’’اپنے تنازعات قومی عدالتوں کے بجائے دارالقضاء اور شرعی پنچایتوں کے ذریعہ حل کروائیں‘‘

دو روزہ قومی سیمینار میں فقیہ الامت ناظم جامعۃ الفلاح حضرت مولانا محمد طاہر مدنی حفظہ اللہ کےخطبہ استقبالیہ کا مکمل متن
الحمدللہ رب العالمین والسلام علی رسولہٖ الامین وعلی آلہ واصحابہٖ الطیبین الطاہرین ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔ امابعد!
محترم صدر مجلس، مہمانان گرامی قدر، معزز اساتذہ کرام ، قابل احترام معلمات اور عزیز طلبہ و طالبات! ’’اسلام کا عائلی نظام – انسانیت کے لئے رحمت کا پیغام‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے دو روزہ سمینار میں صمیم قلب سے آپ سب کا استقبال کرتے ہوئے بڑی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ مہمانان گرامی قدر دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر تشریف لائے ہیں اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
حضرات! سمینار کا موضوع بہت اہم ہے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کیوں کہ اس وقت اسلام کے عائلی قانین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تین طلاق، تعداد ازدواج اور نکاح تحلیل کے حوالے سے اسلامی شرعی قوانین کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں تین طلاق کا معاملہ زیر سماعت ہے اور حکومت نے اپنے حلف نامہ میں شرعی قوانین پر حملہ کیا ہے۔ لاء کمیشن نے عیارانہ سوالنامہ جاری کرکے یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ ان حالات میں اسلام کے عائلی نظام کی خصوصیات، امتیازات اور ثمرات کو واضح کرنا از حد ضروری ہے۔ اللہ کا شکر ہے اس وقت پورے ملک میںایک بیداری کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں ملت اسلامیہ ہند تحفظ شریعت کے لئے متحدہ جدوجہد کر رہی ہے اور خواتین اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ اس مہم کو مزید کامیاب بنانے کے لئے اسلام کے عائلی نظام کا وسیع تعارف اور اس کی خوبیوں کو بڑے پیمانے پر اجاگر کرنا بھی ضروری ہے، داخلی احتساب اور اپنے سماج کی اصلاح بھی ناگزیر ہے، یہ سمینار اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔ ہمارے پیش نظر ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہماری معزز معلمات اور عزیز طالبات اس موضوع پر تیار ہوں اور ملت کے موقف کی موثر ترجمانی کر سکیں۔
محترم خواتین و حضرات! اسلام کا خاندانی نظام باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پرقائم ہے۔ شادی کا مقصد تحفظ عفت اور بقائے نسل ہے۔ زوجین کے درمیان الفت و محبت کواللہ کی نشانی قراردیا گیاہے اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید شدید ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی مختلف حیثیتوں سے عزت و تکریم کا مقام عطا کیا ہے۔ عورت محض سامان تسکین نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کی تعمیر اور نئی نسل کی تربیت میں شریک کار ہے۔ انسانی زندگی حسن و خوبی کے ساتھ اسی وقت چلتی ہے جب اپنے اپنے دائرہ کار میں مرد و عورت اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کریں اور افراط و تفریط سے احتراز کریں۔ قدیم و جدید جاہلیت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ آزادی اور برابری کے پرفریب نعروں کے ذریعہ عورت کو اس کے دائرہ کار سے باہر نکال کر اسے جنس بازار بنانا چاہتی ہے۔
اسلام کے عائلی نظام کے جن احکام کو نشانہ بنایا جاتاہے ان میں طلاق سرفہرست ہے حالانکہ طلاق مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ کا حل ہے۔ جب نباہ مشکل ہو جائے تو مناسب یہی ہے کہ طلاق کے ذریعہ رشتہ ختم کردیاجائے اور بھلے طریقے سے رخصت کردیاجائے۔ اس کے لئے قرآن و سنت میں مناسب طریقہ بتایاگیاہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق دینا چاہئے تاکہ عدت میں واپس لینے اور بعد عدت نکاح کرنے کی گنجائش موجود رہے لیکن اگر کوئی شخص نادانی کرتا ہے اور بیک وقت تین طلاق دیتا ہے تو اگر چہ یہ غیر مناسب طریقہ ہے لیکن طلاق کا وقوع ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک یا تین ، اس مسئلے میں دو رائیں ہیں۔ جس کو جس عالم پر اعتماد ہے اس سے رجوع کرتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ یہ ایک شرعی معاملہ ہے اسے عدالت یا پارلیمنٹ نہیں طے کر سکتی اس کا تعلق دین سے ہے جسے اہل علم اور ارباب افتاء ہی طے کریں گے۔
