الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی غلط ترجمانی کی جا رہی ہے :ولی رحمانی

muslim-women

جسٹس سونیت کمار کے فیصلے کو مسلم پرسنل لاء سے جوڑ کر عوام میں بھرم پیدا کیا جا رہا ہے:ماہرین کا اظہار خیال
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی(معیشت نیوز) الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن کے جواب میں جسٹس سونیت کمار نے ذاتی عندیہ ظاہر کرتے ہوئے دو تین جملے ایسے لکھے ہیں جسے یرقانی میڈیا مسلم پرسنل لاء سے جوڑ کر تین طلاق کو ختم کئے جانے کی خبر سنا رہا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی معیشت ڈاٹ اِن سے کہتے ہیں’’جسٹس سونیت کمار نے رٹ پٹیشن کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ سے کسی طور جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔وہ ان کی ذاتی رائے ہے جو پٹیشن کے جواب میں دی گئی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سونیت کمار نے ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم پرسنل لاء قانون سے اوپر نہیں ہے جبکہ تین طلاق غیر دستوری ہے۔‘‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ممبئی کے رکن مولانا محمود دریابادی کہتے ہیں ’’جسٹس سونیت کمار کی یہ ذاتی رائے ہو سکتی ہے اسے عدالتی کارروائی سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔جہاں تک مسلم عورتوں کا معاملہ ہے تو تقریباً ایک کروڑ سے زائد عورتوں نے دستخطی مہم میں حصہ لے کر حکومت کے ساتھ عدالت کو بھی بتا دیا ہے کہ ہم شریعت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں چاہتے۔چند عورتوں کی فریاد پر کسی اسلامی قانون میں تبدیلی ناقابل قبول ہے۔‘‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان کمال فاروقی کہتے ہیں’’جسٹس سونیت کمار نے کس پس منظر میں یہ بات کہی ہے ابھی اس کا مطالعہ باقی ہے لہذا فیصلے پر فوری کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ ہندوستان ایک کثیر مذہب و کلچر کا ملک ہے جہاں تمام لوگوں کو ان کے اپنے رسم و رواج کے مطابق رہنے کی آزادی حاصل ہے ۔لہذا کسی ایک سماج کو اس کے پرسنل لاء سے روکنا کسی طرح بھی جمہوری عمل نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے جس میں ایک فریق مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی ہے لہذا جب تک وہاں معاملہ زیر التواء ہے کسی کے ریمارکس پر کوئی رائے نہیں بنائی جاسکتی۔‘‘
واضح رہے کہ مشہور صحافی و کالم نگار زین شمسی نے مذکورہ واقعہ پر دلبرداشتہ لکھا ہے کہ ’’دیکھئے یہ ہر ذی شعور سیاسی ، غیر سیاسی انسان کو پتہ تھا کہ جیسے ہی نوٹ بندی کا معاملہ تھوڑا سا سرد پڑے گا یا پھر نوٹ بندی پر سرکار گھرے گی ، فوراً کوئی نیا ایشو پیدا ہو جائے گا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ الہٰ باد ہائی کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئینی قراد دے دیا۔ فیصلہ یہی آنا تھا ، یہی آیا۔ اب اس فیصلہ کے بعد نریندر بھائی مودی نے کہا ہے کہ مذہب آئین سے اوپر نہیں ہے، اور کانگریس کی رینوکا چودھری نے کہاکہ یہ فیصلہ تو بہت پہلے آجانا تھا۔ دیگر پارٹیاں بھی خوش ہیں کہ مسلمان عورتوں کو جبر سے نجات دلانے میں عدالت نے دیر تو لگائی مگر نجات دلائی ۔سوال جبر سے چھٹکارا دلانے کا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فیصلہ کے بعد یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب تک مسلم عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، اور اسلام خواتین مخالف مذہب ہے ، جسے عدالت نے صحیح کیا ہے۔ گویا اب یہ بانسری بج گئی ہے کہ مسلم پرسنل لا ایک غیر آئینی ارادہ ہے خاص طور پر مسلم عورتوں کے تئیں وہ بے درد ہے۔ اب اس ایشو میں الجھئے۔ بینک میں لائن لگایئے یا پھر مظاہروں میں بھیڑ جٹایئے۔ سرکار کا کام بھی ہو گیا اور مسلمان جو اب تک نوٹ بندی سے پریشان نہیں ہوئے تھے، طلاق بندی کے اس فرمان سے پریشان ہوجائیں گے۔
اب اس کے بعد یہ بھی طے ہو گیا کہ مسلم شخص پر حملہ اب پرانی چیز ہوگئی اب تشخص پر ہی حملہ جدید سیاسی ہتھیار بن گیا۔ اسلامی قانون میں عدالت و سرکار کی دخل اندازی شروع ہو گئی ہے۔ ابھی طلاق کا معاملہ آیا پھر ازدواج کا معاملہ آئے گا ، پھر بچوں کا معاملہ آئے گا ، پھر زکوٰۃ کا معاملہ آئے گا، پھر اذان کا معاملہ آئے گا۔ کچھ لوگ ہو سکتا ہے اس فیصلے سے مطمئن ہوں مگر نمبر ان کا بھی آئے گا۔ عدالت کا بھی جواب نہیں ہے۔ آج صرف الہ آباد ہائی کورٹ کا ہی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ کیرل ہائی کورٹ کا بھی ایک شاندار فیصلہ آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے سب سے امیر ترین مندر پدمنابھسوامی میں ہندو عورتیں شلوار قمیض اور چوڑی دار پائجامہ میں داخل نہیں ہو سکیں گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مندروں کے پنڈتوں اور تنتروں نے جو ریتی رواج بنایا ہےاسی قانون کا نفاذ ہوگا۔ گویا ہائی کورٹ کو وہاں پر آئین اور عورتوں کے ساتھ ہونے والا ظلم نظر نہیں آیا ، مگر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہسے تمام سیاسی چاپلوسوں کو مسلم عورتوں کی آزادی نظر آگئی۔
دراصل الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چل رہے مقدمہ کو سمت دینے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ یوپی الیکشن ہے اگر مسلم پرسنل لا پر اٹیک سے سرکار کا کام چل جائے گا تو ٹھیک ہے ، ورنہ آگے رام مندر کا ایشو تو ہے ہی۔کہتے ہیں کہ برے دن برے لوگوں کے نہیں آتے، اسی طرح اچھے دن بھی اچھے لوگوں کے نہیں آتے۔ مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو مودی سرکار کی تشکیل سے ہی شروع ہوا اور آج تک جاری و ساری ہے۔ رام مندر ،بھارت ماتا کی جے ، گئو ماتا ، دیش بھکتی ، غدار وطن ، عدم برداشت ، کلبرگی ، اخلاق ، ویمولا ، کنہیا ،پاکستان بھیجنا ،سرجیکل اسٹرائیک ،کشمیر سنگ باری ، نوٹ بندی اور نہ جانے جانے کیا فضولیات میں لوگوں کو الجھاتی سرکار کیش لیس بنکوں کے سامنے کیش مند لوگوں کی قطار کھڑی کردینے کے بعد نت نئے فارمولہ سے ملک میں افراتفری کا بازار گرم کرنے سے چوک نہیں رہی ہے تاکہ اس کی ناکامیوں کا کچا چٹھا کوئی پڑھ نہ سکے‘‘۔
ممبئی کے سماجی کارکن الطاف پٹیل کہتے ہیں’’الہ آباد ہائی کورٹ اپنے متنازعہ فیصلوں کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *