مسلمان کب تک ’فتویٰ بازوں‘ کے اسیر رہیں گے؟
نور اللہ جاوید
بنگالی فلم’’ذوالفقار‘‘گزشتہ سال کی متنازع ترین فلموں میں سے ایک تھی ، اس فلم میں مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ۔فلم میں کلکتہ کو درگا اور رابندر ناتھ ٹیگور کی سرزمین بتاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں نہ ملک کاجھنڈا لہرانے کی اجازت ہے اور نہ ہی ملک کاقومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔فلم کے پس منظر میںبچوں کے ہاتھوں میں چاقو، بندوق ،آذان کی آواز،سڑکوں پر نماز پڑھتے ہوئے اور جگہ جگہ مبینہ اسلامی جھنڈا(جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے)کولہراتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ،ایک منظر میں تو مولوی نماشخص کو ہاتھ میں کٹے ہوئے سر کو لے کر گھومتے ہوئے دکھلایا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس فلم پر مسلمانوں کا احتجاج فطری تھا۔مسلمانوں کی ناراضگی اور سیاسی دبائوکی وجہ سے فلم ڈائریکٹر سرجیت مکھرجی نے کچھ مناظر کاٹ دیے ۔مگر سوال یہ ہے کہ اس فلم کا پیغام کیا تھا اور اس کا مقصد کیا تھا ۔گرچہ مکھرجی کا دعویٰ تھاکہ فلم کی کہانی شیکسپئر کے ایک ڈرامے سے ماخود ہے جس میں ساحل پر ہونے والے جرائم کو دکھانا مقصود تھا مگر سوال یہ ہے کہ آخر اس کیلئے مسلم چہرے کا ہی کیوں انتخاب کیا گیا، مسلم اکثریتی علاقے میں آباد لوگوں کی حب الوطنی کو مشکوک کیوں بنایا گیا۔مسلمانوں کو قتل و غارت گری کا خوگر بناکر پیش کرکے کیا ثابت کیا جارہا ہے ؟۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کلکتہ کا ہی انتخاب کیوں کیا ہے؟
2جنوری کو ممبئی سے شایع ہونے والے انگریزی اخبار ڈی این اے میں شایع کنچن گپتا کے ایک مضمون ’’How green is my Bengal‘‘نے میرے تمام سوالات کے جوابات فراہم کردیے اور میرے سامنے پورا منظر نامہ کھل کر سامنے آگیا کہ آخر بنگال کی مسلم آبادی کی شبیہ بگاڑنے کے مقاصد کیا ہیں ۔اور اس کے پیچھے کا کھیل کیا ہے؟کنچن گپتا نے یہ مضمون کلکتہ شہر سے متصل ڈھولا گڑھ میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے تناظر میں لکھا ہے۔انہوں نے ممتا بنرجی کی سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلے کلکتہ میں صرف ایک علاقہ (جس کی طرف ذو الفقار فلم میں اشارہ کیا گیا ہے)No go zoneتھا مگراب پوراکلکتہ و مضافات عام شہریوں کیلئے No go zone بن تا جارہا ہے ۔کنچن گپتا لکھتے ہیں کہ ’’میں نے سنا ہے کہ بنگال کے کئی علاقوں میں مسلمان ہندئوں کو اپنے مردے کو جلانے نہیں دیتے ہیں بلکہ دفنانے پر مجبور کرتے ہیں ۔بلکہ کئی علاقوں میں مسلمان ہندئوں کو درگا پوجا کا تہوار بھی منانے نہیں دیتے ہیں ۔ ’’ڈی این اے ‘‘کے2جنوری کے شمارے میں ہی ادارتی صفحہ پر کنچن گپتا کے مضمون کے علاوہ پراتیک گھوش کا بھی ایک مضمون ’’Miasma of despair in Mamta ‘ s Bengal‘‘کے عنوان سے ہے۔گھوش نے اپنے اس مضمون میںممتا بنرجی پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے کا الزام عاید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’خود کو اقلیتوں کا چمپئن ‘‘ کہلانے والی ممتا بنرجی مسلمانوں کو جرائم کیلئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش سے متصل سرحدی اضلاع میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی شہری آباد ہورہے ہیں اوربنگال دہشت گردو کا محفوظ ٹھکانہ بنتا جارہا ہے اور یہ سب ووٹ بینک کی سیاست کا نتیجہ ہے۔اس کی وجہ سے ہندئوں میں مایوسی پھیلتی جارہی ہے ‘‘۔