اسی طرح تین طلاق کے بعد عورت شوہر کے لئے حرام ہوجاتی ہے اب اگر اس کا کہیں اور نکاح ہو اور اتفاقیہ طور سے وہاں جدائی ہو جائے تو پہلے شوہر سے از سر نو نکاح ہو سکتا ہے لیکن طے شدہ اسکیم کے تحت نکاح کرنا اور طلاق دینا ، تاکہ پہلے کے لئے حلال ہو جائے، یہ ایک حرام فعل ہے۔ ایسے اشخاص پر حدیث میں لعنت بھیجی گئی ہے۔ ایسے لوگ سخت تعزیر کے مستحق ہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک ایسے عمل سے سابق شوہر کے لئے عورت حلال نہ ہوگی کیوں کہ یہ نکاح متعہ کے مانند ہے جو بالاتفاق حرام ہے۔بعض فقہاء نے ظاہری پہلو کو دیکھا ہے اور چونکہ قانونی تقاضے پورے ہو رہے ہیں اس لئے سابق شوہر سے نکاح جائز قرار دیا ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے والے اور وہ لوگ جو طے شدہ اسکیم کے تحت نکاح تحلیل کرتے ہیں جسے عرف عام میں حلالہ کہا جاتاہے۔ تعزیر کے مستخق ہیں۔ ایسے ناپسندیدہ اعمال کی ہمت شکنی اور روک تھام کے لئے تعزیر کی کوئی شکل بننی چاہئے ، وہ جرمانہ کی شکل میں ہوسکتی ہے یا جیل کی شکل میں۔ اس کے لئے شریعت اپلیکیشن ایکٹ میں ترمیم لانی ہوگی۔
محترم حضرات! سرکار نے تعداد ازدواج کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ حالانکہ سروے یہ بتاتاہے کہ مسلمانوں میں اس کا چلن کم ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا جواز نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اسلام نے مرد کو ایک وقت میں چار تک شادی کی اجازت دی ہے۔ البتہ یہ اجازت عدل کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ جو حکم نص قرآنی سے ثابت ہو اسے کون ختم کرسکتا ہے؟ غور کیاجائے تو اس حکم شرعی کی حکمتیں اور مصلحتیںواضح ہوںگی۔ یہ کوئی لازمی حکم بھی نہیںہے جس کی پابندی سب کے لئے ضروری ہو، ایک اجازت ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار اللہ کا مخصوص حق ہے۔ کسی عدالت، قانون ساز ادارے یا حکمراں کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کر سکے۔
سمینار میں اس طرح کے مختلف موضوعات پر مقالات پیش ہوں گے اور سوالات و جوابات کا سلسلہ چلے گا۔ قراردادیں بھی منظور ہوں گی خصوصی خطابات بھی ہوں گے۔ اور اسلام کے عائلی نظام کی برکتوںکو اجاگر کیا جائے گا۔ ایک سروے رپورٹ بھی پیش ہوگی جس میں مطلقات و بیوگان کی Case Study کے نتائج ہوں گے۔
محترم خواتین و حضرات!
آزادی کے بعد مختلف اوقات میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ اٹھایا جا تا رہا ہے۔ اس وقت مرکزمیں جو برسراقتدار سیاسی جماعت ہے اس کا یہ پسندیدہ موضوع ہے۔ سیاسی فائدہ اٹھانے اور عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کے مسائل چھیڑ دیئے جاتے ہیں حالانکہ ہمارا ملک ایک تکثیری سماج والا ملک ہے یہاں بہت سارے مذاہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں ان کا اپنا اپنا پرسنل لاء ہے جس پر صدیوں سے عمل پیرا ہیں یہاں یکساں سول کوڈ ناممکن ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں سوالنامہ تو جاری کیا ہے لیکن اس نے اس کا کوئی مسودہ نہیں پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے تو انہیں ڈرافٹ تیار کرنا چاہئے پھر اسے اہل ملک کے سامنے بحث و مباحثے کے لئے پیش کرنا چاہئے۔
کوئی مذہبی گروپ اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کر سکتا آج پورے ملک میں ملت اسلامیہ کے خواتین و حضرات نے برملا اپنی رائے ظاہر کردی ہے کہ ہم شرعی معاملات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے ۔نکاح ،طلاق، خلع، تفریق، وراثت وغیرہ کے احکام ہمارے شرعی احکام ہیں ان میں ترمیم کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عدالت میں ایسا کوئی معاملہ اگر جاتا ہے اسے مسلم پرسنل لاء کی روشنی میں حل کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اندرون ملت ان احکامات پر عمل کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اپنی کمزوریوں کی اصلاح کی جائے۔ ملت کے اندر ایسی بیداری پیدا کی جائے کہ ہمارے عائلی معاملات سے متعلق تنازعات عدالتوں میں نہ جائیں بلکہ دارالقضاء اور شرعی پنچایتوں کے ذریعہ ہم اپنے معاملات طے کریں۔
میں ایک باربھر آپ سب کا دلی خیر مقدم کرتا ہوں اور اس سمینار میں پرتپاک استقبال کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر سے نوازے اور سمینار کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔
آمین