڈرن سائنسی طریقے اختیار کئے جائیں‘(vii)آب و ہوا اورجنگلات و حیوانات کی حفاظت وکفالت کی جائے اور(viii) بین الاقوامی امن و تحفظ کو فروغ ملے‘ ملکوں کے مابین منصفانہ و با ادب تعلقات رہیں‘ بین الاقوامی قوانین و صلح ناموں کی پاسداری ہو اور بین الاقوامی تنازعہ کا تصفیہ آربٹریشن سے ہو ۔

معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی آسانی سے جان سکتا ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے بہت سوچ سمجھ کے رہنما اصولوں کی یہ درجہ بندی9 زمروں(Categories) میںکی ہے جن میں استعمال شدہ مختلف اقسام کے شروعاتی الفاظ سے طے ہو جاتا ہے کہ کس اصول کو کس پرترجیح دی جائے۔رہنما اصول وصیلہ ہیں اقتصادی اور سماجی جمہوریت کے فروغ کے لئے اور ان کا مقصد ہے اجتماعی فلاح و بہبود ‘ مادّی وصائل کی متناسب تقسیم‘ شراب نوشی کا اختتام اور عوام کو اور زیادہ حقداری دیناجبکہ آرٹکل 37 میں صاف کر دیا گیا ہے کہ رہنما اصولوں کو نافذ کرنے کے لئے عدلیہ کو اختیار نہیں ہے۔بلکہ اس کے لئے ملک کی نبض کو پہچاننا ضروری ہے۔اگر عوام کا ایک بڑا طبقہ کسی رہنما اصول کو پسند نہیں کر تا ہے تو اس کو زبردستی نافذ کرنا دستورکی روح اور اس کے ڈھانچہ کو چوٹ پہنچانا ہے۔ کسی رہنما اصول کا استعمال حکومت وقت کے ذریعہ اس لئے نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی پارٹی کا الکشن میںسیاسی فائدہ ہو‘ ایسا کرنا دستور کا مذاق اڑانا ہے۔ ویسے بھی یکساں سول کوڈ لانا آسان نہیں ہے‘ سب سے پہلے تو اس کے ذریعہ ہندو مذہب میں ذات ختم کرنی ہو گی۔ پھربرہم سوترا 1.3.36 کا نفاذ ہندو مذہب سے ختم کرنا ہو گا جس میں صرف دو دفعہ جنم لینے کے بعد ہی انسان ویدوں کو پڑھ سکتا ہے یعنی کہ شودر اور خواتین وید پڑھ ہی نہیں سکتیں۔پھر اس ہندو رواج کو ختم کرنا ہو گا جس میں ہندو لڑکے کو’ اُپناینا ‘کرنے کے بعد ہی ویدوں کو پڑھنے کی اجازت ہے اور لڑکیوں کے لئے ایسی بھی اجازت نہیں ہے۔ پھر انکم ٹیکس قانون میں ہندوغیر منقسم خاندان(Hindu Undivided Family: HUF) کے لئے ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنی ہو گی‘ وغیرہ۔بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔خیر اسی میں ہے کہ لا کمیشن یکساں سول کوڈ پرعوام سے اپنی اپیل واپس لے لے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *