بی جے پی کا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے

Modi and Amit Shah

ڈاکٹر عابد الرحمن(چاندور بسوہ)
مرکز ی اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے تنظیمی اور سرکاری طور پر ترقی، گڈ گورننس ،کرپشن کے خلاف جنگ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا بہت شور شرابہ کیا لیکن اس دوران اس کے کچھ اشتعال انگیز لیڈران اور کچھ غیر بی جے پی سنگھی حلیفوں نے فرقہ واریت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کی آگ کو مزید دہکانے کے لئے اس میں وقفہ وقفہ سے تیل بھی ڈالا ۔اس ضمن میں ’گؤ ماتا ‘،بیف بین ، لو جہاد ،بہو لاؤ بیٹی بچاؤ،گھر واپسی اور مسلمانوں کے ڈر سے ہندوؤں کی اجتماعی نقل مکانی کے فرضی دعووں اور مسلم پرسنل لاء سے چھیڑ چھاڑ کو خوب خوب گرمایا گیا ۔ اب یوپی انتخابات کے قریب آتے آتے اس ضمن میں اور اضافہ کا خدشہ تھاسو وہ بھی پورا ہوا ۔ ابھی کچھ دن پہلے بی جے پی کے لوک سبھا رکن ساکشی مہاراج نے آبادی میں اضافے کے لئے چار بیویاںاور چالیس بچے رکھنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس جلی میں مزید تیل ڈالا گو کہ انہوں نے اس ضمن میں کسی کا نام نہیں لیا لیکن کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو یہ نہ سمجھے کہ ان کا اشارہ کس طرف تھا،اسی طرح انہوں نے طلاق ثلاثہ اور یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا ذکر کر کے خود ہی اپنی بات صاف بھی کردی۔اسی طرح بی جے پی کے ایک امیدوار سنگیت سوم نے اپنے پرچار کے لئے مظفر نگر فسادات کی ویڈیو دکھا کر ہندؤں کو مسلمانوں سے ڈرا نے اور خود کو ہندوؤں کا محافظ ثابت کر نے کی کوشش کی ۔یو پی کے بی جے پی صدر نے بھی فتحیابی کی صورت میں ایودھیا میں عالیشان رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کر کے مسلم مخالف فرقہ وارانہ ماحول کو مزید گرم کر نے کی سعی کی ۔حالانکہ بی جے پی نے ان تمام معاملات سے تنظیمی طورپر اپنے آپ کو علٰحیدہ کر رکھا تھا اور بارہا اس بات کا اعلان کیا کہ یہ پارٹی کا موقف نہیں ہے لیکن جو کچھ اشتعال انگیزی یہ لوگ کرتے آئے ہیں بی جے پی نے اپنے یوپی انتخابی منشور میں ان سب باتوں کو شامل کر کے اس بات کی توثیق کردی کہ یہ دراصل صرف ان لیڈران کا ذاتی موقف نہیں بلکہ پارٹی کا بھی موقف ہے ۔چلو ہمارے جیسے کئی لوگوں کی یہ بات ثابت ہو گئی کہ بی جے پی لیڈران کی اشتعال انگیزیاں دراصل پارٹی اور سب کا ساتھ سب کا وکاس چلانے والے وزیر اعظم مودی جی کی مرضی و منشاء کے مطابق ہی ہوتا رہاہے۔بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جہاں لیپ ٹاپ،مفت انٹرنیٹ،وائی فائی، کسانوں کے قرض کی معافی ،۲۴گھنٹے بجلی کی فراہمی اورانشورنس کے لالی پاپ دیئے ہیں وہیں مذبح خانے (Slaughter Houses ) بند کر نے کا بھی وعدہ کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ صنعتی اور تجارتی ترقی کا شور مچانے والی بی جے پی نے ایک اچھی خاصی صنعت کو بند کر نے کا وعدہ کیوں کر لیا؟ کیا اس سے غریبی دور کر نے کے اس کے وعدے کی نفی نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے ،لیکن یہاں معاملہ اس سب سے بہت اونچا ’ گؤ ماتا ‘ کا ہے ۔اور یہ پورے ملک خاص طور سے یوپی کے ہندو ووٹرس کو لبھانے کے لئے انتہائی اکسیر اور آزمودہ ہے ۔ اسی کے ساتھ اس نے کالج جانے والی لڑکیوں کی چھیڑ خانی روکنے کے لئے ’ رومیو مخالف دستوں ( Anti Romeo squads ( کی تشکیل کا بھی وعدہ کیا ہے جو دراصل ’ لو جہاد‘ کے اشو کو زندہ کر کے ہندو ووٹ بنک کو مشتعل و متحرک کر نے کی کی کوشش ہے۔ اس میں بھی پارٹی نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان دستوں کی قانونی حیثیت کیا ہو گی ،یہ کس طرح بنائے جائیں گے اور ان میں کن لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا ؟ آیا یہ پولس کے دستے ہوں گے یا سنگھ پریوار کی تنظیموں کے رضاکار وں پر مشتمل پرائیویٹ ملیشیا ہو گی جو لڑکیوں کی چھیڑ خانی روکنے کے بہانے قانون اپنے ہاتھوں میں لے کر مار دھاڑ اور زدو کوب کے ذریعہ کالج جانے والے مسلم لڑکوں پر ڈر و خوف طاری کر کے نا گفتہ بہ حالات پیدا کرے گی۔اسی طرح بی جے پی کے اس منشور میں ہندوؤں کی اجتماعی نقل مکانی رکوانے کے لئے بھی اسی طرح کے دستے تشکیل دینے کا وعدہ کیا گیا ہے حالانکہ بی جے پی کے جس ایم پی حکم سنگھ نے کیرانہ کے تعلق سے یہ معاملہ اٹھایا تھا انہوں نے خود ہی قبول کیا ہے کہ یہ کوئی ہندو مسلم اشو نہیں ہے بلکہ لاء اینڈ آرڈر پرابلم ہے ،ان کی ٹیم میں سے کسی نے غلطی سے صرف ہندو خاندانوں کا ذکرکیا ۔بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے بھی اس ضمن میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی یہ وعدہ کیا لیکن صاحب اصل مدعا لوگوں سے چھپا نہیں ہے۔یہاں بھی انہوں نے اس طرح کے معاملات کو روکنے کے لئے ضلعی سطح پر اسپیشل ٹیمیں بنانے کا وعدہ کیا ہے ،لیکن ان ٹیموں کی قانونی حیثیت کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی۔تو کیا بی جے پی پرائیویٹ ملیشیاء بنوا نے بالفاظ دیگر اپنے کیڈرس کو اور ان کے تشدد کو قانون سے بالاتر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟اس منشور کے اجراء کے بعد بی جے پی کے ایک امیدوار سریش رانا نے اسکی وارننگ بھی دے دی کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو (مسلم اکثریتی علاقوں ) کیرانہ، دیو بند اور مرادآباد میں کرفیو لگوادیں گے ۔ اسی طرح بی جے پی نے اپنے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کر نے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہوئے رام مندر کا گڑا مردہ بھی اکھاڑہ ہے جبکہ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،اسی طرح اس نے مذہب کا ایک اور استعمال ’طلاق ثلاثہ ‘ کے ذریعہ کیا ہے جس کا اصل مقصدمسلم عورتوں سے ہمدردی نہیں بکہ ہندوؤں کویہ بتاکر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش ہے کہ ہم مسلم پرسنل اور مسلمانوںکے خلاف ہیں ۔ یہ دراصل بی جے پی کی اوقات ہے جو جا بجا خود بخود ظاہر ہوتی آئی ہے ۔پچھلے لوک سبھا الیکشن سے لے کر اب تک بی جے پی نے ترقی ، بدعنوانی کے خلاف لڑائی،روزگار کی فراہمی،بیرونی سرمایہ کاری اور گڈ گورننس کا جتنا بھی شور کیا وہ ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ دراصل اس بار سنگھ نے ایک نئی چال چلی تھی’ ہندوتوا ‘کو ترقی و گڈ گور ننس کا چولہ پہنانے کی چال ۔انہوں نے ہندوتوا کے پوسٹر بوائے نریندر مودی کے گجرات کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور بی جے پی کے سینئر ترین لیڈران کو بائی پاس کر کے مودی کووزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر نام زد کر واکر بیک وقت دو تیر چلائے تھے ایک تو مودی کے ذریعہ اپنے روایتی ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کروانے کا اور دوسرے گجرات کی ترقی اور مودی کے گورننس کا ڈنکا بجا کر اس وقت کی کانگریس حکومت میں یکے بعد دیگرے ہوئے گھپلوں گھوٹالوں کے خلاف عوامی ناراضگی اور غصہ کو اپنے حق میں کیش کروانے کا ۔اور اسی لئے ان لوگوں نے اپنے بھگوے قمیصوں اور خاکی چڈیوں پر ترقی اور گڈ گورننس کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔لیکن کپڑے اور لہجہ بدل لینے سے فطرت نہیں بدلا کرتی ۔ اور خاص طور سے جہاں خلوص کا فقدان اور نیت میں کھوٹ ہو تو وہاں ناکامی مقدر ہوتی ہے یہی بی جے پی کے ساتھ بھی ہوا ،لوک سبھا انتخابات کے دوران اس نے اپنی اوقات سے بڑھ کر اور حقیقت کے خلاف ترقی اور روزگار کے جتنے وعدے کئے تھے وہ پورے ہونے تھے نہ ہو سکے بلکہ ان وعدوں کے ضمن میں عوام کو گمراہ کر نے کے بھی جو اقدامات انکی سرکار نے کئے وہ بھی انہی کے گلے کی ہڈی بن گئے ایسے میں ان کے پاس اپنی اوقات پر آنے کے سوا چارہ بھی نہیں تھا ،اور ویسے بھی کوئی زیادہ دن اپنی اساس سے دوررہ بھی نہیں رہ سکتا ۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے لیڈران ایسے وقت میں اپنی اوقات دکھا رہے ہیں جب ریاست میں انتخابی ضابطہء اخلاق نافذ ہے اور سپریم کورٹ نے ’ آئین کی سیکولر روح ‘ کی تحفظ کے لئے انتخابات میں ووٹ مانگنے کے لئے مذہب اور ذات پات کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے ۔اور بی جے پی لیڈران نے ذاتی طور پر انتخابی ضابطہء اخلاق کا مذاق تو اڑایا ہی ہے بی جے پی نے بھی اپنے انتخابی منشور کے ذریعہ عزت مآب سپریم کورٹ کی مذکورہ پابندی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود کورٹ کے وقار کی بھی مٹی پلید کردی ہے۔لیکن کسی کے کان پر جوںتک نہیں رینگی ،نہ سپریم کورٹ کا خون کھولا اور نہ ہی سیکولرازم کے نام نہاد پاسداروں کو جوش آیا کہ وہ اس کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے توجہ دلائیں۔ ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے کچھ لیڈروں کے خلاف معاملہ درج کیا ہے لیکن اس کی حیثیت بھی ’معمول ‘ سے زیادہ نہیںہے، اس طرح کے معاملات میں اب تک تو کسی کے مجرم ثابت ہونے کی کوئی مثال نہیں ہے ،آگے کچھ مختلف ہوگا اس کی بھی کوئی امید نہیں ہے ۔ بی جے پی کی ان ساری چالبازیوں کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم مسلمان متحد ہو کر ہی کوئی انتخابی فیصلہ کریں ۔نہ بی جے پی کی اشتعال انگیزیوں سے ڈریں نہ اپنی خیر خواہی کے جھوٹے دعوے کر نے والوں کے دام فریب میں آئیں اور نہ ہی مذہب اور ملت کا نام لے کر ہمارے ووٹوں کو تقسیم کر نے والے دلالوں جال میں پھنسیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *