عالیہ یونیورسٹی کے راجر ہاٹ کیمپس میں تعلیمی نظام ٹھپ ، کوئی پرسان حال نہیں

کلکتہ: (ایجنسی) عالیہ یونیورسٹی کا راجر ہاٹ کیمپس جہاں بی ٹیک ، ایم ٹیک ،سائنس ، ایم بی اے اور دیگر کورسیس کیلئے کلاسیں ہوتی ہیںمیںایک ہفتے سے طلباء کے مظاہرے کی وجہ سے تعلیمی نظام بالکل ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔اس عرصے میں انتظامیہ نے اب تک مظاہرہ کررہے طلباء سے بات کرنے تک کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔بلکہ طلباء کے احتجاج کو کمزور کرنے کیلئے مظاہرے میںشریک طالبات کو پولس کی مدد سے ہراساں کیا جارہا ہے۔
بنگالی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے قائم ہونے والا یونیورسٹی آئے دن تعلیمی ترقی کی وجہ سے نہیں بلکہ ہنگامہ آرائی ، طلباء کے احتجاج و مظاہرے کی وجہ سے آئے دن سرخیوں میں رہتا ہے ۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کیلئے عالیہ یونیورسٹی ووٹ بینک کا ذریعہ ہے، عالیہ یونیورسٹی کی عمارت کے ذریعہ مسلمانوں کی ترقی کا دعویٰ کرتی ہیں۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے عالیہ یونیورسٹی کیلئے دل کھول کر فنڈ بھی دیا ہے اور وہ یونیورسٹی کو عالمی معیار کا یونیورسٹی بنانے کا وعدہ بھی کرتی رہی ہیں۔یونیورسٹی عمارتوں سے نہیں بلکہ معیاری فیکلٹی اورمثالی تعلیم ماحول کی وجہ سے نیک نامی حاصل کرتی ہیں ۔مگر یونیورسٹی کے قیام کے 9سال بعد بھی عالیہ یونیورسٹی ہندوستان تو نہیں مغربی بنگال کے معیاری یونیورسٹیوں میں بھی اپنا کوئی مقام اب تک حاصل نہیں کرسکی ہے ۔
عالیہ یونیورسٹی میں احتجاج کررہے طلباء ۔( طلباء و طالبات کی درخواست پر ان کے نام یہاں پردرج نہیں کیا جارہا ہے)سے ملاقات کے دوران جو باتیں سامنے آئی ہیں اس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔احتجاج کررہے طلباء نے بتایا کہ انجینئرنگ اور شعبہ سائنس میں کل 2ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں ، مگر یہاں صرف36افراد پر مشتمل ٹیچنگ اسٹاف کا عملہ ہے ۔اس کی وجہ سے تعلیم کا معیار بالکل گرچکا ہے ۔ایم ٹیک کے طلباء کے ذریعہ کلاسیس لی جاتی ہیں ۔جب کہ یونیورسٹی کے اصول و ضوابط کے مطابق 15طلباء پر ایک ٹیچر ہونا چاہیے ۔جب کہ عالیہ یونیورسٹی میں 54پر ایک ٹیچر ہے ۔شعبہ انجینئرنگ اور سائنس فیکلٹی میں کل 137اساتذہ کی سیٹیں ہیں جس میں 36ہی اساتذہ ہیں ۔ایک طالب علم نے بتایا کہ لائبریری کی عمارت بہت ہی وسیع ہے ۔مگر کتابوں کی تعداد سیکڑوں میں بھی نہیں ہے ہم نے بار بار لائبریری میں کتابوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا مگر ہماری سنی ان سنی کردی جارہی ہے ۔اس نے بتایا کہ فیکلٹی میں لیپ کے نام پر صرف بڑے بڑے کمرے ہیں جب کہ انجینئرنگ اور سائنس کے طلباء کیلئے لیبارٹری لازمی ہے ۔اسی طرح ریسرچ کا شعبہ بھی خستہ حالی کا شکار ہے ۔پہلے فیلوشپ کے تحت طلباء کو اسکالر شپ فراہم کیا جاتا تھا مگر اب بالکل بند کردیا گیا ہے ۔
