
نظام عدل کی شرمناک ناکامی کے ۲۴سال
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
اس سال بابری مسجد کی مسماری کو ۲۴ سال کا لمبا عرصہ بیت چکا ۔بابری مسجد دراصل مسلمانوں سے زیادہ نظام عدل کا مسئلہ ہے ۔اور اس میں نظام عدل شرمناک حد تک ناکام ہو چکا ہے۔بابری مسجد کی موجودگی میں یہ معاملہ ہندو مسلمانوں میں متنازعہ تھا تو بھی نظام عدل اسے قانون کے مطابق حل کرنے میں پوری طرح ناکام رہا ۔ اسی طرح بابری مسجد کی حفاظت بھی قانون اور نظام عدل کی ذمہ داری تھی یعنی بابری مسجد کی مسماری غیر قانونی تھی اور نظام عدل مسجد مسماری کی اس غیر قانونی کارروائی کو روکنے میں بھی بری طرح ناکام رہا ۔کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے اکثریتی عوام کے مذہبی جذبات بھڑ کا کر اور انہیں مسلم منافرت کا تڑ کا دے کر بابری مسجد کی مسماری پراکسایااور اس طرح قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی ۔خیر ان دونوں ناکامیوں کے بعد باری آتی ہے کہ اس غیر قانونی حرکت کر نے والوں کو ماخوز کرنا اور انہیں سزا تک پہنچا نا لیکن اب مسماری کے ربع صدی گزر جانے کے بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا ۔ابھی یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ بابری مسجد کے ملزمین چھوڑ دئے گئے لیکن جس طرح سے یہ مقدمہ چل رہا ہے اس سے ایسا ضرور لگتا ہے کہ ان ملزمین کو مجرم ثابت کر نے کی نیت ہی نہیں ہے ۔اس کے اصل ذمہ دار اسے عوام کا بے ساختہ ردعمل قرار دے کر اس کی کسی پیشگی منصوبہ بندی سے انکار کر رہے ہیں ،وہ دراصل نظام عدل کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں کامیاب ہوتے بھی نظر آرہے ہیں ۔ حالانکہ بابری مسجد مسماری کے بعد چانچ سال کے عرصہ میں ہی یہ مقدمہ فرد جرم عائد (Charge frame) کر نے تک پہنچ گیا تھا جس میں لکھنؤ سیشن کورٹ کے جج عزت مآب جے پی سریواستو نے صاف طور پر کہا تھا کہ ’ رام جنم بھومی بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کی مسماری کے ضمن یہ بالکل واضح ہے کہ ملزمین کچھ حرکات و افعال میں جی بھر کے ملوث (indulge (تھے ۔۱۹۹۰ میں اڈاوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی تھی جس کے دوران وہ مذہبی فرقوں اور سیاسی پارٹیوں کے مختلف لیڈروں سے ملے تھے اور ان کا اہم مقصد بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کو گرانا ہی تھا ۔جہاں تک دفعہ ۱۲۰ کے تحت مجرمانہ سازش رچنے کا سوال ہے تواس کے لئے ثابت شدہ شواہد(proved evidence (کی ضرورت نہیں کیونکہ سازش تو خفیہ طور پر ہی رچی جاتی ہے اور یہ سازش دوسرے ملزمین تک آہستہ آہستہ اور بتدریج پہنچی اس سازش کا اندازہ ان لیڈروں کی تقاریر اور افعال سے بخوبی ہوجا تا ہے۔مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش ۱۹۹۰ سے ہی شروع ہو گئی تھی اور ۶ دسمبر۱۹۹۲ کو اختتام پذیر ہو گئی تھی اڈوانی اور دیگر نے مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پرمتنازعہ ڈھانچے کو گرانے کی اسکیمیں تیار کی تھیں اسی لئے اس کیس میں ان تمام ملزمیں کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کے الزام کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے بادی النظر میں ابتدائی بنیاد(prima facia base (موجود ہے۔