Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

آر بی آئی کے سابق گورنر کے سنگین اشاروں کو سمجھیں …

by | Feb 9, 2017

سدھیر جین

سدھیر جین

سدھیر جین

اس سال کے بجٹ کے اثر کے بارے میں کچھ سنسنی خیز باتیں نکل کر آنا شروع ہو گئی ہیں. خاص طور پر ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر سی رنگا راجن نے بہت ہی بڑی بات کی طرف اشارہ کیا ہے. صاف صاف کہنے کی بجائے انہوں نے اپنی بات چھپا کر کہی ہے. انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہی چھپانے کی کوشش کی ہوگی. لیکن اگر صرف اشارہ ہی کیا ہے تو واقعی یہ بھی ذمہ داری کی ادائیگی ہی ہے. اب یہ ملک کے ذی علم اور آگاہ شہریوں کا کام ہے کہ ان کے اشارے کی تشریح کریں.
رنگ راجن کا اشارہ
انہوں نے بینکوں کے پھنسے ہوئے قرض کی جانب اشارہ کیا ہے. پھنسے ہوئے قرض یا ڈوبتے ہوئے قرض یا این پی اے کو ایک دو سال سے طرح طرح سے دبا چھپا کر رکھا جا رہا ہے. آج تک یہ دعوے سے نہیں کہا جا رہا ہے کہ بینکوں سے دیا گیا کتنا قرض ڈوب جانے کے دہانے پر ہے. کئی سال تک ریزرو بینک کے گورنر رہنے کی وجہ سے بینکوں کی صحیح پوزیشن جاننے والے وہ ہی سب سے صحیح شخص تھے. ان کے علاوہ حال ہی میں آر بی آئی کے گورنر کے عہدے سے الگ ہوئے رگھو رام راجن نے بھی اپنے عہدے پر رہتے ہوئے حکومت کی منشا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بینکوں کے اکاؤنٹ درست کرنے کا مشورہ دیا تھا. اور تبھی یہ اندیشہ کھڑا ہو گیا تھا کہ بینکوں کی حالت اتنی پتلی ہوتی جا رہی ہے کہ اگر جلد ہی حکومت کی جانب سے بینکوں میں پیسہ نہ ڈالا گیا تو بہت بڑا اقتصادی حادثہ ہو سکتا ہے.
کیا کہا رنگا راجن نے
اشاروں کی زبان میں راجن نے کہا ہے کہ بینکوں کو حکومت کی جانب سے دس ہزار کروڑ دینے کے مقابلے ایک دو لاکھ کروڑ کی رقم سے نہیں کی جا سکتی. اس بات کی تشریح اب میڈیا نے شروع نہیں کی ہے. لیکن کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ بینکوں کو بحران سے نکالنے کے لئے دو لاکھ کروڑ اور اتنی نہ ہو پائے تو کم از کم ایک لاکھ کروڑ کی ضرورت تھی. اب یہ مالی انتظام کے ماہر ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت بینکوں پر آپ کےقرض کی وصولی کے لئے کتنے لاکھ کروڑ روپے کا بوجھ ہے. ویسے اس بارے میں گزشتہ سال کے بجٹ کے پہلے لکھے گئے ایک مضمون میں موٹا موٹا اندازہ لگایا گیا تھا، دیکھیں – حقیقت کو چھپا کر خواب دکھاتا بجٹ 2016. لیکن حیرت کی بات ہے کہ سال بھر بعد بھی اب تک صاف صاف کچھ نہیں پتہ کہ بینکوں کی اصل صورت حال کیا ہے؟
کیا سجھایا رنگ راجن نے
بینکوں کی موجودہ مالی حالت کو بھلے ہی انہوں نے دبا چھپا کر کہا ہو، لیکن مشورہ انہوں نے کھل کر دیا ہے. ان کا مشورہ ہے کہ ڈوبنے کے دہانے پر کھڑے بینکوں کے قرض کی وصولی سے اچھا کوئی دوسرا قدم سامنے نظر نہیں آتا. غور طلب ہے کہ راجن نے یہ تجویز حیدرآباد میں اس سال کے بجٹ کے بعد منعقد ایک بحث میں دیا ہے. ظاہر ہے کہ راجن جیسے تجربہ کار ماہر کی بات کو یونہی چھوڑا نہیں جا سکتا.
حکومت نے کیا کیا؟
گزشتہ سال کے بجٹ میں بینکوں کی پتلی حالت دیکھتے ہوئے حکومت نے بینکوں میں اپنی طرف سے 25 ہزار کروڑ ڈالے تھے. گزشتہ سال اس رقم کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیا گیا. جبکہ ایک سال کے وقفے میں بینکوں کے ڈوب رہے قرض کی رقم سنسنی خیز طریقے سے بڑھ جانے کا پورا اندیشہ ہے. یعنی اس سال تو گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ رقم بینکوں کو دیے جانے کی ضرورت تھی. لیکن حیرت اس بات پرظاہر کی جا رہی ہے کہ اس سال یہ رقم پہلے سے بھی 40 فیصد رہ گئی ہے.
کیا ہو سکتا ہے حکومت کے دماغ میں
بینکوں کی نازک حالت سنبھالنے کے لئے صرف دس ہزار کروڑ کی رقم کو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا. ہاں پیچھے سے جو دوسرے اقدامات کئے گئے ہیں اس سے ضرور یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ فی الحال بینکوں کو اپنی جان بچانے کا موقع ملا ہے. وہ اقدامات تھا نو ٹ بندي. نوٹ بندي نے لوگوں کو مجبوری میں اپنے ہزار پانچ سو کے نوٹ بینکوں میں جمع کرنے کو مجبور کر دیا. ساتھ ہی ساتھ لوگوں پر بینکوں سے اپنا پیسہ نکالنے کی حد باندھ دی. اس طرح بینکوں کے پاس لوگوں کی جمع رقم باہر جانے سے رکی ہوئی ہے. لیکن کیا یہ صورت حال زیادہ دن تک چل سکتی ہے. کام دھندوں میں مندی سے بری طرح سے پریشان لوگ اپنے پیسے نکال کر كام دھندھے کو پٹری پر لانے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں. يعني کسی بھی وقت بینک اصل مسئلے سے دوبارہ روبرو ہو سکتے ہیں. اب یہ مسئلہ اگرچہ آج یا ایک دو ماہ میں نہ دکھائی دے رہا ہو لیکن تین چار ماہ بعد منہ باے کھڑا مسئلہ کے حل کے لئے اگر ابھی سے نہ سوچا گیا تو یہ بھی طے ہے کہ آگ لگے پر کنواں کھود نہیں پائیں گے.
کتنا بڑا ہے مسئلہ
دل کے بہلانے کو ہم سیاست، سماج اور قانون نظام کو کتنا بھی اہمیت دیتے رہیں لیکن ملک اور دنیا کے بڑے بڑے عالم یہ بتاتے آئے ہیں کہ ان تینوں میکانزم پر معیشت سب سے بھاری پڑتا ہے. یہاں تک کہمعیشت کو باقی تین میکانزم کا عنصر بھی مانا جاتا ہے. یعنی سیاسیات، سماجیات پر غلبہ معاشیات کا ہی ہے. ملک کے اہم دو مسائل یعنی کسانوں کی بدحالی اور نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ براہ راست تعلق معیشت سے ہے. جدید دور میں کسی ملک کی خوشحالی کے اشارے ہم جی ڈی پی کو مانتے ہی ہیں. ظاہر ہے کہ ہماری مالی حالت کی تصویر بتانے والے بینکوں کے این پی اے پر سب سے زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے.

بہ شکریہ این ڈی ٹی وی

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک ) ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے مستقبل کے امکانات بہت روشن ہیں۔ 2025 سے آگے، یہ صنعت تکنیکی ترقی، پالیسی اصلاحات، ماحولیاتی تقاضوں اور صارفین کے بدلتے...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...