نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
معیشت نیوز
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پچیسویں اجلاس کلکتہ منعقدہ ۱۸؍ تا ۲۰؍نومبر ۲۰۱۶ء میں تفصیلی مذاکرہ اور غور و فکر کے بعد درج ذیل تجویزیں منظور کی گئیں:
متعلق حکومت:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔بورڈ کا یہ اجلاس حکومت ہند پر واضح کرتا ہے کہ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ۱۹۳۷ء، قانون انفساخ نکاح مسلم ۱۹۳۹ء، کچی میمن ایکٹ۱۹۳۸ء اور وقف ایکٹ ۲۰۱۳ء کے مطابق مسلمانوں پر اور مسلم اوقاف پر قانون شریعت کا اطلاق ضروری ہے، پھر دستور کی دفعہ ۲۵،۲۶ اور ۲۹ ملک کے ہر باشندہ، ہر مذہبی اور ثقافتی گروہ کو اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخصات کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، اس لئے مسلم پرسنل لا مسلمانوں کا بنیادی حق ہے، جس کو معزز عدالتیں بھی تسلیم کرتی رہی ہیں، اس لئے مسلمان ہرگز مسلم پرسنل لا میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کرسکتے، اور حکومت کی ایسی کوئی بھی کوشش دستور کو پامال کرنے کے مترادف ہوگی۔
۲۔ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک میں کامن سول کوڈ قطعاً قابل نفاذ نہیں ہے، یہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے؛ بلکہ تمام اقلیتیں اور مختلف قبائلی گروہ بھی اسے قبول نہیں کرسکتے، خود حکومت ہندنے ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے بعض گروہوں کو اسی معاہدہ کے تحت قومی دھارے میں شامل کیا ہے کہ ان کے روایتی قوانین کو چھیڑا نہیں جائے گا اور وہ پارلیمنٹ سے بھی بالاتر سمجھے جائیںگے، اس لئے کامن سول کوڈ نہ صرف مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہے؛ بلکہ ملک کے مفاد کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا حکومت کو ایسی کسی بھی کوشش سے باز رہنا چاہئے۔
۳۔یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسی سنجیدہ کوشش کرے، جس سے کسی گروہ کا تشخص متأثر نہ ہوتا ہو، جیسے عدالت کے ذریعہ فسخ نکاح کی طویل العمل اور گراں خرچ کارروائی کو آسان و کم خرچ بنائے اور ایک مقررہ مدت کے اندر حصول انصاف کا راستہ ہموار کرے، اسی طرح بعض ریاستوں میں زرعی اراضی میں عورتوں کو حصہ نہیں دیا جاتا؛ حالانکہ شریعت اسلامی نے انہیں حصہ عطا کیا ہے، وہاں ان کو قانون شریعت کے مطابق حصہ دلانے کے لئے قانون سازی کی جائے،نیز بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے نکاح ثانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس مد میں خصوصی تعاون کیا جائے، کیونکہ ایسی خواتین کے مسائل کا اصل حل یہی ہے، اس سے ان کی کفالت بھی ہوگی اور انہیں خاندانی تحفظ بھی مہیا ہوگا۔
۴۔وقف بورڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ وقف کی آمدنی سے مطلقہ ضرورتمند خواتین کا نفقہ ادا کرے اور اگر وقف کی آمدنی اس کے لئے کافی نہ ہو تو چونکہ وقف کی بہت ہی قیمتی املاک حکومت کے زیر تصرف ہیں، اس لئے حکومت یا وزارت اقلیتی بہبود اس کمی کو پوری کرے۔
ملت اسلامیہ سے متعلق:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۵۔بورڈ کا یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی خاندانی زندگی کو شریعت اسلامی کا عملی نمونہ بنائیں، بے جا طلاق اور یکبارگی تین طلاق کے واقعات کا سدباب کریں، بیٹیوں اور دوسری خواتین کو شریعت کے مقررہ اصول کے مطابق ترکہ میں حق دیں، نکاح کو آسان اور سادہ بنائیں اور عورتوں کے ساتھ اسلام نے جس حسن سلوک کا حکم دیا ہے، اس کی پوری پوری رعایت کریں۔
۶۔بیٹا یا بیٹی کا ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور بیٹیاں بھی اللہ کی رحمت ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماں کی کوکھ میں بیٹیوں کے قتل کی غیرانسانی حرکتیں کی جارہی ہیں، مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے کہ اس صورت حال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ درگور کی جانے والی بچیوں کی زندگیوں کو بچایا تھا، آج ٹکنالوجی کی مدد سے جو دخترکشی کی جارہی ہے، وہ اپنے پیغمبر کی سنت پر چلتے ہوئے اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کریں۔
۷۔یہ اجلاس اصلاح معاشرہ کے اہم کام کے لئے علماء، دینی مدارس، دینی جماعتوں، تنظیموں اور تعلیم یافتہ خواتین سے خاص طور پر اپیل کرتا ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کی کوششوں میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں اور اس کو خصوصی اہمیت دیں۔
۸۔مذہبی اور سماجی اداروں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ ازدواجی نزاعات کے حل کے لئے کونسلنگ سینٹر قائم کریں، ان سے زوجین کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور طلاق کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے گی۔
۹۔تمام مسلمان مردوں اور عورتوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کو دارالقضاء میں پیش کریں، تاکہ انہیں کم وقت میں آسان، سستا اور قانون شریعت کے مطابق انصاف حاصل ہوسکے۔
۱۰۔تمام مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مسلکی اور جماعتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر تحفظ شریعت کے لئے ہمیشہ اتحاد و یک جہتی کا ثبوت دیتے رہیں، اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں سے چوکنا رہیں اور ہمیشہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پرلبیک کہیں، کہ یہی اتحاد ہماری اصل طاقت ہے۔
ریسرچ اینڈ ڈاکومینٹیشن سنٹر:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۱۔مسلم پرسنل لا میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت پر نظر رکھنے اور اس کا تدارک کرنے کے لئے ریسرچ اینڈ ڈاکومینٹیشن سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، جو مخالف شریعت قانون سازیوں، گشتی احکام اور ملک کے مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی خدمت انجام دے گا، نیز مسلم پرسنل لا سے متعلق اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین پر بھی نظر رکھے گا، اس شعبہ کے انتظامی امور ان ہی خطوط پر انجام دئے جائیںگے، جو اجلاس میں مجلس عاملہ امروہہ منعقدہ ۹؍دسمبر ۲۰۱۵ء میں طے پائے تھے۔
۱۲۔ ویمنس وِنگ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الف: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے 25ویں اجلاس منعقدہ 18-20نومبر 2016کولکاتا میں 75سے زائد خاتون ڈیلیگیڈس اور 50اراکین بورڈ نے شرکت کی، خواتین کی نمائندگی نئی دہلی، اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کیرلا، تاملناڈو، کرناٹک، ویسٹ بنگال اور تلنگانہ سے ہوئی۔ خواتین نے بورڈ کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیا اور مناسب مشورے دیئے۔
ب: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کیااور خواتین کا ایک منظم شعبہ ’’ویمنس وِنگ‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا، اور ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ کو ’’ویمنس وِنگ‘‘ کا ذمہ دار بنایا گیا۔
تحفظ شریعت اور اصلاح معاشرہ کی سرگرمیوں کو ملک کے طول و عرض میں خواتین میں اس ونگ کے ذریعہ وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
ج: مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت ایک آل انڈیا مسلم ویمن ہیلپ لائن کل ہند کال سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جسکے ذریعہ ایسی خواتین جو سماجی، عائلی اور ازدواجی مسائل سے پریشان ہوں ان کی مناسب کونسلنگ کی جائے اور ایسی خواتین جو مقامی دینی جماعتوں اور دارالقضاء سے ناواقف ہوں تو انکی مناسب رہبری کی جائے۔
آل انڈیا مسلم ویمن ہیلپ لائن کل ہند کال سنٹر کا ٹول فری نمبر 1800-102-8426یکم دسمبر سے کام کریگا۔ جسمیں ابتداء میں اردو، انگلش، تلگو، ملیالم، تمل اور بنگالی، کنڑ زبانوں کے لوگ قابل و تجربہ کار خاتون کونسلرس سے رجوع ہوسکتے ہیں۔
انتظامی امور:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۳۔بورڈ کوشش کرے گا کہ ریاستوں میں چند وکلاء اور علماء پر مشتمل ایسی کمیٹی بنادے، جو لورکورٹ اور ہائی کورٹ میں مسلم پرسنل لا کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر نظر رکھے اور مرکزی لیگل کمیٹی کے زیرنگرانی مقامی عدالتوں سے رجوع ہو کہ مناسب کارروئی کرے۔
۱۴۔جن علاقوں میں ابھی تک دارالقضاء قائم نہیں ہوا ہے، وہاں حتی الامکان جلد دارالقضاء قائم کیا جائے۔
۱۵۔ملک کو مختلف زون میںتقسیم کرکے ہر حلقہ میں علماء کے لئے تفہیم شریعت ورکشاپ رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ۲۰۱۷ء تک پورے ملک کا احاطہ ہوجائے، تاکہ ہر علاقہ کے علماء اپنے طور پر تفہیم شریعت کے کام کو انجام دیں۔
۱۶۔موجودہ حالات کے پس منظر میں خواتین کے لئے خاص طور پر تربیتی ورکشاپ رکھے جائیں اور ان کو اسلام کی مؤثر ترجمانی کے لئے تیار کیا جائے۔
۱۷۔تفہیم شریعت کے پروگراموں کے علاوہ ماہانہ تفہیم شریعت کی کلاس بھی رکھی جائے اور دہلی سے اس کا آغاز کیا جائے۔
۱۸۔مسلم پرسنل لا کے تعارف، اہمیت اور تفہیم شریعت میں آنے والے مسائل سے متعلق علاقائی زبانوں میں لٹریچر شائع کیا جائے اور خاص طور پر یکساں سول کوڈ اور اس کے مضمرات پر ایک مفصل رسالہ مرتب کیا جائے۔
۱۹۔میڈیا پر مسلم پرسنل لا سے متعلق مسائل کو مؤثر طور پر پیش کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے، اس کے لئے علماء، قانونی ماہرین اور ذرائع ابلاغ کا تجربہ رکھنے والی شخصیتوں کا خصوصی ورکشاپ رکھا جائے، اور ایک میڈیا سیل بنانے کی کوشش کی جائے۔
تجویز تعزیت:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۲۰۔جون ۲۰۱۵ء تا نومبر۲۰۱۶ء کے درمیان بورڈ کے متعدد ذمہ داران اور معزز ارکان اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جن کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:
مولانا احمد علی قاسمی صاحب دہلی، مولانا سید نظام الدین صاحبپٹنہ، ڈاکٹر سید عبد الحلیم سلفی صاحب دربھنگہ، مولانا عبد السلام رحمانی صاحب بلرام پور، مولانا خواجہ مظفر حسین صاحب فیض آباد، جناب محمد عبد الرحیم قریشی صاحب حیدرآباد، جناب عبد الستار یوسف شیخ صاحب تھانے، قاضی عبد الوحید خان صاحب اورنگ آباد ، مولانامحمد ریاض الدین فاروقی ندوی صاحب اورنگ آباد ، مولانا قاری محمد قاسم انصاری صاحب چنئی، حاجی منصور احمد صاحب کلکتہ، جناب ہارون بھائی موزہ والا صاحب ممبئی، جناب احمد عصمت اللہ ایڈوکیٹ صاحب حیدرآباد، مولانا قدیر احمد شاہ اداء الآمری صاحب بنگلور، مولانا محمد ولی اللہ رشادی صاحب ویلور، مفتی شمس الدین آفریدی صاحب بھوپال ، قاضی محمد جسیم الدین رحمانی صاحب بہار، محترمہ ڈاکٹر صفیہ نسیم صاحبہ لکھنؤ اور ڈاکٹر انجمن آرا انجم صاحبہ۔
یہ تمام حضرات تحفظ شریعت کے اس کارواں کا حصہ تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق بورڈ کی بہترین مخلصانہ خدمت انجام دی ہیں اور ان کی خدمات کو بورڈ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یقینا ان کی وفات بورڈ کے لئے ایک بڑا خسارہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے، درجات کو بلند فرمائے اور بورڈ کو ان کا نعم البدل عطاء کرے۔
تجویز شکریہ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ اجلاس مجلس استقبالیہ کے صدر جناب سلطان احمد صاحب ایم پی، جنرل سکریٹری جناب جمیل منظر صاحب، ان کے رفقاء استقبالیہ کے تمام ارکان اور کلکتہ کے باحمیت مسلمانوں کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہے، کہ انہوں نے نہایت خوشگوار طریقہ پر اس اہم اجلاس کی میزبانی کی ، کلکتہ کی مثالی ضیافت کا مظاہرہ کیا اور شرکاء اجلاس کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور اس اہم ملی کام میں تعاون کرنے والے تمام حضرات کو شایان شان اجر عطاء فرمائے۔
٭٭٭