ڈاکٹر سید ظفر محمود
یو پی اسمبلی میں انتخابات سر پر آ گئے ہیں۔ ملت کو اپنی آئینی اور سماجی ذمہ داری اس بار ضرور ضرور پوری کرنی ہے‘ تیار ہو جائیے۔ کیرانہ (ِشاملی) میں مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی 63 فیصد ہے پھر بھی1957 سے اب تک منعقد 16 انتخابوں میںسے صرف 5 میں ہی وہاں سے ملت اپنا نمائندہ اسمبلی میں بھیج سکی ہے۔ 2012 کے اسمبلی الکشن میں بھی ملت وہاں سے اپنا نمائندہ نہیں چن سکی کیونکہ اس کے ووٹ صوبہ کی دو سکیولر پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہو گئے۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ملت کے مقامی سمجھدار لوگوں نے توجہ نہیں کی اوریکجہتی پیدا کرنے کے لئے اپنا وقت نہ لگا کے اپنے ووٹ کی اہمیت کو ذائع کر دیا‘بعد میں 2014 میں وہاں درمیانی مدت کا انتخاب ہوا جس میں حالات بہتر ہو سکے۔ امید ہے کہ 2017 کے الکشن میں ہم اپنا ملی و دستوری فریضہ پوری طرح نبھائیں گے۔ یہی حال مراد آباد کے ٹھاکردوارا میں ہواجبکہ وہاں ملی آبادی 52 فیصد ہے۔ وہاں سے بھی پچھلے 17 انتخابات میں سے صرف 6 دفعہ ہی ملت اپنا نمائندہ ایوان میں بھیج سکی ہے۔ 2012 میں وہاں بھی ہم محو غفلت رہے اور پھر2014 کے درمیانی مدت کے انتخاب میں ہی سدھار ہو سکا‘ اب تو ہمیں ہمیشہ کے لئے سبق لے ہی لینا چاہئے۔ ضلع غازی آباد کے صاحب آباداسمبلی حلقہ میں بھی ہماری آبادی 50 فیصد ہے لیکن پھر بھی ہم اپنا دستوری حق نہیں جتا پاتے ہیں۔ خدا را اب تو جاگ جائیے اور سوچ سمجھ کے ‘ آپسی گفت و شنید کے ذریعہ اتفاق رائے قائم کیجئے۔
بہرائچ کے قیصر گنج کی داستان بھی عجیب ہی ہے‘ وہاں بھی مسلم آبادی 45 فیصد ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ لوگ 2012 کے الکشن میں ووٹ دینے آئے ہی نہیں‘ عزیزو کیوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہو۔ اب کی بار 100 فیصد ووٹ پڑنا چاہئے اور پہلے سے ہی وہاں کے سمجھدار بے لوث ملی افراد غور و فکر کر کے اتحاد قائم کریں۔ یہی المیہ سہارنپور شہر کا بھی ہے وہاں کی بھی ملی طاقت 45 فیصد ہے لیکن وہاں بھی غفلت کے پردے پڑے ہوے ہیں۔ پورے صوبہ کے لوگوں کو جاگنا ہو گا اور چوکنہ رہنا ہو گا‘ میرٹھ کے چار انتخابی حلقوں میرٹھ خاص‘ میرٹھ کینٹ‘ میرٹھ دکھنی اور سردھنہ میں سب جگہ بھی افراد ملت اپنی اہمیت کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ ان سب انتخابی حلقوں میں ملی ووٹ ایک تہای سے زیادہ ہے اگر اتحاد ہو جائے تو آ پ کا ہی نمائندہ چاروں جگہوں سے منتخب ہو گا‘ متحرک ہو جائیے اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے کوشاں ہو جائیے‘ نتیجہ ضرور اچھا ہی رہے گا ۔بجنور شہر‘ضلع بجنور کا نورپور ‘ بریلی شہر‘بریلی کینٹ‘ بھوجی پورہ ‘ آنولا‘شاہ جہاں پوراور فیروزآباد میں سے ہر انتخابی حلقہ میں مسلم آبادی ایک چوتھائی سے ایک تہائی کے درمیان ہے‘ یاد رکھئے: جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔ اب ذرا دار السلطنت کی طرف رخ کرتے ہیں‘ لیجئے یہاں توچراغ تلے اندھیرا ہے۔ پورے ضلع میں مسلم آبادی ایک چوتھائی سے زائد ہے لیکن اس کے باوجود کبھی کبھار اکّا دکّا ہی ملی نمائندہ نظر آتا ہے جبکہ یہاں کے ہر انتخابی حلقہ میں ہر چوتھا نمائندہ مسلمان ہونا چاہئے‘ یاد رکھئے علامہ اقبا ل کی تنبیہ:
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستیء بینا ہے ‘ دانا ہے‘ توانا ہے