کنچن گپتا ایک مشہور صحافی و بلاگر ہیں اور وہ مسلم دشمن ذہنیت کیلئے مشہور ہیں ، ان کے پس منظر کو جاننے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں قومی سلامتی کمیشن میں پی ایم او کے صلاح کار تھے اور اس کے علاوہ گپتا واجپئی و اڈوانی دونوں کے بھی خصوصی مشیر کار رہ چکے ہیں ۔اس لیے مسلمانوں کے معاملات میں ان سے غیر جانبداری کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ مگر کتنے لوگ کنچن گپتا کے اس پس منظر کو جانتے ہیں ؟ چناں چہ جو لوگ ان کے اس پس منظر کو نہیں جانتے ہیں وہ اگر ان مضامین کا مطالعہ کریں گے توان کے ذہن میں یہ تصویر ابھر سامنے آئے گی بنگال میں سیکولر پارٹیوں بالخصوص ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کی منھ بھرائی کیلئے جرائم کی مکمل چھوٹ دے دی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے دوسروں کیلئے نو گوزون بنتا جارہا ہے ۔اب بنگالی فلم ’’ذو الفقار‘‘ اور یہ دونوں مضامین کو سامنے رکھ کر جونتیجہ اخد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ علمی اوردانشوروں کی سطح پر بنگالی مسلمانوں کو منظم انداز میں بدنام کرنے اور ان کی شبیہ بگاڑنے کے علاوہ ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک گہری لکیر کھینچنااور ان میں خوف کا ماحول پیدا کرے متحد کرنے کی پوری کوشش ہے تاکہ 30فیصد ووٹ کے زعم میں مبتلا مسلم ووٹ کی اہمیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔
چناں چہ چند سال قبل شمال مشرقی ہندوستان کا کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ڈیلی گراف نے ایک رپورٹ شایع کی تھی کہ کلکتہ کے آئی ٹی سیکٹر سالٹ لیک میں مسلم انجینئر وں کو کرایہ پر مکانات نہیں مل رہے ہیں ۔اور کئی ایسی رہائشی سوسائٹیاں ہیں جن میں غیر اعلانیہ مسلمانوں کو مکانات نہیں دینے کا قانون بنایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے تئیں اس نفرت انگیز مہم سے کسے اور کیا حاصل ہوگا؟ اس کا جواب جاننے کیلئے یہ کافی ہے کہ گزشتہ ہفتے ہوڑہ ضلع کے ڈھولا گڑھ اور گزشتہ چند مہینوں میں ریاست کے دیگر مقامات پر ہوئے معمولی فرقہ وارانہ تشدد پر بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ نے باضابطہ ایک تجویز منظور کرکے بنگال کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگال کی سرزمین کو ہندئوں کیلئے تنگ اور نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے اورا ن پر حملے ہورہے ہیں ۔قومی مجلس عاملہ کی اس میٹنگ میں ملک کے وزیر اعظم مودی موجود تھے جن کے اپنے گجرات میں کیا ہوا؟ کس طرح قتل عام کیا گیا؟ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور دہلی میں بنگال سے کہیں بڑی نوعیت کے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اس کے باوجود بنگال میں امن و امان کو لے کر ہنگامہ آرائی کا مطلب سمجھا جا سکتا ہے۔؟
میڈیا ، نام نہاد دانشور اور سیاسی پروپیگنڈے کے اثرات سے ہماراسماج اورریاست کس قدر متاثر ہورہا ہے؟ مستقبل میں اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے ؟ اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کیا ہونی چاہیے۔ان سوالوں پر غور کرنے کے بجائے سیکولر جماعتوں بالخصوص مسلم لیڈروں کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔بلکہ مسلم قیادت فرقہ پرست قوتوں کے آلہ کار بنتے جارہے ہیں بلکہ یہ کہا جائے میڈیا کی سرخیوں میں رہنے کیلئے دانستہ طور پر آلہ کار بنا جارہا ہے ۔مرکزی کلکتہ میں واقع شیر میسور ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کے ذریعہ تعمیر کردہ ٹیپو سلطان مسجد کے امام جو بزعم خویش شاہی امام کے درجے پر فائز ہیں اور عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود لال بتی گاڑی پر گھومنے کو اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں نے ان دنوں اپنی فتاویٰ کے ذریعہ بنگال ہی نہیں بلکہ قومی میڈیا کو مسلمانوں کو بدنام کرنے بالخصوص بنگالی مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔
’’بزعم خویش شاہی امام‘‘ مولانا نورا لرحمن برکتی نے پہلے گزشتہ مہینے وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دینے والے بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش کو سنگسار کرنے کا فتویٰ جاری کیا اور اب ایک قدم آگے بڑھ کر ملک کے وزیر اعظم مودی کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے مودی کے چہرے پر سیاہی اور داڑھی کاٹنے والوں کو 25لاکھ روپے کا دینے اعلان کا فتویٰ جاری کرکے قومی میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور ایک بار پھر فتویٰ پر بحث جاری ہے۔بنگال میں سیاسی ایشوز سے محروم وجاں بلب بی جے پی کو بیٹھے بیٹھائے ایک بڑا ایشو مل گیا ہے۔۔لہذا بی جے پی سڑکوں پر اتر چکی ہے اور اس کو بڑا ایشو بنانے کی تیاری ہے ۔وہیں میڈیا میں صفحات کے صفحات سیاہ اور ٹی وی چینلوں پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ایک انگریزی ویب سائٹ پر انیر بن گنگولی کا مضمون’’Imam Barkati, Mamata and the destruction of Bengal‘‘یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک شخص کے بے تکے بیان کو کس طرح مسلمانوں کے سر مونڈھا جارہا ہے ۔
سوال یہ نہیں ہے کہ شاہی امام کے فتویٰ پر کتنے نوجوان وزیرا عظم مودی کے چہرے پر سیاہی ملنے کا حوصلہ کریں گے؟۔کیوں کہ مسلم نوجوان اس قدر بیوقوف بھی نہیں ہے کہ اس طرح کے فتویٰ بازوں کی آواز پر لبیک کہیں گے ؟کیوں کہ بنگال کے نوجوانوں کو اس بات کا علم ہے جب کلکتہ شہر سے محض چند کلومیٹر کی دوری پرحاجی نگر اور شمالی 24پرگنہ کے دیگر مقامات پرہندئو مسلم فسادات ہورہے تھے۔مسلمانوں کے مکانات جلائے جارہے تھے ۔یہاں کے لوگ شاہی امام کو فون کرکے مدد کی گہار لگار ہے تھے مگر امام موصوف ممتا بنرجی کو سیکولر لیڈر کا سرٹیفکٹ دینے اورا نہیں ملک کی وزیرا عظم بنانے کی مہم میں سرگرداں تھے۔سوال یہ ہے کہ مسلمان کب تک جذباتی تقریروں اوراس طرح فتائوںکے اسیر رہیں گے ؟ ۔اس طرح کے فتویٰ بازوں کے خلاف مسلمانوں کے صف سے ہی کیوں نہیں زوردار آواز بلند ہوتی ہے ؟کیا ان کے فتاوے مسلمانوں کی رسوائی اور ذلت کا سبب نہیں بن رہا ہے؟فرقہ پرستی چاہے مسلمانوں میںہو یا پھر ہندئوں میں بہر صورت ناقابل قبول ہے ۔ساکشی مہاراج، پروین توگڑیاجیسے شدت پسند ہندئوں لیڈروں کا جواب کیا ان کی سطح پر اتر کر ہی دیا جا سکتا ہے؟ ۔ کیا ہمیں سرکاٹنے ، سنسار کرنے یا پھر وزیر اعظم ہند کے چہرے پر سیاہی لگانے کا فتویٰ جاری کر نے والوں سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے فتاویٰ پر عمل اپنے ہی بچوں کے ذریعہ کیوں نہیں کرواتے ؟ نیکی کی شروعات اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔؟
مضمون نگار یواین آئی کلکتہ سے وابستہ ہیں۔