(معیشت میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے شائع ہونے والا ماہنامہ بین الاقوامی معیشت سرزمین ’’ممبرا‘‘ پر اپنا خصوصی شمارہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔’’ممبرا کی سر زمین پر ممبا ہے سجدہ ریز‘‘کے مرکزی موضوع کے تحت آئندہ شمارہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گا ۔انشاء اللہ
روزنامہ ممبئی اردو نیوز کے فیچر ایڈیٹر شاعر و ادیب محترم ندیم صدیقی صاحب نے گذشتہ برس ممبرا پر ایک مضمون رقم کیا تھا جسے 20 دسمبر2016 کو بھیونڈی میں منعقدہ کتاب میلے میں ’’تھانے ضلع کی ادبی خدمات‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرے میں پڑھا گیا تھا۔ افادہ عام کی خاطر ہم اسے یہاں پیش کر رہے ہیںتاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ہم دستاویزی شمارے میں کن کن موضوعات کا احاطہ کرنے والے ہیں۔قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی رائے maeeshatmedia@gmail.comپر ای میل بھی کر سکتے ہیں ۔ادارہ معیشت )
مُمبئی کی طرف سے لوکل ٹرین سرنگ سے نکل کر جب ممبرا کی طرف بڑھتی ہے توبائیں جانب کھاڑی ہے اور دائیں طرف پہاڑی ۔۔۔۔ جنہیں ہم اپنے بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔ اس علاقے سے ہمارا تعلق کوئی نصف صدی کاہے۔ جب پانی یہاں صرف کنوؤں سے ملتا تھا اور بجلی بھی نہیں تھی مٹی(گھاسلیٹ) کے دِیے روشن ہوتے تھے لیکن ادب کی روشنی اُس ز مانے ہی میں یہاںپہنچ چکی تھی۔
ابھی ہم نے ممبرا کی جس پہاڑی اور کھاڑی کا ذکر کیا ہے تو اس پر آوارہ سلطان پوری کی وہ نظم بھی یہاں گوش گزار ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے کہ جب ممبرا کی گرام پنچایت کا تاسیسی جلسہ ہوا تو مرحوم آوارہ نے اپنی یہ نظم سنائی تھی۔ دیکھیے کہ اس میں پیش گوئی اور شاعر کی مستقبل بینی کتنی روشن ہے:
مُمبرا
ہم ممبرا کے رہنے والے
مدت سے سمجھے بیٹھے ہیں
اس ممبرا کے سندربَن میں
یا ریتی ہے یا پتھر ہے
اتنا تو معلوم ہے سب کو
ریتی پھانک کے جی نہیں سکتے
پتھر کھا کے کون بچا ہے
لیکن اک وِشواس ہے دِل میں
موتی دریا سے پیدا ہے
ہیرا بھی پتھر ہوتا ہے
ہوسکتا ہے ریت کے بدلے
اس دریا سے موتی نکلے
ممکن ہے پتھر کے بدلے
یہی پہاڑی ہیرا اُگلے
٭٭
ہماری ناقص معلومات کے مطابق اُردو کا جو شاعریہاں سب سے پہلے آیا ، یا یہاں کا باسی ہوا وہ مولانا شحیم گونڈوِی تھے۔ ممبراریلوے اسٹیشن کے سامنے جو (جامع) مسجد ہے شحیم گونڈوِی اسی مسجد میں نماز پڑھانےپرمامور تھے اورقاضی وصی احمد المعروف آوارہ سلطانپوری کو یہاں رہائش کیلئے راغب کرنے میں بھی انہی شحیم گونڈوی کی کوششیں شامل تھیں۔یہ زمانہ سن ساٹھ سے قبل کا ہے اور پھر آوارہ مرحوم کی ایما پر ہمارے والد ِمحترم جمیل مرصعّ پوری نے بھی یہیں رِہائش اختیا رکی۔