‘اگر اس آرڈر کے مطابق چارج فریم ہوتے اور ملزمین پر مقدمہ چلایا جاتا تو ابھی تک کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکل گیا ہوتا لیکن ملک کے اقتدار پر قابض لوگ ایسا بالکل نہیں چاہتے تھے اور ایسا نہ ہو سکے انہوں نے اس کی تیاری پہلے ہی سے کر رکھی تھی۔اس کیس میں ابتداء ہی سے ایک ایسی قانونی خامی رکھی گئی جس نے اس کیس کو قانونی تکنیکی طور پر متنازعہ بنا دیا جس کی وجہ سے آج تک یہ مقدمہ جہاں کا تہاں پڑا ہوا ہے۔ہوا یہ کہ بابری مسجد کی مسماری کے بعد دو مختلف ایف آ ئی آر درج کئے گئے تھے ایک کرائم نمبر ۱۹۷ ان لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف تھا جو مسجد مسماری میں عملی طور پر شریک تھے اور دوسرا کرائم ۱۹۸، اڈوانی اور مذکورہ دیگر افراد کے خلاف تھا جو ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے دن اسٹیج پر موجود تھے اور تقاریر وغیرہ کر رہے تھے اس میں صرف اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام لگا یا گیا تھا اس میں مسجد مسماری کی سازش رچنے کا کوئی الزام نہیں تھا ۔ان ایف آئی آر میں سے ابتداء ہی سے کرائم ۱۹۷ کی جانچ سی بی آئی کے سپرد کردی گئی تھی اور کرائم ۱۹۸ کی جانچ ابتدائًً صوبائی کرائم برانچ و سی آئی ڈی نے کی لیکن بعد میںمزید تحقیق کے لئے اسے سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا ۔اس کیس کے مقدمات کے لئے للت پور پھر رائے بریلی اور پھر لکھنؤ میں خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ۵ اکتوبر ۱۹۹۳ کو سی بی آئی نے بابری مسجد مسماری سے متعلق تمام کیسوں کی ایک مشترک چارج شیٹ داخل کی اس چارج شیٹ میں تمام ملزمین پر مسجد گرانے کے لئے مجرمانہ سازش رچنے کا الزام لگایا گیا تھا۔اورلکھنؤ کی عدالت نے اسی چارج شیٹ کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف چارج فریم کا آرڈر دیا تھا لیکن ملزمین میں سے کچھ لوگوں نے اس آرڈر کو الہٰ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور ۱۲ فروری ۲۰۰۱ کو الہٰ آباد ہائی کورٹ کے عزت مآب جج جگدیش بھلا نے قانونی کارروائی کی کمی (lack of legal procedure (کی بنیاد پر کرائم ۱۹۸ کو اس مشترک چارج شیٹ سے مستثنیٰ قرار دیا کیونکہ ریاستی سرکار نے ہائی کورٹ سے مشاورت کے بغیر ہی تمام کیسس لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں ٹرانسفر کر نے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا تھا جبکہ قانونی طور پر ہائی کورٹ سے مشاورت ضروری تھی۔اس آرڈر میں جسٹس بھلا نے جہاں کرائم ۱۹۸ کو اس کیس سے خارج کیا وہیں یہ بھی کہا کہ قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد یہ کیس اسی عدالت میں چلا یا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد سی بی آئی نے یو پی کی راج ناتھ سنگھ حکومت سے قانونی نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی درخواست کی جو مسترد ہونا تھی سو ہوئی ۔ راجنا تھ سنگھ کے بعد مایاوتی اور ملائم سنگھ کی حکومتوں نے بھی وہ قانونی کام پورا نہ کیا۔ اس دوران لکھنؤ کی عدالت نے ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد ۲۰۰۱ میں ہی کرائم ۱۹۸ کو اس چارج شیٹ سے الگ کردیا کہ وہ اس کامقدمہ کو چلانے کی مجاز نہیں لیکن اس عدالت نے کرائم ۱۹۷ سے بھی جس کا مقدمہ اس کے سامنے تھا ،مجرمانہ سازش کے الزامات ہٹا دئے ۔