پانی جیسی بنیادی سہولیت سے یونیورسٹی کا محروم ہونا اپنے آپ میں کئی سوالات کھڑے کرتے ہیں ۔راجر ہاٹ کیمپس میںگزشتہ دو سالوں سے تعلیم ہورہی ہے مگر اب تک پینے کے پانی کی سہولیت فراہم نہیں کی گئی ہے ۔طلباء یونین کے لیڈر عبد الرئوف نے کہا کہ ہم نے پانی کیلئے کئی مرتبہ دھرنا ، مظاہرہ اور احتجاج کیا ، وائس چانسلر ہرمرتبہ پانی کا پلانٹ لگانے کی یقین دہانی کی مگر اب دو سال گزرجانے کے باوجود ہم پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہی صورت حال بیت الخلاء کا ہے ۔مغربی طرز کا باتھ روم بنایا گیا مگر صفائی کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔
احتجاج میں شریک ایک طالبہ نے بتایا کہ وائس چانسلر ہوسٹل کے وارڈن کے ذریعہ ہم پر احتجاج میں شریک نہیں ہونے کیلئے دبائوبنایا جارہا ہے ۔بنگال کی پڑوسی ریاست سے آئی انجینئرنگ کی طالبہ نے کہا کہ چار دن قبل جب وہ احتجاج میں شرکت کے بعد جب ہوسٹل شام6بجے پہنچیں تو کمرے میں تالا لگا ہوا تھا اور مرد پولس تعینات تھے۔ہم نے کہا کہ وقت مقرر سے پہلے ہم یہاں ہاسٹل میں آچکے ہیں اس کے باوجود پولس نے ہمیں ہراساں و پریشان کیا ۔اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے پولس اسٹیشن میں شکایت کیوں نہیں درج کرائی اس طالبہ نے بتایا کہ ہمیں اپنے مستقبل کی فکر ہے؟ ۔اس لیے خوف میں ہم نے کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔عالیہ یونیوسٹی وزارت اقلیتی و مدرسہ تعلیم کے تحت چلنے والااقلیتی تعلیمی ادارہ ہے ۔سابقہ بایاں محاذ حکومت نے سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مدرسہ عالیہ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا تھا۔مگر اقلیتی تعلیمی ادارہ ہونے کے باوجوداساتذہ و غیر ٹیچنگ عملہ میں غیر اقلیتی امیدواروں کو ترجیح دی گئی ہے ۔حال ہی میں 42ٹیچنگ عملہ کو بحال کیا گیا جس میں 32کا تعلق غیر اقلیتی طبقے سے ہے ۔اسی طرح اس سال یونیورسٹی میں بائیولوجیکل سائنس ، اردو کا شعبہ کا قائم کیا گیا ہے مگر اس پورے شعبے میں ایک بھی مستقبل ٹیچنگ عملہ نہیں ہے۔عالیہ یونیورسٹی کا سب سے قدیم شعبہ تھیالوجی بلکہ اس یونیورسٹی بنیادی شناخت میں یہ شعبہ شامل ہے ۔اس شعبے میں دو ہزار کے قریب طلباء ہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ صرف تین ٹیچنگ عملہ ہے باقی پارٹ ٹائم یاگیسٹ اساتذہ کے ذریعہ کورس مکمل کیا جارہا ہے ۔ان میں سے بیشتر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے اصول و ضوابط پر کھڑے نہیں اترتے ہیں ۔
ان ایشوز پر بات کرنے کیلئے عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ابوطالب خان اور رجسٹرار انور حسین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر وائس چانسلر ممبئی میں ٹاٹا میموریل اسپتال میں زیر علاج ہونے کی وجہ سے بات کرنے سے انکار کردیا تو رجسٹرار انورحسین سے بار بار ملاقات کرنے کی کوشش باآور ثابت نہیں ہوسکی اور نہ ہی وہ فون پر کوئی بات کرنے کو تیار ہوئے۔