لیکن ہمیں تو یہ بھی یادہے کہ ہمارا خاندان ممبرا کے ساتھ ساتھ کلیان کے نواحی علاقے والدھونی میں بھی رہ چکا ہے اور کلیان میں بھی جمیل صاحب نے ایک نہیں کئی مشاعرے اور یومِ اقبال کا اہتمام و انعقاد کیا۔ کلیان کا ایک یوم اقبال یاد آیا کہ جس میں کڑا مانک پور( یوپی) کے ایک مشہور حکیم اور بزرگ مولانا نور الدین مرحوم کی شرکت بڑی اہمیت کی بات تھی۔ وہ صورتاً ایک مولوی صاحب نظر آرہے تھے مگر موصوف نے جب علامہ اقبال کی شاعری پر اپنی تقریر کی تو وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص ہمہ تن گوش ہی نہیں تھا بلکہ برجستہ داد بھی دے رہا تھا۔ کلیان کا تذکرہ ہوا تو ایک نہیں کئی شخصیات یاد آگئیں جن میں کچھ شاعر تھے اور کچھ ادب دوست بھی ۔ سب سے پہلے تو عاقل دھولوی کا تذکرہ کرنا چاہیے کہ یہ مرحوم کلیان ریلوےاسٹیشن اور محمد علی چوک سے قریب ایک ایرانی ہوٹل کو اپنا مرکز بنائے ہوئے تھے جیسے بھنڈی بازار کا وزیر ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ یہاں عاقل صاحب کے شاگردوں کا جمگھٹارہتا تھا۔ یہ تمام لوگ بظاہر تو معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے مگر شعرو ادب کے تئیں اخلاص سے مالا مال تھے۔ افسوس ،عاقل مرحوم کا کلام یا کوئی شعر ہم کو یاد نہیں رہا ۔ اسی طرح کلیان ہی کے شاعروں کا ایک مثلث بھی ناقابل ِ فراموش ہے۔ یہ تین حضرات تھے،ثاقب جھانسوی، نسیم جھانسوی اور ساخر انصاری۔ یہ حضرات باقاعدہ تعلیم یافتہ اور ریلوے میں بر ِسر ِکار تھے جہاں تک ہمارا حافظہ کام کر رہا ہے ان میں ثاقب جھانسوی اور نسیم جھانسوی وغیرہ ممبئی کے مشہور اُستاد محمود سروش( تلمیذِ علامہ آرزو لکھنوی) سے عقیدت رکھتے تھے اور کلیان میں ان کی جانب سے ہونے والی اکثر محفلوں کی صدارت بھی محمود سروش ہی کرتے تھے۔ یہاں ریلوے کے ملازمین کی جانب سے گاہے گاہے بڑے مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ اُس زمانے کے ایک ناظمِ مشاعرہ بھی یاد آگئے جنہیں ہم نے کلیان ہی میں پہلی بار سنا تھا ،جو شستہ زبان اوربرجستہ نظامت کےلئے مشہور تھے موصوف دور دور بلائے جاتے تھے ہمارا خیال ہے کہ نئی نسل کے لوگ ان کا نام بھی شاید ہی جانتے ہوں! ۔۔۔وہ تھے خوب رٗو شخصیت کے حامل ظفر احسنی، جو اپنے دور کے مشہور ادبی شخصیت مولانا احسن علیگ کے فرزند تھے۔ مولانا احسن علیگ اپنے زمانے میں اپنے شعری و فنّی محاسن کے سبب باوقار تھے۔ انکی بیٹیوں کی شعر گوئی کی بھی شہرت تھی۔
کلیان کے سینئر شاعر متین بدایونی بھی خاصی شہرت رکھتے تھے وہ کلیان کے کولی واڑہ کی بامبے چال میںرہتے تھے اسی عمارت میں نسیم جھانسوی بھی قیام پذیر تھے۔ متین بدایونی ہمارے زمانے میں اُردو کے اُس شاعر کے شاگرد ِعزیز تھے جن کا اپنے وطن میں قتل کر دِیا گیا تھا۔ وہ اپنے دور میں داغ اسکول کے ایک مشہور اُستاد تھے جنہیں دُنیا ابر احسنی گنوری کے نام سے جانتی تھی۔ حضرتِ ابر، داغؔ کے ایک اہم شاگرد مولانا احسن مارہروی سے شرفِ تلمذ کے حامل تھے۔
