موجودہ بجٹ میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ اور ٹیکس انتظامیہ کی سہل کاری بھی شامل

حکومت معیشت سے کالے دھن کے عنصر کا سدباب کرنے کیلئے عہد بند ہے۔ایم ایس ایم ای کمپنیاں 25فیصد کی شرح پر آمدنی ٹیکس اداکریں گی۔ایل این جی پر کسٹم محصولات گھٹاکر5 سے 2.5 فیصد کیے گئے۔چھوٹے اور اوسط درجےکے ٹیکس دہندگان نسبتاً کم شرحوں پر آمدنی ٹیکس ادا کریں گے۔الیکٹورل فنڈنگ میں شفافیت لانےکے اقدامات کااعلان
2.5 لاکھ سے 5لاکھ روپئے کے سلیب کے تحت آنے والے انفرادی ٹیکس دہندگان کو 10 فیصد کے بجائے 5 فیصد ٹیکس اداکرناہوگا۔
50لاکھ سے ایک کروڑ روپئےکے ٹیکس سلیب میں آنےوالےانفرادی ٹیکس دہندگان کو 10 فیصد کااضافی محصول اداکرناہوگا۔
اہم موضوعات پر جی ایس ٹی کونسل کی سفارشات کوحتمی شکل
نئی دہلی۔(ایجنسی)آج یہاں پارلیمنٹ میں 18-2017کا عام بجٹ پیش کرتے ہوئے خزانہ اور کمپنی اُمور کےوزیر ارون جیٹلی نےکہا کہ بجٹ تجاویز کی اہم توجہ اور زور ، شرح نمو کومہمیز کرنے ، متوسط طبقے کوراحت فراہم کرنے، واجبی قیمت پر مکانات فراہم کرنے، کالے دھن کاسدباب کرنے ، ڈیجیٹل معیشت کوفروغ دینے ،سیاسی فنڈنگ کو شفاف بنانے اور ٹیکس انتظامیہ کوسہل بنانے پر مرکوز ہے۔
ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال پیش کرتےہوئے جیٹلی نےکہاکہ ہم بیشتر شکل میں ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں ٹیکس کی ادائیگی پوری طرح سے نہیں کی جاتی۔ 3.7 کروڑ ایسےافراد جنہوں نے 16-2015 میں اپنے ٹیکس ریٹرن داخل کیے تھے ،ان میں سے صرف 24لاکھ افراد نے اپنی آمدنی کو10 لاکھ روپئے سے زائد ظاہرکیا تھا۔ ایسے افراد جنہوں نے اپنی آمدنی 5 لاکھ سے زائد ظاہرکی تھی ،ان کی تعداد 76 لاکھ تھی ، ان میں سے 56لاکھ افراد کاتعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے۔ ایسےافراد جنہوں نے اپنی آمدنی پورےملک میں 50لاکھ روپئے سےزائد ظاہرکی ہے،ان کی تعداد محض 1.72 لاکھ ہے جبکہ1.25کروڑ سےزائد کاریں گزشتہ 5 برسوں کے دوران فروخت ہوئی ہیں اور 2کروڑ سے زائدافراد نے 2016 کے دوران غیرممالک کاہوائی سفرکیا تھا۔
حکومت کی ترجیحات کو نمایاں کرتے ہوئے وزیرخزانہ جیٹلی نے اپنی بجٹی تقریر میں کہاکہ اہم ترجیحات میں سےایک اہم ترجیح یہ ہے کہ معیشت میں کارفرما کالے دھن کے عنصر کو ختم کیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت اس بات کےلئے عہد بند ہے کہ ہماری ٹیکسیشن کی شرحیں زیادہ سےزیادہ واجبی ہوں اور ہماری ٹیکس انتظامیہ منصفانہ طرز عمل اپنائے اور ملک میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کیاجائے۔ بڑے نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ملک کی حقیقی صورتحال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 نومبر سے 30 دسمبر 2016 کے دوران 1.09کروڑ بینک کھاتوں میں 2لاکھ سے لیکر 80 لاکھ روپئے جمع کیے گئے اور اوسطاً 5.03 لاکھ روپئے کی شکل میں سرمایہ جمع ہوا۔ 80 لاکھ روپئے سےزائد کے ڈپازٹ 1.48 لاکھ کھاتوں میں اوسط 3.31 کروڑ کی شکل میں جمع کیے گئے۔ اعداد وشمارکے اس تجزیے سے حکومت کو بڑے پیمانے پر ٹیکس کادائرہ بڑھانے میں اور اپنے مالیے میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی ۔ بڑے نوٹوں کی قدر وقیمت ختم کرنے کایہ بھی ایک اہم مقصد ہے۔
اسی سلسلے میں دوسرے سال کی بات کریں تو ٹیکس مالیہ کی شرح نمو 17-2016 کے مالیہ تخمینہ کےمطابق 17 فیصد ہوگی۔ کیوں کہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں لہٰذا رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں کے دوران ذاتی انکم ٹیکس میں پیشگی ٹیکس کی شرح نمو 34.8 فیصد ہے۔ املاک کے شعبے میں واجبی قیمتوں پر رہائشی مکانات کی فراہمی کے کا م کو فروغ دینے کےاقدامات کاذکرکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ آمدنی سے مربوط آمدنی ٹیکس ، واجبی قیمتوں پر مکانات کی فراہمی کرنے والوں کی بنیاد کو وسعت دی جائے گی۔ 30 اور 60 مربع میٹر کی مکانیت والے رقبےکے بدلےمیں 20 اور 60 مربع میٹر کارپیٹ ایریا کااصول اپنایاجائے گا۔30 مربع میٹر کااصول صرف چارمیٹروپولیٹن شہروں کی میونسپل حدود میں نافذ ہوگا جبکہ بقیہ ملک میں 60مربع میٹر کی حد بندی نافذ رہے گی۔ اس سلسلے میں اسکیم کو آغازکے بعد تین سال کی مدت کے اندر مکمل کیاجانا تھا اب یہ مدت بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ نظریاتی رینٹل انکم پر عائدہونے والا ٹیکس ایک سال کی مدت پورے ہونے کے بعد ، جب تکمیل کی سند موصول ہوجائے تبھی عائدہوگا تاکہ بلڈروں کو کچھ راحت مل سکے۔ کیپٹل گین ٹیکس تجاویز میں تبدیلیوں کا ذکرکرتے ہوئے ، جس کاتعلق اراضی اور عمارتوں سے ہوگا، جیٹلی نےکہا کہ غیرمنقولہ جائیداد سے حاصل ہونے والے فائدے کااحتساب کرنے کیلئے ہولڈنگ پیریڈ پر غور کیاجارہاہے اور اسے موجودہ تین برسوں کے بجائے گھٹا کر دو برس کیا جارہا ہے۔ اشاریہ بندی کیلئے بنیاد ی سال کی تجویزکو یکم اپریل 1981 سے بدل کر یکم اپریل 2001 کر دیاگیا ہے۔ اس کے تحت غیرمنقولہ جائیداد سمیت تمام تراثاثوں کا شمار کیاجائے گا۔ آندھرا پردیش کیلئے نئی راجدھانی کےمعاملےمیں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ جن افرادکے پاس 2جون 2014 کو اراضی کی ملکیت تھی اور جن کی اراضی حکومت کی اسکیم کے تحت نئے راجدھانی شہر کی تعمیرکیلئے حاصل کی جارہی ہے،ان پر کیپٹل گین ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔
شرح نمو کو مہمیز کرنے کیلئے کیےجانے والےاقدامات کاذکرکرتےہوئے جیٹلی نےکہا کہ غیرملکی کمپنیاں بیرونی تجارت قرضوں پر جوسود، بانڈ یا سرکاری تمسکات پر جو منافع کمائیں گی ان پر رعایتی پانچ فیصد کی شرح سے محصول عائدکیاجائے گا۔ اس سلسلے میں تاریخ کوبڑھا کر 30 جون 2020 کر دیا گیاہے۔ اسٹارٹ ۔ اپس کے معاملے میں خساروں کو کیری فارورڈکرنےکی سہولت دینے کیلئے 51 فیصد کے ووٹنگ حقوق کی لگاتار تحویل کی شرط میں رعایت دی گئی ہے۔ یہ رعایت اس شرط پر دی گئی ہے کہ اصل پرموٹرں کو لگاتار ہولڈنگ میں ہونالازمی ہے۔ اسٹارٹ۔اپس کو دستیاب منافع سے وابستہ رعایت جو پانچ برسوں میں سے تین برسوں کے لئے دستیاب تھی اسے اب سات برسوں میں تین برسوں کیلئے کیاجارہاہے۔ ارون جیٹلی نے کہا کہ کم از کم متبادل ٹیکس(ایم اے ٹی) کو یکسر ختم کرنا یا اس میں تخفیف کرناممکن نہیں ہے۔ تاہم کمپنیوں کو آئندہ برسوں میں ایم اے ٹی کریڈٹ کی سہولت استعمال کرنے کےلائق بنانے کیلئے دس برسوں کے بجائے پندرہ برسوں کی مدت کی سہولت کیری فارورڈ کے سلسلے میں فراہم کی جائے گی۔ متوسط اور چھوٹے درجے کی صنعتوں کیلئے ٹیکس فوائد کااعلان کرتے ہوئے تاکہ وہ زیادہ افادی بن سکیں اور فرموں کی بجائے کمپنی کی شکل لے سکیں، وزیر خزانہ نے کہا کہ 50 کروڑ روپئے کےسالانہ ٹرن اوور والی چھوٹی کمپنیاں اب محض 25 فیصد ٹیکس ادا کریں گی۔ 16-2015 کے جائزہ سال کے اعداد وشمار کے مطابق 6.94 لاکھ کمپنیاں ایسی ہیں جو ریٹرن داخل کررہی ہیں اور ان میں سے 6.67 لاکھ کمپنیاں اسی زمرے کی ہیں۔ اس قدم سے ایم ایس ایم ای سیکٹرکو بڑی کمپنیوں کےمقابلے میں مزیدمسابقتی بنایاجاسکے گا۔ اس قدم سے جس قدر مقدار میں مالیہ تخفیف رونماہوگی اس کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ رقم 7200 کروڑ روپئے سالانہ کے بقدر ہوگی۔
بینکنگ شعبے کو بڑھاوا دینے کیلئے ، غیرمنفعت بخش اثاثوں کے معاملےمیں حدود کو7.5 فیصد سے بڑھا کر 8.5 فیصد کیا جارہا ہے۔ اس سے بینکوں کی ٹیکس ذمہ داری میں کمی واقع ہوگی۔ این پی اے کھاتوں کے معاملے میں اصل آمد پر عائدہونے والے سود پرٹیکس وصول کیا جائےگا اور مجموعی آمد پرٹیکس عائدنہیں ہوگا۔ اس سے سود پر عائدہونے والے ٹیکس کو بغیر سود کے وصول ہوئے، اداکرنےکی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جیٹلی نےکہا کہ ایل این جی پر عائد کسٹم محصول 5 فیصد سے گھٹا کرڈھائی فیصدکیاجارہا ہے۔ یہ فیصلہ ایل این جی کے گوناں گوں استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
میک اِن انڈیاکو فروغ دینے اور گھریلو ویلو ایڈیشن کو ترغیبات سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے جیٹلی نے قابل احیاء توانائی شعبے میں مختلف اشیاء پر کسٹم اور مرکزی آبکاری محصولات میں تبدیلی کااعلان کیا ہے۔ اس میں ایندھن پر مبنی بجلی پیداکرنے والے نظام کی تمام تر مشینری کے آئیٹم شامل ہیں ، جن کااستعمال ملک میں مظاہرہ جاتی مقاصد ، بایوگیس / بایو میتھین / بائی پروڈکٹ ہائیڈروجن ، ایل ای ڈی لائٹوں یافکسچر وغیرہ کیلئےکیا جاتا ہے۔آبکاری محصولات میں مذکورہ سازوسامان اور خام اشیاء کے ضمن میں جو تخیف لائی جانی ہے ، اس تجویز میں چند اشیاء مثلاً رقیق قدرتی گیس (ایل این جی) نِکِل بناسپتی ٹیننگ کشید اور چند اہم ساز وسامان شامل ہیں۔
فائنانس ایکٹ 2005 کی دفعہ 85کے تحت ،جس کا تعلق مختلف قسم کی تمباکو اور تمباکو سے تیار ہونے والی مصنوعات کے سلسلے میں اضافی محصولات عائدکرنے اور آبکاری محصولات میں اضافہ کرنے سے ہے ، ان کابھی اعلان بجٹ میں کیا گیاہے۔
ڈیجیٹل معیشت اور نقدی کے بغیر سودوں کے لین دین کاذکرکرتےہوئےجناب ارون جیٹلی نے کہا کہ بی سی ڈی ، ایکسائز / سی وی محصولات اورایس اے ڈی جو پی او ایس کارڈریڈر کےذریعے نافذکی جائیں گی اور پی او ایس مائیکرو اے ٹی ایم معیارات 1.5.1 ، انگلیوں کے نشانات پڑھنے / اسکینر / آئرس اسکینر کےاصولوں پر مبنی ہوں گی، انہیں رعایت دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس طرح کے آلات تیارکرنےکیلئےدرکارپرزوں پر بھی رعایت دی جائے گی تاکہ ان تمام آلات کو گھریلو پیمانے پر تیار کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ 3لاکھ روپئے سے اوپر کاکوئی بھی سودا نقد شکل میں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تخفیف کی شکل میں جو نقد اخراجات لاحق ہوں گے،خواہ انکاتعلق مالیہ یا بڑے اخراجات سےہو وہ بھی دس ہزار روپئے تک ہی محدود ہوں گے۔ اسی طرح نقد عطیات جو خیراتی ٹرسٹ وصول کرسکتے ہیں ، ان کی حدود کو بھی دس ہزار روپئے سےگھٹا کر2ہزارروپئے کردیا گیاہے۔ جہاں تک چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں کی شکل میں ٹیکس دہندگان کی جانب سے اداکیےجانے والے پیشگی ٹیکس کی ادائیگی کی اسکیم سوال ہے ،جن کا ٹرن اوور 2کروڑ روپئے تک کاہو ، اب ان کے اس ٹرن اوور پر پہلے کےآٹھ فیصدکےمقابلے میں محض 6 فیصد ٹرن اوور پر ٹیکس عائد ہوگا۔
بےنامی عطیات کی شکل میں نقدی طور پر سیاسی پارٹیوں کےذریعے حاصل کیےجانےوالے سرمائےپر تشویش کااظہارکرتے ہوئے جناب جیٹلی نےکہاکہ ماضی میں اس طرح کے عطیات پر قدغن لگانےکیلئے جواقدامات کیے گئے تھے ان کے نتیجے میں صورتحال میں بہت معمولی فرق واقع ہواہے۔ سیاسی پارٹیوں کوملنےوالے سرمائےکےمعاملے میں ایک شفاف طریقہ کار نافذہوناچاہئے جو آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کےنظام کیلئے از حد اہم ہے۔ جناب جیٹلی نے تجویزرکھی کہ درج ذیل اسکیموں کو پورےنظام کی صفائی اورسیاسی پارٹیوں کوملنےوالے سرمائے کےنظام میں شفافیت لانے کیلئے نافذکیاجاناچاہئے۔
(a کوئی بھی سیاسی پارٹی نقدشکل میں ایک فرد سے صرف 2000روپئے ہی حاصل کرسکتی ہے۔
(b متعلقہ سیاسی پارٹی اپنے لیے عطیات کواپنے عطیہ دہندگان سے ڈیجیٹل یا چیک کی شکل میں وصول کرسکتی ہے۔
(c ریزرو بینک آف انڈیاایکٹ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں وضع کی جانے والی اسکیم سے متعلق الیکٹورل بانڈ جاری کیےجاسکیں۔ اس اسکیم کے تحت ایک عطیہ دہندہ مجاز بینکوں سے چیک یاڈیجیٹل ادائیگی کے ذریعے بانڈ خرید سکے گا۔ یہ بانڈ طے شدہ کھاتے میں ہی لائق منتقلی ہوں گے اور یہ کھاتے ہر حال میں درج رجسٹرڈسیاسی پارٹیوں کے ہی ہوں گے۔ ان بانڈوں کو اجراء کی تاریخ سے طے شدہ مدت کے اندر ہی وصول کیا جاسکےگا۔ ہرسیاسی پارٹی کو آمدنی ٹیکس ایکٹ کی تجاویز کے تحت تشخیص کردہ مدت کے اندراندر اپنے ریٹرن فائل کرنے ہوں گے۔
کاروبار کوآسان بنانےسے متعلق اقدامات کاذکرکرتےہوئے جناب ارون جیٹلی نےکہا کہ گھریلومنتقلی پرائسنگ تجاویزکی وجہ سے نفاذ کے بوجھ کو کم کرنےکیلئے گھریلو پرائسنگ منتقلی کے دائرے کو اس صورت میں محدود کردیاجائے گا جب ایک ادارہ متعلقہ سودوں میں مخصوص منافع مربوط رعایت کافائدہ اٹھاتاہو۔ کاروباری اداروں کے معاملےمیں احتساب کی ابتدائی حد ایک کروڑ روپئے سے بڑھا کر دو کروڑ روپئے کی جارہی ہے۔ اسی طرح افراد اور ایچ یوایف کے ذریعے تیارکیے جانے والے بہی کھاتے کی ابتدائی حدود کو موجودہ 10لاکھ روپئے سے بڑھا کر 25لاکھ روپئے یا آمدنی کے معاملے میں 1.2 لاکھ سے بڑھا کر 2.5 لاکھ روپئے کیاجارہاہے۔
جیٹلی نےمزید اعلان کیا کہ غیرملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں (ایف پی آئی) زمرہ I اور IIکو بالواسطہ منتقلی تجاویز سےاستثنائی حاصل ہوگی۔بالواسطہ منتقلی تجاویز اس صورت میں نافذ نہیں ہوں گی جب شیئریا سود بھارت سے باہرکمایا گیا ہو یا بھارت میں کی گئی سرمایہ کاری کی فروخت کی شکل میں کوئی آمدنی حاصل ہوئی ہو،جس پر بھارت میں پہلے سے ہی ٹیکس نافذہو۔ انہوں نے مزید اعلان کیاکہ انفرادی انشورنس ایجنٹوں سے وصول کیا جانےوالا 5 فیصد کاٹی ڈی ایس فائلنگ کی شرط کے تحت استثنائی کا حامل ہوگا ،شرط یہ ہے کہ اس سلسلے میں ایجنٹ اپنی آمدنی کے بارےمیں یہ اقرار نامہ تحریری طور پر داخل کریں کہ ان کی اپنی آمدنی ٹیکس کی حدود سے کم ہے۔ ایسے پیشہ وران جو سالانہ بنیاد پر 50 لاکھ روپئے تک کی حصولیابی کرتے ہیں ،انہیں ایڈوانس ٹیکس کے معاملےمیں یہ آسانی فراہم کرائی جائے گی کہ وہ ایڈوانس ٹیکس اسکیم کے تحت 4کے بجائے ایک قسط میں ادائیگی کرسکیں گے۔ ٹیکس ریٹرن کو نظرثانی کرکے جمع کرنےکیلئے دستیاب مدت گھٹا کر12مہینے کردی گئی ہے۔ یہ مدت مالی سال کے اختتام سے شمار کی جائے گی تاکہ عوام تیزی سے ریفنڈ کلیم کرسکیں۔ اسی طریقے سے جانچ پڑتال اورجائزے کے سلسلے میں وقت کی مدت 21مہینوں سے گھٹا کر 18 مہینے کردی گئی ہے جو 19-2018 کے جائزہ سال کیلئے مقرر کی گئی ہے اور 20-2019 اور اس کے آگے کے سالوں کیلئے یہ مدت 12 مہینے کردی گئی ہے۔
ذاتی آمدنی ٹیکس کے بارے میں تجاویزکی تفصیل بتاتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ 2.5 لاکھ سے لیکر 5 لاکھ روپئے تک کی آمدنی کے سلسلے میں انفرادی طور پر ٹیکس دہندگان کیلئے موجودہ شرح گھٹا کر 5 فیصد کردی گئی ہے جو پہلے 10 فیصد تھی، اس سے 5 لاکھ روپئے سےکم کی آمدنی والے تمام افراد کی ٹیکس ذمہ داری میں تخفیف ہوگی ، یا تو انہیں بالکل آمدنی ٹیکس ادانہیں کرناہوگا یا پھراپنی موجودہ ٹیکس ذمہ داری کامحض 50 فیصد اداکرنا ہوگا۔ کسی کو دوہرا فائدہ نہ پہنچے ، اس سے بچنے کیلئے استفادہ کنندگان کے ایک گروپ کو دستیاب رعایت کو گھٹا کر 2500 روپئے کیاجارہاہے اور یہ رعایت صرف ان ٹیکس دہندگان کو دستیاب ہوگی جن کی آمدنی محض 3.5 لاکھ روپئے تک کی ہوگی۔ مذکورہ دونوں اقدامات کامجموعی اثر یہ ہوگاکہ 3 لاکھ روپئے تک کی مجموعی سالانہ آمدنی والوں کوکسی طرح کاٹیکس ادانہیں کرناہوگا اور 3 سے لیکر 3.5 لاکھ روپئے تک کی آمدنی والوں کو صرف 2500 روپئے کاٹیکس ادا کرناہوگا۔ اگر آمدنی ٹیکس کی دفعہ 80 سی کے تحت 1.5 لاکھ روپئے کی حد کااستعمال سرمایہ کاری کےلئے کیا گیا ہے تو ساڑھے چار لاکھ روپئے تک کی آمدنی والےافراد کوٹیکس سے استثنائی حاصل ہوگی۔ جن افراد کی آمدنی 5 لاکھ روپئے تک کی ہوگی ان کی ٹیکس ادائیگی کو گھٹا کر آدھا کردیا گیا ہے۔ تمام دیگر زمرے کے ٹیکس دہندگان جو اس سے اوپرکے زمرے میں آئیں گے انہیں بھی فی کس 12500روپئے کایکساں فائدہ یا رعایت حاصل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ٹیکس کی وصولی میں 15500کروڑ روپئے کی تخفیف رونماہوگی۔
ایسے افراد جن کی سالانہ آمدنی 50 لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے اُن پر 10 فیصد کااضافی محصول ٹیکس کےاوپر عائدہوگا۔ موجودہ ایک کروڑ روپئے سےزیادہ آمدنی والےافرادکیلئے نافذ موجودہ 15 فیصد کااضافی محصول جاری رہے گا۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس سے 2700 کروڑ روپئے کااضافہ مالیہ حاصل ہوگا۔ انکم ٹیکس کے ریٹرن کے طور پر محض ایک صفحے کاریٹرن بھرناہوگا جو ایسے انفرادی ٹیکس دہندگان کے لئے ہوگا جن کی آمدنی (کاروباری آمدنی والےشامل نہیں ہیں ) 5 لاکھ روپئے تک کی ہوگی ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ کوئی بھی ایسا فرد جو اس زمرے میں آتاہے اور پہلی مرتبہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کررہاہے اس سے پہلےسال میں کسی طرح کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کے بارے میں مخصوص طور پر متعلقہ محکمے کو زیادہ بڑے سودے کرنے کی کوئی اطلاع علیحدہ سے نہ حاصل ہوئی ہو۔ جناب جیٹلی نے بھارت کے تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سب سے کم سلیب یعنی ڈھائی پانچ لاکھ روپئے تک کے سلیب میں آنے پر پانچ فیصد کی چھوٹی سی ادائیگی ضرور کریں اور اس طرح سے تعمیر ملک کے کام میں تعاون کریں۔ وزیر خزانہ نے مزید اعلان کیاہے کہ وزیراعظم کے راحت فنڈ میں عطیہ دینے، دیگر مماثل فنڈوں میں عطیہ دینے کی صورت میں جو رعایات حاصل ہوتی ہیں ، اسی طریقے سے وزیراعلیٰ یالیفٹیننٹ گورنر کے راحت میں عطیہ دینے سے جو رعایت حاصل ہوتی ہے وہ اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
گُڈس اینڈ سروسز ٹیکس کو ڈگر سے ہٹ کر کرشماتی اصلاح بتاتےہوئےجناب ارون جیٹلی نےکہاکہ جی ایس ٹی کے لئے درکار ضروری تیاری حکومت کی اعلیٰ ترجیح ہے۔ جی ایس ٹی کونسل نے اپنی سفارشات کو اتفاق رائے کی بنیاد پر تمام تر موضوعات کے ضمن میں حتمی شکل دے دی ہے۔ جی ایس ٹی کے لئے آئی ٹی نظام بھی طے شدہ مدت کے اندر طے پاگیاہے۔ تجارت وصنعت ، جس کا تعلق جی ایس ٹی سے ہے، سے رابطہ قائم کرنے کیلئے کوششیں یکم اپریل 2017 سے شروع ہوں گی تاکہ انہیں نئے ٹیکس نظام سے واقف کرایاجاسکے۔ امداد باہمی پر مبنی وفاقیت کی رو سے کسی طرح کاسمجھوتہ کیے بغیر حکومت اس بات کی کوشش کرتی رہے گی کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کاکام مکمل کرلیاجائے۔ جناب جیٹلی نے توقع ظاہر کی کہ جی ایس ٹی زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کو دونوں یعنی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں لائے گا کیوں کہ اس کے ذریعے ٹیکس کادائرہ فطری طور پر وسیع ہوجائے گا۔
وزیراعظم کے آر اے پی آئی ڈی(مالیہ،جوابدہی، دیانتداری، اطلاعات اور ڈیجیٹائزیشن) نظریے کاذکرکرتے ہوئے جناب ارون جیٹلی نےکہاکہ حکومت اطلاعاتی ٹیکنالوجی کازیادہ سے زیادہ استعمال کرنے میں کوشاں ہیں تاکہ انسانی عمل دخل کم سے کم کیاجاسکے اور ٹیکس کی چوری کاسدباب کیا جاسکے۔ انہوں نے ہر اس شخص کو جو ایماندار اور دیانتدارہے ، یقین دہانی کرائی کہ ٹیکس کی شرائط کا پورا پورالحاظ کرنے والے شخص کے ساتھ وقار اور نرمی کا برتاؤ کیا جائےگا۔ رعایات کے سلسلے میں براہِ راست ٹیکس تجاویز سے 22700 کروڑ روپئے کامالیہ خسارہ لاحق ہوگا،تاہم اضافی وسائل بہم پہنچانے کی تجاویز کے ذریعے 2700کروڑ روپئے کا مالیہ حاصل بھی ہوگا یعنی براہِ راست ٹیکس میں لاحق ہونےوالا خالص مالیہ خسارہ گھٹ کرمحض 20000کروڑ روپئے رہ جائے گا۔
اپنی بجٹی تقریر اختتام پذیر کرتےہوئے ارون جیٹلی حکومت کے ایجنڈے ‘بدلو، توانائی سے بھرو اور صاف ستھرا بھارت بناؤ’کاذکرکیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کازور اس بات پر ہوگاکہ مذکورہ تمام تر تجاویز پر کاشتکاروں،ناداروں اور سماج کے دیگر محروم طبقات کے فائدےکےلئے باقاعدہ طور پر عمل کیا جائے۔