
اتر پردیش انتخابات میں مسلمانوں کا سیاسی موقف کیا ہو؟

مولانا سلمان حسینی ندوی، استاذدارالعلوم ندوة العلماء لکھنو،سرپرست ایکتا منچ نے اپنے موقف کااعلان کردیا
لکھنئو (ایجنسی) اتر پردیش انتخابات کے پیش نظر دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوکے استاذاور ایکتا منچ کےسرپرست مولانا سلمان حسینی ندوی نے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ و ہ حالیہ انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی کا ساتھ دیں۔مولانا نے میڈیا میں جاری تحریر میں لکھا ہے کہ ’’یوپی کے مسلمانوں اور بالخصوص تنظیموں اور پارٹیوں کے ذمہ داروں کو معلوم ہے کہ ہم لوگ تقریباً گزشتہ چھ سال سے مسلسل اس کی کوشش کرتے رہے ہیںکہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی پلیٹ فارم ہو، جس میں مسلمانوں کےعلاوہ دیگر تمام کمزوروں ، محروموں اور مظلوموں کی بھی نمائندگی ہو اور مسلمان اس میں امت مسلمہ کی نسبت کی بنا ء پر قائدانہ رول ادا کریں۔اسی مقصد کی خاطر ستر کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالجلیل آفریدی صاحب نے مسلم مجلس قائم فرمائی تھی اور حضرت علی میاں ندوی صاحب ؒ پوری طرح ان کی سرپرستی فرمارہے تھے۔پانچ سال پہلے ’’اتحاد فرنٹ‘‘ یا ایکتا منچ کے نام سے ہم لوگوں نے ایک محاذ بنایا تھا، جو بعد میں انتشار کا شکار ہوا، ہم لوگوں نے اس اتحاد کی طرف سے سماج وادی پارٹی کے نمائندہ شیوپال صاحب سے بات کی تھی، اور ان کو ایک پندرہ نکاتی مطالبہ نامہ دیا تھا، جس کو انہوں نے پختہ وعدہ کے ساتھ لیا تھا، جس میں زیادہ تر سچر کمیٹی اور رنگاناتھ مشرا کمیشن کی ر پورٹس کے مطالبات تھے، اور خاص طور پر اردو میڈیم اسکولوں کی اجازت کا مطالبہ تھا، جس میں۱۸ فیصد ریزرویشن کا خود ان کا وعدہ تھا، لیکن نہ صرف یہ کہ پانچ سالوں میں انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا، بلکہ وہ الیکشن سے پہلے دو مرتبہ خود ہمارے پاس تشریف لائے تھے، اور پھر پانچ سال میں ایک مرتبہ بھی ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔دوسری طرف وعدہ خلافی کے ماحول کے ساتھ سماج وادی پارٹی نے صرف ایک سال میں مسلمانوں کو دو سو فسادات کا تحفہ دیا، جس پر اردو میں مسلسل مضامین آتے رہے، ان میں مظفر نگر فسادات نے تقسیم ہند کی یادیں تازہ کردیں۔ پھر پوری مدت میں یہ بات اظہر من الشمس رہی کہ یہ ایک خاندان ، ایک پریوار کی حکومت ہے، جمہوریت کے نام پر پرانے دور کے راجائوں کا نظام پیش کیا جارہا ہے، جس کا بدترین منظر آخری دنوں میں سب کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ہم لوگوں نے اس بات کی مسلسل کوشش کی کہ پرانے اتحاد کو زندہ کیاجائے۔ لیکن اس میں سے متعدد غیر مسلم پارٹیو ںنے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی، او رمسلم پارٹیوں نے اپنی اپنی ڈفلی بجانے کی روش جاری رکھی۔ ہم نے اسدالدین اویسی صاحب سے ایک مرتبہ ملاقات کے بعد مسلسل کوشش کی کہ وہ اتحاد کی قیادت کریں، سب کو جوڑیں، دلت مسلم اتحاد کا ثبوت دیں، اور تنہا میدان میں زور آزمائی نہ کریں، ورنہ بہار سے زیادہ برا حال ہوگا او رمسلمانوں کو صرف نقصان پہنچے گا، مسلسل چھ ساتھ مہینوں سے میں نے ان سے رابطہ کی کوشش کی ۔ ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، لکھنو، کلکتہ، دہلی ہر جگہ کے متعدد ذمہ داروں ، یہاں تک کہ ان کی پارٹی کے ذمہ داروں سے بھی کہا کہ وہ ان سے کہیں کہ ہم لوگوں کے ساتھ مل کر اور سب کو ساتھ لے کر وہ سیاسی قیادت کا کام کریں، ہم ان کا پورا تعاون کریں گے، اخیر میں ان کی پارٹی کے یوپی کے جنرل سکریٹری سید رفعت صاحب سے بھی تفصیلی بات ہوئی لیکن
اے بسا آرزو خاک شدہ
ان سے ہمیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
اب ہمارے سامنے ملی قیادت کا مسئلہ ایک خواب پریشاں یا امید موہوم بن گیا اور الیکشن سر پر آگیا، اس لئے اب ہمیں موجودہ پارٹیوں میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہے۔
(۱)سماج وادی پارٹی کا حال اوپر ذکر کیاجاچکا ہے، وہ یادو گھرانے کی ایک پارٹی ہے، جس میں نیتا جی راجہ تھے، اب ان کے بیٹے نے ان کو ہٹادیا، مسلمانوں کے لئے ملی، قومی، سیاسی کسی پیمانہ پر درست نہیں ہے ان کو پھر موقعہ دیاجائے۔
(۲)کانگریس بہت ہاتھ پیر مار رہی ہے، لیکن ملک میں مسلمانوں کی جو کچھ درگت ساٹھ سالوں میں بنی ہے، اس کی راست ذمہ دار وہی رہی ہے اور اس کے رویہ میں کسی تبدیلی کی کوئی اُمید نہیں ہے۔
(۳)بی جے پی کو مودی جی کے بیانات کے اعتبار سے ایک سیکولر متبادل پارٹی بنناچاہئے ، لیکن وہ اپنے اصل فرقہ وا رانہ تشخص سے ہٹ کر ایک جمہوری اور سیکولر سیاست اختیار نہیں کرپارہی ہے۔
(۴)کوئی نیا طاقتور اور ذمہ دار فرنٹ نہیں بن سکا۔
(۵)اب صرف بی ایس پی رہ جاتی ہے، بہوجن سما ج پارٹی اپنی بنیادوں اور اصولوں میں مظلوموں کی آواز ہے، بھیم رائو امبیڈکر اور کانشی رام کی تحریک کی ہمیشہ مسلمانوں نے تائید کی ہے، اگرمایاوتی جی صدق دل سے اور پوری وفاداری کے ساتھ ان کی تحریک لے کر چلتیں اور مسلمانوں کے ساتھ طاقتور تحریکی اتحاد کرتیں تو ان کی حکومت ہی یوپی میں قائم ہوتی اور باقی رہتیں لیکن انہوں نے بی جے پی سے دو مرتبہ اتحاد کرکے اپنے مشن کو بہت نقصان پہنچایا ، لیکن پھر اس فیصلہ کا اظہار کیاکہ اب وہ ایسا نہیں کریں گی۔
میں نے ان سے ایک ملاقات میں پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ اس کا مطالبہ کیاکہ وہ امبیڈکر اور کانشی رام کی تحریک کو پوری طاقت سے زندہ کریں، انہوں نے دلت او رمسلم اتحاد کی بات کی، او رمیں نے ان سے کہاکہ اگر وہ تحریک پر پوری توجہ دیں، اور صحیح معنیٰ میں دلت مسلم اتحاد کو لے کر چلیں، او رمسلمانوں کی بہتر نمائندگی کا اہتمام کریں، تو یہ اتحاد کامیاب ہوگا۔
ان کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچایا، ان کے دور میں نظم وضبط اچھا رہتا ہے، اور فسادات پر کنٹرول ہوتا ہے۔
اس مرتبہ انہوں نے زیادہ مسلم نمائندگی رکھی ہے اور اچھے مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں، جن میں سے متعدد افراد سے میری باتیں ہوچکی ہیں۔
اس پورے منظر میں خلوص کے ساتھ ، ملی ذمہ داری کا احسا س کرتے ہوئے میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہر طرح کے انتشار، لالچ، دھوکہ او ر پروپیگنڈہ سے بچتے ہوئے او راپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے دلت مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر بہوجن سماج پا رٹی کو ووٹ دیں، اور اس کو حکومت بنانے کا موقعہ دیں۔