متین بدایونی کو سنا تو کئی بار ہے بلکہ ان کا شعری مجموعہ بھی دیکھا ہے مگر اِس وقت ان کے شعری مجموعے کا نام یا ان کاکوئی شعر ذہن میں نہیں ہے۔ البتہ ان کے شعری مجموعے پر تجلی جیسے مجلے کے مشہور مدیر مولانا عامر عثمانی کے تبصرے کا ایک ٹکڑا یاد آتا ہے جو اُس وقت ادبی حلقوں میں خوشبو کی ضد کی طرح پھیلا ہوا تھاکہ
’’یہ مجموعہ اگر آج سے پچاس برس قبل شائع ہوجاتا، تب بھی شعری ادب میں کوئی اضافہ نہ ہوتا اور اگر کلام ِمتین پچاس برس بعد بھی چھپتا تب بھی ادب کا کوئی نقصان نہ ہوتا۔ لیکن میری دُعا ہے کہ اس مجموعۂ کلام کو خواص و عوام میں قبول ملے مگر مجھے بارگاہ ربّی میںاپنی دُعا کے مستجاب ہونے میں شک ہے۔‘‘
ممبرا کا ایک تاریخی مشاعرہ بھی اپنی انفرادیت کے سبب ذہن میں تازہ ہو رہا ہے۔ چند برس قبل ہونے والاممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا کے سَمُندر میں ایک مشاعرہ کئی حضرات کو یاد ہوگا مگر کم لوگ ہونگے جنہیں یہ معلوم ہو کہ ممبرا کی کھاڑی جس کا ہم نے ابتدا میں تذکرہ کیا ہے۔ اس دور میںاس میں دو بڑی کشتیوں کو جوڑ کرچاندنی رات میں ساحل سے دورشعرا نےاپنا کلام بلاغت نظام جب سنایا تھا تو کھاڑی کی لہروں نے بھی با ادب اور بہ زبان ِخموشی داد دی تھی۔ اگر ہمارا حافظ خطا نہیں کرتا تو اسی مشاعرے سے اس زمانے کے ممتاز شاعرسنجر مدراسی کا یہ شعر، شعری ذوق کے حامل افراد تک پہنچا ،جو یوں تھا:
حسن پَہ تٗو مغرور نہ ہونا
حُسن تو میرا حسن ِنظر ہے
سنجر مدراسی اپنے کلام میں گہرائی اور گیرائی تو رکھتے ہی تھے مگر اُن کا اندازِ پیش کش اور ترنم عجب تھا کہ سننے والا مسحور ہو جاتا تھا۔
ممبرا میں اُس زمانے کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو کتاب بینی کے لئے مشہور تھے جب 1970 میں بھیونڈی کا بدترین فساد برپا ہوا تھا تو ممبرا کے مسلمان بھی اپنے تحفظ کیلئے پریشان تھے مگر نظام الدین اشرفی کی پریشانی یہ تھی کہ ممبرا میںفساد ہوا تو کہیں میرا کتب خانہ ضائع نہ ہوجائے اور اسی اندیشے کے نتیجے میں انہوں نے اپنی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ممبرا سے کہیں باہر کسی مدرسے میںمنتقل کر وادِیا تھا۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے صوفی نظام الدین اشرفی کا تعلق ِ بیعت برہان پور کے مشہور پیر و مرشد حضرت عبد الغفورؒ سے تھا۔ یہاں نا مناسب نہ ہوگا کہ یہ بتا دِیا جائے کہ شاہ عبد الغفورؒ سے ہمیں بھی نیاز حاصل رہاہے موصوف خاصاستھرا شعری ذوق رکھتے تھے اسی سبب اُس وقت کے کئی شعرا بھی ان سے بہت قریب تھے جن میں منصور فریدی کا نام اب بھی ہمیں یاد ہے۔
ممبرا ہی میں حضرتِ غافل رام پوری بھی تھے جواپنے دور میں نہایت امتیازی تشخص کے حامل کردار تھے۔ وہ پیشے سے گھڑی سازتھے شایدیہ مشہورشعر کسی شاعر نے انہی کےلئے کہا ہوگا:
وہ گھڑی ساز ہیں زمانے کے
اپنی بگڑی گھڑی بنا نہ سکے
غافل مرحوم نہایت شریف اور وضع دار شخص تھے حقیر کے ساتھ ان کا مشفقانہ سلوک ناقابلِ فراموش ہے۔
غافل رام پوری کے پڑوسی یٰسین بخش شیدا ؔباندوی بھی اپنے طنز و مزاح کی رنگینی بکھیرتے تھے ۔
انکا یہ شعر بہت سوں کےحافظے میں ہے:
کر لیاکالی کلوٹی سے بڑھاپےمیں نکاح
روزہ افطار کیا ہم نے جلی کھیر کے ساتھ
ہمارے ہاںکہا جاتا ہے کہ اُردو زبان گنگا جمنی تہذیب سے بھی مزّین ہے۔ ممبرا ہی کے ایک لکشمی شنکر، یاد وںمیں بسے ہوئے ہیں وہ کام تو ریلوے میں کارپینٹری کا کرتے تھے مگر اپنی شاعری کا راگ جس ہنر مندی سے سناتے تھے تو سُننے والے میرا بائی کے دوہوں اور نرالا کے گیتوںکی راگنی تک پہنچ جاتے تھے۔ لکشمی شنکر راگؔ کا تعلق کانپور جیسے شہر سے تھا وہ ممبرا میں کولی واڑہ میں رہتے تھے۔ مشاعروں اور کوی سمّیلنوں میں ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی تھی اور بڑی توجہ سے لوگ انہیں سنتے تھے۔
راگ کا یہ شعر ممبرا کے ایڈوکیٹ شمیم احسن کو اب بھی یاد ہے:
چاول کا ہر کن موتی ہے گیہوں کا ہرکن ہیرا ہے
جس کی خاطر کسان نے دھرتی کے ہِردَے کو چیرا ہے
جن لوگوں کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں وہ شعرو ادب کے حوالے سے کس درجے پر تھے یہ جتلانا نہ ہمارا مقصد ہے اور نہ ہی ہم ا س کے اہل ہیں البتہ یہ کہنے میں ہمیں کوئی تامل نہیں کہ یہ حضرات اپنے فن اور ادب کے تئیں مخلص تھے ان کے اخلاص پر شبہ کرنا زیادتی ہوگی۔
یہ جو ہم نے ابھی ممبرا کی جامع مسجد کے پیش امام شحیم گونڈوی کا ذکر کیا ہے ان کے حوالے سے ایک ادبی واقعہ یہاں مذکور ہوجائے تو مناسب ہوگا کہ جس میں زبان و ادب کا ایک ایسا وصف دَر آیا ہے کہ جو، اب ہم لوگوں میں اکثر کے ہاں ناپید ہو چکا ہے۔
اُس زمانے میں ممبئی کے ایک حکیم جو مرزا حیدر بیگ دہلوی کے نام سے مشہور تھے جن کا دوا خانہ محمد علی روڈ (ممبئی) میں ایک بڑی جگہ پر واقع تھا ۔ جو اُس وقت کے ممتاز شعرا ، ادبا اور عالموں کا بھی ایک مرکز تھا حکیم حیدر بیگ دہلوی کا ذوقِ شعری خاصا بلند تھا۔ ان کے ہاں شکیل بدایونی ، صبا افغانی اور سرتاج رحمانی جیسے شعرا کی اکثر آمدو رفت رہتی تھی، بلکہ شام کو جب یہ لوگ دواخانے میں جمع ہو جاتےتھے تو پھرحکیم صاحب اپنے ملازم سے دواخانے کے سامنے کا دروازہ بند کروا دیتے تھے۔ کسی دل جلے نے اس منظر کو کیسی خوبی سے شعر کا پیکر دیدیا ہے:
اند ر جو جائیے تو وہی جشنِ مے کشی
باہر سے دیکھیے تو دواخانہ بند ہے
حکیم صاحب کے دوستوں میں شعرا اور علما ہی تھے مگر ان کے مریضوں میںشہر کے ممتاز رؤوسا ہوتے تھے۔ شہر کےاکثر مشاعروں کی مسند ِصدارت پر حکیم صاحب جلوہ افروزرہتےتھے۔ کسی مشاعرے کا واقعہ ہے کہ ایک مبتدی کائستھ شاعر جن کا نام شاید ہنر ؔگونڈوی تھا، ہنرؔ نے اپنی غزل پڑھتے ہوئے کسی شعر میں تلفظ کی غلطی کی تو حکیم صاحب آگ بگولہ ہوگئے اس زمانے میں تلفظ کی غلطی ، بڑا گناہ سمجھی جاتی تھی۔ حکیم صاحب اپنی مسند سے فوراً اٹھے اور شاعر کو مائک سے ہٹا کر زبان و بیان اور تلفظ کی اہمیت پر خاصی تقریر کر ڈالی۔
اس مشاعرے میں مولانا شحیم گونڈوی بھی موجود تھے۔ علاقائی محبت سب کے ہاں ہوتی ہے ۔
بر سر ِمحفل انھیں اس غلطی پر حکیم صاحب کی گرِفت بہت ناگوار گزری انہوں نے اس گرفت کو اپنے شہر گونڈے کی توہین سمجھی اورمائک پر پہنچ کر صاحبِ ِصدر سے کچھ عرض کی درخواست کی۔ حکیم صاحب دُنیا شناس تھے وہ موقع کی نزاکت سمجھ گئے، انہوں نے شحیم گونڈوی کی عرض کو مسترد کردیا مگر شحیم گونڈوی بھی کہیں سے کمزور نہیں تھے ۔عوام میں ان کی خاصی مقبولیت اور گونڈہ بستی کے لوگوں میں خوب معزز تھے۔ شحیم گونڈوی نے مائک پکڑ لیا اور غصے کے حالت میں بولنا شروع کیا:
’’صاحب ِ صدر! آپ کا یہ طریق، ادب وتہذیب کے خلاف ہے اس لئے میں احتجاجاً آپ کی خدمت میں یہ رویہ اختیار کر رہا ہوں۔ سو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی مبتدی شاعر کو برسرِ مشاعرہ ذلیل کرکے اصلاح کا یہ انداز اپنے آپ میں خود خلافِ ادب ہے۔ جو کسی بھی حالت میں ہم قبول نہیں کر سکتے اور جہاں تک تلفظ اور زبان کی غلطی کا سُوال ہے تو آپ نے چندمنٹ کی تقریر میں خود پانچ غلطیاں کی ہیں۔ میں حکیم صاحب سے عرض کر رہاہوں کہ لفظ مَحبت نہیں مُحبت ہے اورسَوال نہیں سُوال ہے۔ وغیرہ وغیرہ‘‘
مولانا شحیم نے جیسے ہی یہ باتیں کیں تو مجمعے کی تو اپنی نفسیات ہوتی ہے بس سیٹیاں بجنے لگیں، ۔۔۔جاہل ہےجاہل ۔۔۔جیسے جملے ہوا میں گونجنے لگے۔
حکیم صاحب اسٹیج سے اُٹھے اور یہ جا اور وہ جا۔
یہ واقعہ تو ہونا تھا سو ہو کر رہا۔
آوارہ سلطانپوری نے اپنی کتاب’ نایاب ہیں ہم‘ میں لکھا ہے کہ ’’مشاعرے کے تیسرے دِن مولانا شحیم گونڈوِی بھنڈی بازار میںمانڈوی پوسٹ آفس کے قریب ملے ،میں نے پوچھا: کیا اِرادہ ہے مولانا!
بولے: کچھ بھی ہو بزرگ بزرگ ہی ہوتا۔ حکیم صاحب سے معافی مانگنے محمد علی روڈ ان کے دواخانےجا رہا ہوں۔
یہ بات ہوہی رہی تھی کہ سامنے سے حکیم صاحب کے کمپاؤنڈر وارِد ہوئے اور سلام و دُعا کے بعد کہنے لگے : مولانا !حکیم صاحب کل سے آپ کو یاد کررہے ہیں۔ میں صبح سے اس طرف کے دو چکر لگا چکا ہوں۔ چلیے دواخانے۔
اور مولانا شحیم گونڈوی کمپاؤنڈر کے ساتھ چل دِیے۔‘‘
کیا لوگ تھے اور کیا ان کا کردار تھا۔ شاعرو ادیب تو دور حاضرمیں کل سے زیادہ ہیں ان کا علم و ادب بھی ماضی کے مقابلے کہیں بلند ہو سکتا ہے مگر اب سوچتے ہیں تو ان بزرگوں کے کردار و اخلاص کے سامنے ہمیں آج اندھیرا محسوس ہوتا ہے۔ کیاہم ان کے کردار اور ان کے اخلاص کی روشنی سے اپنے آج کو روشن نہیں کر سکتے؟!!