
آئیے ٹرمپ کی کوتاہ بینی سے سبق لیں

ڈاکٹر سید ظفر محمود
ڈونلڈٹرمپ نے مسلم اکثریت والے سات ممالک کے باشندوں کے ذریعہ امریکہ میں داخلہ پر تین ماہ کے لئے پابندیاں لگا دی ہیں‘ متعدد عدالتوں نے ٹرمپ کے اس حکم نامہ کے مختلف حصوں کے نفاذ پر روک لگائی ہے‘ امریکہ کے ہوائی اڈوں پر بڑی تعداد میں احتجاجات ہو رہے ہیں ‘ اس احتجاج کو مائکروسوفٹ‘ گوگل‘ ایمیزون‘گولڈمین سیکس اور فورڈ موٹرس کی پشت پناہی حاصل ہے اور بارک اوباما کے ترجمان نے کہا ہے کہ سابق صدر کو ان احتجاجوں پر اطمینان ہو رہا ہے’ایکٹنگ اٹارنی جنرل سیلی ییٹس نے ٹرمپ کے حکم کا عدالت میں دفاع کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیاہے۔امریکی وزارت خارجہ کے 100 سے زائد سفارتکاروں نے ٹرمپ کے حکم کے خلاف میمو میں لکھا ہے کہ اس سے امریکہ میں حملہ کے امکانات کم تو ہوں گے نہیں لیکن امریکیوں کے خلاف دنیا میں نفرت میں اضافہ ضرور ہو جائے گا‘16 صوبوں کے اٹارنی جنرلوں نے تحریری بیان میں اس حکم کی مذمت کی ہے‘ واشنگٹن کے اٹارنی جنرل اس حکم کے خلاف مقدمہ تیار کر رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ ابھی تک اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ یہ صرف ایک ملک کے صدر کے ذریعہ ایک حکم نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف صریح تعصب کرنے کے لئے ممالک اور افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ لندن کے اخبار دی میل میں شائع شدہ مشہور جرنلسٹ کم سین گپتا کے 26 جنوری 2017کے مضمون کے مطابق ڈاکٹر موشے کنتور نے بھی پوپ فرینسس کو اس خطرناک سیاسی انتہاپسندی کے خلاف آگاہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کی جیت اور اس کے بعد ان کے ذریعہ جاری کئے جانے والے احکامات سے یورپی ممالک میں بھی انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو فروغ ملے گا۔ فرانس’ جرمنی اور نیدرلیند میں انتخابات ہونے والے ہیں جہاں پوپ کے ذریعہ سمجھ بوجھ کا پیغام دئے جانے کے لئے وہ کوشاں ہیں ۔ وہ یورپ کے تمام ممالک اور ووٹروں سے اپیل کر رہے ہیں کہ داہنے بازو والی جماعتوں کا مقابلہ کریں اور انتہا پسندی کے شر سے دنیا کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ادھرپوپ فرینسس پہلے ہی الکشن جیتنے کے لئے عوامیت پسندی (Populism) کے خلاف بیان دے چکے ہیں ‘ انھوں نے کہا کہ اس کے ذریعہ عدم استحکام (Instability) کو بڑھاوا ملتا ہے ۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیالاس اینجلس کے پروفیسر خالد ابو الفضل نے اے بی سی ریلیجن اینڈ اِتھکس کے 19 جنوری 2017کے شمارہ میں لکھا ہے کہ اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood) کو غیر ملکی دہشت پسند تنظیم قرار دینے کے لئے غالباً بل پیش ہونے والا ہے۔ اس بل کے روح رواں سنیٹر ٹیڈ کروز نے بیان دیا ہے کہ اخوان شدید اسلامی تصور حیات کی تائید کرتا ہے اور اس کا مشن ہے مغرب کو تباہ کر نا۔کروز نے ’سِوِلائزیشن جہاد‘ نامی دستاویز بھی تیار کر رکھا ہے جس میں اس نے CAIR, ISNA, NAIT وغیرہ نامورامریکی مسلم تنظیموں کو اخوان المسلمین سے الحاق ہونے کا مورد الزام قرار دیا ہے۔کروز کے ساتھی فرینک گیفنی کو پہلے ہی چند امریکی صوبوں میں شریعت مخالف قوانین پاس کروانے کا شرف حاصل ہے‘ وہ اب ٹرمپ کا مشیر خاص ہے۔ پروفیسر خالد لکھتے ہیں کہ1945میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے اب تک کوئی ایسی منظم منفی کوشش دنیا میں نہیں ہوی ہے جیسی فی الوقت اسلام کے خلاف بد اندیش اور زہریلی تاثیر والی یہ مہم چل رہی ہے۔ در اصل بقول خالد‘ کروز اور گیفنی کی طرح کے مغرب میں وہ لوگ ہیں جو اپنے سفید فام ہونے پر ناز کرتے ہیں۔ ان کا ساتھ وہ مسلم اور چند دیگر غیر فام افراد و ممالک دیتے ہیں جن کی ذات کو ان کے اس منفی رویہ سے فرق نہیں پڑتا ہے اور وہ خود غرضی وچاپلوسی سے ان سفید فاموں کو چڑھا دیتے ہیں۔ اسی ماحول میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سویت یونین کا اختتام ہوا جس کاروائی میں ان سفید فاموں کا ساتھ ان مسلم ممالک نے بھی دیا ۔لیکن اس کے بعد مال غنیمت میں ان مسلمانوں اور دیگر غیر سفید فاموں نے جب اپنا حصہ مانگا تو یہ سفید فام ناراض ہوکر کہنے لگے کہ یہ مسلم ممالک ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ سویت یونین کے خاتمہ کے بعد وہ سفید فام لوگ مسلم ممالک سے واپس چلے جائیں گے۔ اس طرح اس کے بعد سے ان غصیلہ سفیدفاموں نے اسلام کواپنا تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ اسی دوران 1993 کی سیمویل ہٹنگٹن کی کتاب ’تہذیبوں کا ٹکرائو‘ (Clash of Civilzations) ان سفیدفاموںکے لئے آسمانی تحفہ ثابت ہوی جس میں مغربی تہذیب کو دنیا میں برتری دی گئی ہے اور مغرب کو مخصوص اختیارات اور غیر معمولی رتبہ سے نوازا گیا ہے ‘ساتھ ہی یہ پیغام دیاگیا کہ باقی تمام تہذیبوں کو مغربی تہذیب کو اپنانا ہو گا ورنہ صفحہ ہستی سے مٹ جانا ہو گا۔
اس پس منظر میں آئیے جائزہ لیں نیو یارک ٹائمز میں 13 نومبر 2016 کو شائع شدہ انعام یافتہ مشہور زمانہ مضمون نگار پنکج مشرا کی تخلیق کابعنوان ’جمہوریت کی موجودہ حالت میں کہیں کچھ گلا سڑا تو ہے‘(Something is rotten in the state of democracy) ۔انھوں نے بیسویں صدی کے فرانسیسی فلسفی جین پال سارٹرے کے حوالہ سے لکھا کہ اگر بڑی طاقت والے ملک میںصداقت کو قومیت کے لباس کے نیچے چھپا بھی دیا جائے تو بھی کولونیوں میں تو وہ صداقت صاف نظر آتی ہی ہے۔ پنکج کہتے ہیں کہ 2016 کے امریکی الکشن میں جمہوریت کے فیل ہونے سے قبل اس کا یہی حال ہندوستان میں ہو چکا تھا۔ان کے مطابق دونوں ملکوں میں مرکزی دھارا یا اتجاہ العام (Mainstream)کے افراد اور اداروں کی خود بینی‘ باطل پنداری‘ غیر دانشمندی اور ملی بھگت نے داہنے بازو کا ساتھ دیا۔شرما جی کے مطابق اب ٹرمپ کو بلّی پر چڑھانے کے ذمہ دار ہیں سماجی غیر مساوات کے رواج‘ سنگدل عالمگیر شخصیات‘ ضمیر فروش عوامی نمائندے ‘ جوشیلے خیال پرست لوگ اور نیوز میدیا جو یا تو زہر آلودہے یا صاحب مروت۔پنکج نے مزیدلکھا کہ ایسی صورت حال میں ایک جذبات انگیز بازاری لیڈر جو سیاسی طاقت کی تڑک بھڑک ‘ دولت اور شان سے مرعوب رہتا ہے وہ بہت سے دماغوں میں بستیاں قائم کر لیتا ہے۔ تب سماج کے کچھ طبقوںمیں ذاتی دولت پیدا کرنے کی دوڑ شروع ہوتی ہے جو مساوات انسانی اور عوامی فلاح و بہبود کے معیاروں کا مذاق اڑاتی ہے۔
پنکج شرما کا کہنا ہے کہ در اصل بنیادی آئینی اغراض ومقاصد کی اسی تردید و منسوخی کی تحقیق ہونی چاہئے تاکہ پتہ تو چلے کہ ہمارے زمانہ میں بازاری لیڈرشپ کی آتش زن اپیل آخر ہے کیا۔وہ آگے لکھتے ہیں کہ 1950 میں ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہندوستانی مٹی پر جمہوریت صرف ایک اوپری سجاوٹ ہی ہے کیونکہ ہندوستان کا بیشترسماج تو فطری طور پر غیر جمہوری ہی ہے۔ ایسے میں ٹرمپ جیسے لیڈر سماج کے اندرکی آپسی بدگمانیوں کی ساز باز اور جوڑ توڑ کرلیتے ہیں تا کہ وہ کسی بھی طرح جیت ضرور جائیں۔لیکن ووٹروں کی ذمہ داری تو ختم نہیں ہوتی ‘ بلکہ اور بڑھ جاتی ہے۔ انھیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ سیاست ہمارا کام نہیں ہے اورہم اگر ووٹ دے سکیں گے تو دیں گے ورنہ کوئی بات نہیں۔ ایسی سوچ فرد اور سماج دونوں کے لئے مہلک ہے۔ اس کے بجائے ووٹروں کو ایسے حالات میں زیادہ توجہ دینی چاہئے۔حضوصاً ہم مسلمانان عالم کو تو ملکی آئین کے دائرہ میں رہتے ہوے غیر معمولی طورپرمتحرک ہو کر اپنے ووٹ کے ذریعہ صورت حال بدلنی ہی ہو گی۔یو پی و دیگر صوبوں میں آنے والے الکشن میں ہرمرد و عورت کو ووٹ ضرور ضرور ڈالنا ہے اور ملت کو اپنے اجتماعی ووٹ کو ذائع نہیں ہونے دینا ہے۔اس کام کے لئے ہر انتخابی حلقہ میں 10-12بے لوث مرد و عورتیں یہ ذمہ داری سنبھال لیں اور ووٹروں کے درمیان گھوم گھوم کے خاموشی سے اپنے انتخابی حلقہ کے لئے ملت کے حق میںاتفاق رائے تیار کریں۔