جس کے بعد سی بی آئی نے ٹرائیل کورٹ کے فیصلے کو الہٰ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا لیکن جب سپریم کورٹ نے جسٹس بھلا کے مذکورہ فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر یہ فیصلہ کیا کہ کرائم ۱۹۸ رائے بریلی کی اسپیشل کورٹ میں علٰحیدہ چلا جائے تو مئی ۲۰۰۳ میں سی بی آئی نے رائے بریلی کورٹ میں کرائم ۱۹۸ کی علٰٰٰٰحیدہ چارج شیٹ داخل کی اور تعجب خیز امر یہ کہ جس بات کے لئے اتنے پاپڑ بیلے گئے اسی بات کا چارج شیٹ میں ذکر تک نہیں تھا یعنی سی بی آئی نے نئی چارج شیٹ میں اڈوانی اینڈ کمپنی کے خلاف مسجد مسماری کے لئے مجرمانہ سازش رچنے کے الزام عائد نہیںکئے بلکہ پہلے سے موجود الزامات میں غیر قانونی اجتماع (دفعہ ۱۴۹)اور فساد برپا کرنے(دفعہ ۱۴۷) کے الزامات پر ہی مطمئن ہو گئی۔شاید اس لئے کہ اس وقت بے جے پی اقتدار میں تھی اوراڈوانی جی وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم بھی تھے ۔اور شاید اسی لئے رائے بریلی اسپیشل کورٹ نے بھی چارج فریمنگ کے دوران ہی اڈوانی کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا جبکہ بقیہ سات افراد کے خلاف چارج فریم کر کے مقدمہ چلانے کی شروعات کردی تھی۔اس فیصلے کے خلاف سی بی آئی نے ۳ مہینے کی مہلت کے دوران یا اس کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل بھی نہیں کی تھی جس کو دیکھتے ہوئے دو افراد حاجی محبوب اور حاجی محمد صدیق نے اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۲۰۰۵میں جس پر ہائی کورٹ نے رائے بریلی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو غیر قانونی اور نا مناسب قرار دیتے ہوئے اڈوانی پر مقدمہ چلانے اور خود اڈوانی کو رائے بریلی کورٹ میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ مقدمہ شروع تو ہوا لیکن اس چارج شیٹ کی بنا پر جس میں مجرمانہ سازش کے الزامات نہیں تھے ،مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے ۔رہی بات مجرمانہ سازش کی تو ان ملزمین کے خلاف مجرمانہ سازش کا معاملہ ابھی تک بھی عدلیہ میں طئے نہیں ہو پایا ہے ۔ اور یہ دراصل سی بی آئی کی مختلف و متضاد موقف کی وجہ سے ہی ہوا ۔سی بی آئی نے ہمیشہ بر سر اقتدار سیاسی پارٹیوں ہی کی ترجمانی کی ہے ۔کانگریس حکومتوں کے دور میں سی بی آئی نے اس کیس میں سازش کی دفعات لگائیں لیکن جیسے ہی بی جے اقتدار میں آئی اس نے سازش کے الزامات ہٹا دئے۔پھر اقتدار بدلا اور کانگریس بر سر اقتدار آئی تو اس نے ملک کے سیاسی حالات کے مطابق سازش سازش چلا نا شروع کردیا ۔اور اب مودی جی کی مکمل اکثریت والی حکومت آئی تو کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔حالانکہ اب بھی عزت مآب سپریم کورٹ نے اڈوانی اینڈ کمنی کو نوٹس بھیجے ہیں اور یہ صرف مسلمانوں کی قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے ۔ اور اس کیس میں آگے کا راستہ قانونی چارہ ہی ہے کہ حکومت چاہے کوئی وہ اس معاملہ میں مخلص نہیں اوراس معاملہ میں کوئی بھی حکومتی اقدام قابل اعتماد نہیں ۔ (جمعہ ۲،دسمبر ۲۰۱۶ ) dr.abidurrehman@gmail.com