مسلم پرسنل لا ء میں حکومت کی مداخلت ناقابل برداشت

جامعۃ الفلاح میں منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں مقررین کا اظہار خیال
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
بلریا گنج،اعظم گڈھ(معیشت نیوز):’’ اسلامی قانون اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قانون ہے۔جس کی عملی تشکیل اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ۔ یہ انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے۔اس لئے اس قانون میں تبدیلی ممکن نہیں ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید جلال الدین عمری نے جامعۃ الفلاح میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’ساری دنیا کے مسلمان بھی اگر مل کر کچھ تبدیلی کرنا چاہیں تووہ نہیںکرسکتے ۔کیونکہ ترمیم اور تبدیلی تو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں ہوسکتی ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’’ خود اللہ کے رسول ﷺ کو بھی ترمیم کا حق حاصل نہیں تھا دراصل دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی قانون میں تبدیلی نہ تو ممکن ہے اور نہ ہم مسلمان کسی بھی حال میں اسے گوارہ کرسکتے ہیں ‘‘۔انہوں نے پرزور انداز میںکہا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے جو قوانین طے کئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود ہیں ۔ان کو پھلانگنے کی کسی بھی حال میں کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ان حدود کو توڑنے والے خود اپنا ہی نقصان کرنے والے ہیں،اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ شرعی قوانین کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے اور انکی حکمتوں ،مصلحتوں اور ضروتوں کو دنیا کے سامنے پوری شدت کے ساتھ اجاگر کیا جائے‘‘۔
واضح رہے کہ’’ اسلام کا عائلی نظام: انسانیت کے لئے رحمت کا پیغام ‘‘کے مرکزی عنوان پر عالمی شہرت یافتہ مدرسہ جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج میں دوروزہ قومی سمینار کا افتتاحی اجلاس ۵؍نومبر ۲۰۱۶ء بروز سنیچر ابواللیث ہال میںحافظ اسامہ عظیم فلاحی کی تلاوت کلام پاک اور حافظ ابرہیم اور ان کے ساتھیوں کے ترانہ جامعہ سے ہوا۔جبکہ ناظم جامعہ مولانا محمد طاہر مدنی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ سیمینار کا موضوع بہت اہم ہے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ اس وقت اسلام کے عائلی قوانین کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔تین طلاق ،تعدد ازدواج اور نکاح تحلیل کے حوالے سے اسلامی شرعی قوانین کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے تین طلا ق کا مسئلہ زیر سماعت ہے اور حکومت نے اپنے حلف نامہ میں شرعی قوانین پر حملہ کیا ہے ۔لاء کمیشن نے عیارانہ سوالنامہ جاری کرکے یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ان حالات میں اسلام کے عائلی نظام کی خصوصیات ،امتیازات اور ثمرات کو واضح کرنا ازحد ضروری ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ اسلام کے عائلی نظام کے جن احکامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ان میں طلاق سرفہرست ہے ۔حالانکہ طلاق مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ کا حل ہے‘‘۔

جناب محمد جعفر صاحب(وائس چیرمین ہیومن ویلفیر فاونڈیشن )نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایاکہ ’’مسلم پرسنل لاء شروع دن ہی سے موجودہ حکومت کے نشانہ پر ہے۔ لیکن حکومت کو مداخلت کرنے کا موقع ہم مسلمانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ملا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے جو خاندانی اور معاشرتی احکام ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ عمل کیا جائے اوراس حوالے سے عوامی بیداری پیدا کی جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ اس وقت اجتہادی صلاحیت کے حامل اہل علم کی سخت ضرورت ہے جو پیش آمدہ مسائل میں ملت کی صحیح رہنمائی کرسکیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ ایسے افراد کی تیاری کے لئے جامعۃ الفلاح کو بطور خاص پہل کرنی چاہیے‘‘۔
مولانا محمد عمر صدیق ندوی(رفیق دارالمصنّفین اعظم گڑھ) نے اپنی خصوصی خطاب میں کہا کہ’’ اس سیمینار کا انعقاد مثبت پہلو کے ساتھ ہو رہا ہے۔احتجاجی انداز اختیار نہ کرکے ایک مثبت انداز اختیار کیا گیا ہے۔اور اسلام کے عائلی نظام کی برکتوں اور رحمتوں سے دنیا کو مستفید کرنے کی کوشش جاری ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’اس بات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے کہ ہم نے اسلام کے عائلی نظام کی برکتوں سے دنیا کو باخبر کرنے کی زبانی اور عملی کوشش کس حد تک کی ہے‘‘۔
جناب نصرت علی صاحب(نائب امیر جماعت اسلامی ہند)نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ’’ لاء کمیشن نے سولہ سوالات پر مشتمل جو سوال نامہ جاری کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کرنا چاہتی ہے اور اس طرح یکساں سول کوڈ کے نفاظ کی راہ ہموار کررہی ہے جبکہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں یہ مشکل کام ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ مسلمان کسی بھی حال میں پرسنل لاء میں مداخلت برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