چلئے فی الحال اپنا تجزیاتی سفر جاری رکھیں۔ صوبہ کے پورب میں گینساری اور اترولا(دونوں ضلع بلرامپورمیں ہیں) میںمسلم آبادی 45 ہے وہاں بھی اپنا حق لینے اور برقرار رکھنے کے لئے ملت کے مقامی خواتین و حضرات کو تگ و دو کرنی چاہئے۔قریب کے ضلع فیض آباد میں انتخابی حلقہ ردولی لگا ہوا ہے وہاں بھی مسلم ووٹ ایک تہائی ہیں لیکن نمائندگی ندارد‘ اہل ردولی کے لئے بھی جہان مکافات آن پڑا ہے۔ ِ دوسری سمت میں بڑھتے ہیں تو ضلع کانپور کی گووند نگر اسمبلی نشست ‘ ضلع کشی نگر کی فاضل نگر سیٹ‘ سدھارتھ نگر کی بنسی سیٹ‘ گوندہ کی کٹرا بازار کے علاوہ بنارس اتر‘ بنارس کینٹ اور بنارس دکھن میں ملت کے افراد کو فوری طور پر متحرک ہو جانا ہے تا کہ انھیں آنے والے الکشن میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل جائے۔ خوش آئند ہے کہ پچھلے اسمبلی الکشن 2012میں ضلع مظفرنگر کی بڈھاناو میرپور‘ضلع بدایوں میں بلال ‘ضلع سدھارتھ نگر کے ڈومریاگنج اورضلع بجنور کے چاندپورمیں افرادملت نے مثالی اتحاد دکھایا تھاجس کے لئے وہ قابل تحسین ہیں۔لیکن دوسری طرف میرٹھ کینٹ میں ایک تہائی سے زائد مسلم آبادی کے باوجود کبھی بھی وہاں کی نمائندگی مسلمان نے نہیں کی۔ ساتھ ہی بٹھاری چینپور (ضلع بریلی)‘ بلاس پور (ضلع رامپور)‘ دیوبند‘ بارکھیڑا (ٖیلپی بھیت)‘مہداول (سنت کبیر نگر)‘ بشوناتھ پور (پرتاپ گڑھ)‘ چھپرولی (گونڈہ)‘ شیخوپور (بدایوں)‘ لکھنو پورب اورمہاسی(بہرائچ) میں2012کے الکشن میں ایک تہائی مسلم آبادی کے باوجود نہ جیتنے والا امیدوار مسلم تھا اور نہ نمبر دو والا۔ ردولی میں ایک تہائی مسلم آبادی کے باوجود مسلم امیدوار چند ووٹوں سے ہار گیا۔ لہٰذا مسلمانوں کو فوری طور پر اقبال کی نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: جنبش سے زندگی جہاں کی۔ ساتھ ہی ہمیںیاد رکھنا ہے کہ گذشتہ الکشن میں جن انتخابی حلقوں میں ملت کے نمائندے جیت گئے تھے انھیں بھی اس بار زیادہ مطمئن اور آسودہ خاطر نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اِن پانچ برسوں میں یو پی کے ووٹوں میں الٹ پھیر بھی خوب ہوا ہے اس لئے اس بار بھی اپنی جیت کو برقرار رکھنے کے لئے اضافی محنت کرنی ہو گی۔
اس نہج پر چلنے سے خاموش طور پر ہم اپنے ملک کی سیاسی نکیل پکڑ کے اسے سیدھے راستے پر لے جاسکتے ہیں اور ہمیںبیجا شاطرانہ فضولیات میں الجھنے سے بچے رہنا ہے۔ مثلاً ایک چینل نے قصداً مسلمانوں کو ذہنی طور پر ستانے کے لئے ایک عجیب الخلقت انسان کو کینڈا سے امپورٹ کرکے ہم پر مسلط کر دیا ہے۔ ِوہ شخص بے سر پیر کی باتیں کرتا رہتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنی نازیبا کلامی سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا رہتا ہے۔ اس کی اور اس چینل کی یہ حرکت دستور ہند کے دفعہ 51A(e) کی صریح خلاف ورزی کی مرتکب ہیں اور ان دونوںکے خلاف قانونی کاروائی کئے جانے کی ضرورت ہے۔لیکن الکشن میں تو ہمیں ملت کی بڑی تصویر دیکھنی ہے اوروہاں روز و شب کی ان الجھنوں سے کنارہ کشی کرتے ہوے ملی فلاح کی دیر پا تاثیر کے لئے کوشاں رہنا ہے۔ آزادی کے 70 برس بعد ہونے والے2017 کے الیکشن میں مسلمانوں کو اب یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ آخر ہم اورکب تک اپنی نمائندگی دوسروں سے(Outsource) کرواتے رہیں گے‘ کیا ہم ہی نے یہ نیکی کئے جاتے رہنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے‘ جبکہ ہم سچر کمیٹی کی رپورٹ اور اس کے بعد کے حالات کے ذریعہ جان چکے ہیں کہ مستقل ہمارے حقوق کی پامالی ہوتی چلی آ رہی ہے۔ جان لیجئے کہ ملت میں اندرونی انتشار پیدا کرنے کی بھی چو طرفہ کوششیں چل رہی ہیں لیکن ہم سمجھدار ہیں اور اب ہم اس خفیہ ساز بازکا شکار نہیں بنیں گے۔ ملک میں ملت کے حق میں ہمیں خوش نماانقلاب لانا ہے‘ اپنا کھویا ہوا دستوری مقام ہمیں واپس حاصل کرنا ہے۔ اچھی بات ہے کہ ہندوستان کے لوگ یوگا کے ذریعہ یکجا کئے جا سکتے ہیں تو نماز بھی تو انھیں جوڑ سکتی ہے۔اگر کسی جمہوری ملک کی پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں ایک مذہب کے ماننے والے 70 سال تک اپنی نمائندگی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ذریعہ ہی کرواتے رہیں تو اس کو جمہوریت کی خستہ حالی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ جمہوریت کی فضیلت نہیں بلکہ ایک طبقہ میں غلامانہ ذہنیت کی کاشتکاری ہے۔ آئیے نشست وار حکمت عملی کے ساتھ سو فیصد ووٹ کرکے کیوں نہ ہم اقبالؔ کی پیشین گوئی کو بار آور کریں:
نکل کے صحرا سے جس نے روماں کی سلطنت کو پلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا