امیٹھی میں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل :پولس تھیوری پر اٹھنے لگے سوالات

امیٹھی قتل معاملہ

جمعیہ علماء ہند سلطانپور کی تفصیلی رپورٹ

آج جمعیتہ علماءاترپردیش کےصدرحضرت مولاناسیداشہدرشیدی صاحب کےحکم پر جمعیۃ علماء سلطانپور کے جنرل سکریٹری مولانا سراج ہاشمی کی قیادت میں ایک وفد نے امیٹھی اترپردیش کے گاؤں مہونا کا ہنگامی دورہ کیا،جہاں دو دن پہلے ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کا اجتماعی طور پر قتل کیا گیا تھا.اور اس واقعے کو منظم طریقہ سے ایک دوسرا ہی رخ دینے کی کوشش کی گئی تھی.
مولانا سراج ہاشمی کے ساتھ وفد میں موجود سینئر وکیل عبدالکریم ایڈووکیٹ نے پورے معاملہ کے ہر ایک پہلو کی تفتیش کی.وفد میں محمد آصف ایڈووکیٹ،اور مولانا ابرارالحق فہمی وغیرہ تھے۔ وفد اس نتیجہ پر پہونچا ہے کہ یہ کیس ایک منظم قتل ہے.اور جمال الدین کو بھی پہلے مارا گیا ہے.بعد میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا ہے.اور معاملہ کو مجرمانہ طور پر دبانے کے لئے قاتل جمال الدین کو ہی قرار دے دیا گیا.وجہ کے طور پر ایک انتہائی کمزور بات کہی گئی کہ جمال الدین نے غربت و افلاس کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا .حالانکہ معاملہ پورے طور پر منظم طور پر قتل کا سمجھ میں آتا ہے.کیونکہ جائے وقوعہ کی چند چیزیں قابل غور ہیں.
01.جمال الدین کو جس درجہ غریب بتایا جارہا ہے حقیقت حال اس کے برخلاف ہے.جمال الدین کا مکان 20+50 بالکل پختہ بنا ہوا ہے.اس کے سامنے برآمدہ بھی ہے.
02.جمال الدین جس کرائے کی دوکان پر بیٹری کا کام کرتا تھا اس دوکان کو اس نے کچھ مہینوں پہلے ہی خرید لیا تھا
03.جمال الدین کے مکان کے عقبی حصہ میں خون سے لت پت موزے اور جوتے ملے جنہیں پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے.وہ جوتے اور موزے کس کے تھے.
04.جمال الدین جو پھندے پر لٹکا ہوا تھا.اس کی لاش کے پاؤں سے چپلیں تک نہیں گری،حالانکہ پھانسی کے پھندے پر لٹکنے والا چھٹپٹاتا ہے.
05. لاش کے پاس سلینڈر رکھا ہوا ہے جب کی پھانسی کے پھندے پر لٹکنے والا کرسی / سلنڈر یا دیگر کسی چیز کا سہارا لے کر گلے میں پھندا ڈال کر پاؤں کی ٹھوکر سے سلنڈر یا کرسی وغیرہ کو گراتا ہے،لیکن یہاں پر سلنڈر تھوڑی فاصلے پر رکھا ہوا تھا. اور سلنڈر فرش پر گرا بھی نہیں
06..اور تو اور کیا ایسا ہو سکتا ہے 11 لوگوں کا بے رحمی کے ساتھ تیز دھار دار اسلحہ سے گلا ریت دیا جائے اور قاتل کے کپڑے اور ہاتھ پر خون کا ایک بھی چھينٹ نہ ملے ؟؟
07.مارے جانے والوں میں جمال الدین کے دو بھابھیاں بھی ہیں،جمال الدین کی صحت دیکھ کر یہ بالکل بھی نہیں لگتا کہ اس نے اپنے بھابھیوں پر حملہ کیا ہوگا،اور انہوں نے بچاؤ کی کوشش نہ کی ہوگی.؟
08. وقوعہ پر کوئی بھی ایسا ثبوت نظر نہیں آیا جس سے یہ لگے کہ جمال نے اتنے لوگوں کا قتل کیا ہو.اور ان 11 میں سے کسی نے بھی خود کو بچانے کی کوشش کی ہو؟
09.حادثہ میں شدید زخمی ہو کر بے ہوش ہونے والی جمال الدین کی بیوی زاہدہ نے بھی اپنے شوہر پر ہی الزام لگایا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت جمال 10 لوگوں کا گلا ریت رہا تھا تو کیا زاہدہ کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو خبردار کرتیں ،؟
09.جمال الدين کا گھر گھنی آبادی میں تھا، کیا 11 لوگوں کی چیخیں بھی پڑوسیوں کے کانوں تک نہیں پہنچی.
10.اگر گاؤں والوں نے قاتل جمال الدین کو ہی بتایا تھا تو پھر میڈیا والوں کی گاڑی کو کیوں جلایا گیا؟
11.اگر جمال الدین کو اتنے سارے لوگوں کو مارنا ہی تھا تو انہیں زہر دے دیتا.بیہوشی کی دوا کیوں دی
12.جائے وقوعہ پر کوئی بنی شیشی یا ٹیبلیٹ وغیرہ نہیں ملی جس سے سمجھ میں آئے کہ جمال الدین نے ایسا کیا ہوگا.
13.جمال الدین کے مکان کے اندر دو چھریاں اور ایک بانکا ملے ہیں.پولیس نے انہیں آلہ قتل کے طور پر برآمد کیا ہے.لیکن گاؤں والے اس بات پر پریقین نہیں ہیں کہ ان چھریوں پر خون ہی لگا ہوا تھا یا اور کچھ؟
15. پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ اس روز دیر رات ایک گاڑی جمال الدین کے گھر آئی تھی اور گھر میں رکھا ایک دوست کا جنریٹر بھی چلایا گیا تھا جب کہ بجلی موجود تھی ۔تو کیا شور وغل کو دبانے کے لیے جنریٹر چلایا گیا تھا ؟ یا کوئی اور مقصد تھا ؟
16.جمال الدین کے گھر سے سات صفحات ایسے برآمد ہو ئے ہیں جن کو فی الحال پولس چھپارہی ہے، اطلاعات کے مطابق ان صفحات میں جمال الدین نے لکھا ہے’’ میری جان کو خطرہ ہے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو مخاطب کیا ہے کہ میرے بچوں کا خیال رکھنا‘‘۔جبکہ جمال الدین معمولی پڑھالکھاہواتھا7صفحات لکھناایک معمہ سےکم نہیں.
جمعیۃ علماء کے وفد نے وہاں کے پردھان ڈاکٹربلال احمد سےملاقات کی اور صورت حال کی حقیقت جانناچاہی توانھوں نے بھی حیرت اورافسوس کا اظہارکیااورکہاکہ اس نے ایساقدم معاشی تنگی کی وجہ سے نہیں اٹھایا ہوگا کیونکہ وہ معاشی اعتبار سے مناسب حالت پر تھا.اہالیان موضع نے یہ بھی بتایا کہ جمال الدین ابن مشکل کشا جو چھیالیس سال عمر کا تھا.اچھےاخلاق وبرتائوکاحامل شخص تھا،جمال الدین 17لوگوں کی کفالت کررہاتھا،اس کاایک بھائ 6 برس سےلاپتہ ہےاورایک بھائ کا انتقال ہوچکاہےان کےفیملی کی بھی کفالت جمال الدین کےذمہ تھی۔جس کنبہ کی وہ اتنے عرصہ سے کفالت کررہا ہو وہ اسی کنبہ کو اس بےدردی سے ماردےگا یہ بات قرین قیاس نہیں ہے.
اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جو اس واقعہ کو خودکشی کے بجائے پوری طور پر سازش کرکے بہیمانہ قتل کا واقعہ ثابت کرتے ہیں.
ویسے پولیس نے جو بیان دیا ہے اس کے مطابق جمال الدین نے پوری تیار ی کرکے گھر کے خواتین کو ایک دوا پینے کے لیے کہا اور ترک یہ دیا کہ اس کے پینے سے شوگر وغیرہ نہیں ہوگی ، اس نے دو چھوٹے لڑکو ں کو دوا نہیں پلائی او رکہا کہ یہ صرف خواتین کے لیے ہے ۔اس نے اپنی اہلیہ ،چار بیٹیوں، بھائی کی بیوہ ، اس کی تین بیٹیوں، اور ایک بھائی جو گم ہو گیا ہے ، اس کی بیوی ، دو بیٹیوں کل بارہ خواتین کو دوا اپنے ہاتھوں سے پلائی ۔بے ہوش جانے کے بعد سب کو دھار دار ہتھیار سے قتل کیا ، صر ف جمال الدین کی بیوی ، اور اس کی شادی شدہ لڑکی کا قتل نہیں ہو سکا ( کیوں کہ وہ روم کو لاک کرکے سوئی تھی)جنھوں نے ہوش میں آنے کے بعد دیکھا کہ جمال الدین کی لاش چھت سے لٹکی ہوئی ہے۔پولیس کے مطابق یہ بیان جمال الدین کی پچیس سالہ لڑکی نے دیا ہے ۔
محلہ میں شور ہونے کے بعد گاؤں والے ، پولس اور میڈیا کے لوگ پہنچ گئے اور تشہیر کردیا کہ جمال الدین نے اپنے گھر کی دس عورتوں کو قتل کردیا ہے ، پولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت ایک چینل نے یہ خبر چلانی شروع کردی کہ جمال الدین نے شراب کے نشے میں اپنے گھر کی عورتو ں کو قتل کردیا ہے، اس خبر پر عوام مشتعل ہوگئی اور اس نے ٹی وی چینل کے نمائندے کی گاڑی کو نذر آتش کردیا ، جس پر پولس خاموش تماشائی بنی رہی۔
ان سوالات اور دیگر مشاہدات کی روشنی میں جمعیۃ علماء سلطان پورکا وفد اس قتل کے واقعے میں جمال الدین اور اس کے خاندان کے تئیں سازش کے امکانات کو خارج نہیں کرتا ہے ، اس لیے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے معاملے کی سی بی آئی جانچ کرائی جائے تبھی جاکر اس قتل کا معمہ سلجھ سکتا ہے…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *