شیو سینا کی ساکھ مسلم علاقوں میں قائم کروں گا:شوکت بٹگری

کرناٹک کے دھا روار گاؤں سے تعلق رکھنے والے شوکت علی بٹگری اب شیو سینا کے کارکن ہیں۔انہوں نے ١٨ سال کی عمر میںجب ممبئی میں قدم رکھا تو اپنے مستقبل سے نا آشنا تھے۔ عروس البلاد میں حیثیت منوانا یقیناً جوئے شیر لانا ہےلیکن گاؤں کے سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے اس نونہال نےجب ملنڈ(ممبئی) کے کیلکر کالج میں داخلہ لیا تواپنا جوہر دکھانا شروع کردیا، اب وہ اپنی ذاتی کمپنی اے ڈی آرکونسیپٹسکے مالک ہیں جس میں اپنے کلائنٹس کو قانونی مشوروں سے نوازتے ہوئے لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیںشاہد انصاری نےمعیشت ڈاٹ اِن کے لئے خصوصی بات چیت کی جو نذر قارئین ہے۔
معیشت ڈاٹ اِن: شوکت صاحب!آپ جس پارٹی سے وابستہ ہوئے ہیں اسے مسلمانوں میں قبولیت حاصل نہیں ہے آخر آپ نے یہ فیصلہ کیونکر کیا؟
جواب :جناب والا میں سب سے پہلے آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے معیشت ڈاٹ اِن کے ذریعہ اردوکے لاکھوںقارئین تک رسائی کا جو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے وہ مجھ ناچیز کے لئے یقیناً حوصلہ افزا ہے۔ شیو سینا میں شمولیت اور اقلیتوں کے لیے کام کرنا دو الگ الگ سوال ہے لہذا اس کا جواب بھی تفصیل طلب ہے۔سب سے پہلےمیں یہ بتا دوں کی کہ ناچیز۱۹۸۶ سے کانگریس سےوابستہ رہا ہے جہاں مجھے اقلیتی سیل کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔لیکن کانگریس کی اقلیت دشمنی کا مظاہرہ دیکھتے دیکھتے قیمتی وقت کیسے ضائع ہو گیا اس کا مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ایک طویل عرصے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آج کے دور میں اگر عوام کے لئے کچھ بہتر کرنا ہے تو اس کے لئے شیوسینا سے بہتر کوئی پارٹی نہیں ہے۔ میں نے ادھو جی سے ملاقات کی انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ ایسے بہت سے ایشوز ہیں جن کو لیکر ہم عوام کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتے ہیں، انہوں نے میری باتوں پر سنجیدگی سے غور کیااور مجھے پارٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا۔
معیشت ڈاٹ اِن:کن ایشو زپر آپ سب سے زیادہ سنجیدہ ہیں؟
جواب: میںابھی صرف اس بات کی کوشش کررہا ہوں کہ لوگوں کو شیو سینا میں کیسے شامل کیا جائے ۔پارٹی کے مین اسٹریم میں لانے کے لئےکیا بہتر ہو سکتا ہے۔جسمیں طلبہ ، نوجوان اور دبے کچلے لوگ جن کی آواز دبا دی جاتی ہے۔جن کی آواز نہیں سنی جاتی ہے ۔انتمام کو پولٹیکل مین اسٹریم میں لانا میرا مقصد ہے۔
معیشت ڈاٹ اِن: فی الحال کن ایشوز پر کام کر رہے ہیں؟
جواب:گذشتہ کئی برسوں سے وقف میں ہو رہی دھاندھلیوں کو لیکرمیں آواز اٹھا رہا ہوں اور اسی کو پوری پختگی سے لوگوں کے سامنے بےنقاب کرنے کی کوشش کرونگا کہ کس طرح سے مسلم وقف کی ملکیت کو
گزشتہ حکومت نے پامال کیا ہے جس کا فائدہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کو نہ ملتے ہوئے ذاتی طور پر لوگوں کو مل رہا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ اور مسلم ریزرویشن پر آپ کی پارٹی ہمیشہ مسلم مخالف رہی ہے اس پر آپ کی رائے؟
جواب:۲۰۰۶میں جسٹس سچر نے مرکزی حکومت کو اپنی رپورٹ سونپی تھی رپورٹ میں مسلمانوں کے مسائل اور انہیں حل کرنے کی تجویز بھی بتائی تھی۔جس میں تعلیمی پسماندگی کے ساتھ ساتھ زندگی جینے کے معیار کولےکر حکومت کو خاص توجہ دلائی تھی۔جس کے بعد ہی مرکزی حکومت نے تمام ریاستی حکومتوں کو اپنی سطح پر اس پر نظر ثانی کرنے کے لئے کہالہذا مہاراشٹر میں کانگریس حکومت نے محمود الررحمان کمیٹی تشکیل دی، محمود الررحمان کمیٹی نے ۲۰۱۴ میں کانگریس حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کردی-لیکن المیہ یہ ہے کہ کانگریس حکومت نے اس پر عمل ہی نہیں کیا-اب میری یہ کوشش ہے کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کو جہاں عوام الناس میں منظر عام پر لانے کی گذارش کروں وہیں اس کے سفارشات پر عملہو اس کے لیے جددوجهد کروں –
جہاں تک مسلم ریزرویشن کا تعلق ہے تو مذہب کے نام سے کوئی ریزرویشن ممکن نہیں جب تک کہ آئین میں تبدیلی نہ ہوجائے۔ پچھلی کانگریس حکومت نے الیکشن کے دوران مسلمانوں کو لبھانے کے لئے ریزرویشن کا اعلان کیا تھا جس کو کورٹ نے ردد کر دیا تھا۔آج اسمبلی میں مراٹھا ریزرویشن کو لیکر بحث ہو رہی ہے اور حکومت بھی اس سے اتفاق رکھتی ہے مگر مسلمانوں کے ریزرویشن کو لیکر کوئی بھی مسلم نمائندہ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے ،یہ ہماری سب سے بڑی نا اہلی ہے کی جن سے ہم امید لگاے بیٹھے ہیں وہی پیچھے کی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔
معیشت ڈاٹ اِن : بی ایم سی الیکشن کو لےکر آپ کیا تیّاری کیا ہےآپ کا کیا رول رہیگا؟
جواب: ادھو جی کی رہنمائی میں میری یہ کوشش رہیگی کہ میں زیادہ سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقوںکا دورہ کروں اور جو شیوسینا سے وابستہ ہونا چاہے اسے پارٹی میں شامل کروں۔