نائب صدر جمہوریہ کے ہاتھو ں سدھیندر کلکرنی کی کتاب کا اجراء

نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری سدھیندر کلکرنی کی کتاب کا اجراءکرتے ہوئے جبکہ مصنف کے ساتھ ریاستی وزیر ونود تاوڑے اور انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری سدھیندر کلکرنی کی کتاب کا اجراءکرتے ہوئے جبکہ مصنف کے ساتھ ریاستی وزیر ونود تاوڑے اور انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی(معیشت نیوز)’’منفی تاثر ختم کرنے کے لیے جنوبی ایشیائی یونین کے امکانات پر عملی نقطہ نظر سے غور و فکر کرنا پڑے گااور ہمیں اس سلسلے میں سست روی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ‘‘ان خیالات کا اظہار نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامدانصاری نے ممبئی یونیورسٹی کانوکیشن ہال میں سدھیندر کلکرنی کی کتاب ’’اگست وہاسیز:۱۴،۵ اگست ۱۹۴۷؁ کو انہوں نے کیا کہا‘‘کے رسم اجراء پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے کلکرنی جی کی تحریروں کو پڑھا ہےانہوں نے پہلے بھی ایک کتاب بھیجی تھی میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی تحریریں بصیرت افروز ہوتی ہیں جن سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔‘‘ مذکورہ کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ کتاب نہ صرف آزادی کو سمجھنے میں مدد دے گی بلکہ اس وقت کے ہیروز کے خیالات سے بھی آگا ہ کرے گی ساتھ ہی مستقبل کو سمجھا جا سکے گا‘‘۔
کتاب کے اجراء کے بعد سدھیندر کلکرنی نے معیشت ڈاٹ اِن سے کہا کہ ’’ہند بنگلہ دیش اور پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں اور آپس میں خوشگوار ماحول کی آبیاری کریں کیونکہ بغیر اس کے کسی کا بھی بھلا ممکن نہیں ہے۔اگر یہ ممالک آپسی رابطے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو پورا خطہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گا۔‘‘

دانش ریاض کتاب کے مصنف سدھیندر کلکرنی کے ساتھ(فوٹو معیشت)
دانش ریاض کتاب کے مصنف سدھیندر کلکرنی کے ساتھ(فوٹو معیشت)

اکھنڈ بھارت کے سوال پر کلکرنی کہتے ہیں’’اکھنڈ بھارت کا غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تینوں ممالک اپنی سرحدوں کو چھوڑ کر کبھی ایک نہیں ہو سکتے لیکن اپنی سرحدوں کے ساتھ تو ایک ہو سکتے ہیں۔ہمیں تو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ پورا خطہ الگ الگ اکائی ہوتے ہوئے بھی ایک ہو اور تہذیب و معاشرت،کلچر و مذہب کی یگانگت کے ساتھ آپسی میل محبت کے ساتھ زندگی گذار سکے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’یہ المیہ ہے کہ تمامتر یکسانیت و یگانگت کے باوجود ہمارے یہاں دوریاں دیکھنے کو ملتی ہیں حالانکہ ایک دوسرے ممالک کے اندر ادان پردان کی پوری گنجائش موجود ہے۔‘‘
واضح رہے کہ تقریب میں جہاں شہر کے معززین نے شرکت کی وہیں بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے بھی حصہ لیا۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی کی وجہ سے معززین کی بڑی تعداد ہال میں حاضر ہونے سے قاصر رہی کیونکہ پروگرام شروع ہونے سے دس منٹ قبل ہی دروازہ بند کر دیا گیا تھالہذا جو لوگ دیر سے آئے انہیں کف افسوس ملنا پڑا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *