ترک سیاسی نظام میں عظیم تبدیلی کا امکان ،ملک کی اکثریت اردگان کے ساتھ

موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں، اوسطا ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی:طیب اردگان
انقرہ:(ایجنسی)ترکی میں انتخابات کے محکمے نے سولہ اپریل ۲۰۱۷ کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر رجب طیب اردوغان نے جمعہ کو اصلاحات کے بل پر دستخط کیے ہیں جس سے رائے شماری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ان تجاویز کے تحت جدید ترکی میں پہلی بار ایگزیکٹیو پریزیڈنسی کا قیام عمل میں لانے کے لیے کہا گیا ہے۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوں گے جس کے لیے ممکنہ تاریخ تین نومبر 2019 ہے۔جنوری میں ترک پارلیمان نے آئین کے آرٹیکل 18 کی منظوری دی تھی تاہم اس موقع پر پارلیمان میں ہاتھا پائی بھی دیکھنے کو ملی۔
اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک ریاست کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کے لیے یہ ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان ملک میں موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی جمہوری نظام قائم کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اردگان کا یہاں تک کہنا ہے کہ ترکی کے سیاسی نظام کی مخالفت کرنے والے ترکی کے دشمن ہیں۔ممکن ہےکہ نئی اصلاحات کے تحت ملک کے وزیراعظم کا عہدہ موجودہ وزیراعظم بن علی یلدرم کے بجائے کسی اور شخصیت کے پاس جائے گا یا پھر اس عہدے کے جگہ نائب صدر لیں گے۔
سیاسی تبدیلی کے بعد ترک صدر کو صدارتی حکم نامے جاری کرنے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تقرری کرنے جیسے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اس تبدیلی کے بعد ممکنہ طور پر موجودہ صدر اردگان نیٹو کی اس رکن اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہاں ریاست کی باگ ڈور سن 2029 تک اپنے ہاتھوں میں رکھ سکیں گے۔
اردگان کے حامیوں کی رائے میں ترکی میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال، عراق اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام، داعش اور کرد جنگجوؤں سے لاحق خطرات کے تناظر میں سیاسی نظام کی تبدیلی ملکی استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کے خاتمے کی ضامن ہے۔
دوسری جانب مخالفین کو خدشہ ہے کہ صدارتی نظام سے ملک میں آمریت کا خدشہ ہے۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے پہلے ہی ہزاروں عام شہری، اساتذہ، صحافی، اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ملازمین زیر حراست ہیں۔
اردگان اس ریفرنڈم میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی نظام میں تبدیلی نہ لانے کا فائدہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سمیت دیگر ملک دشمن قوتوں کو پہنچے گا۔ حکومت کے حامی ایک تھنک ٹینک کے اہتمام کردہ ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اردگان کا کہنا تھا، ’’سیاسی تبدیلی کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ پی کے کے مخالفت کر رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، وہ مخالفت کر رہے ہیں اور وہ لوگ مخالفت کر رہے ہیں جو ترک قومی پرچم کے خلاف ہیں۔‘‘
اردگان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں۔ اوسطاً ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی۔ترکی میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، سی ایچ پی اور ایچ ڈی پی سیاسی نظام میں تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ملک میں طاقت کا توازن ختم ہو جائے گا اور پہلے ہی سے طاقت ور اردگان کا اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔
اردگان کی ہر تقریر کی طرح ہفتے کے روز کی گئی تقریر کو بھی ملک کے تقریباسبھی نشریاتی اداروں نے براہ راست نشر کیا۔ سی ایچ پی کے سربراہ نے انقرہ میں صحافیوں سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا، ’’یہ ریفرنڈم شفاف طریقے سے نہیں ہو گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اردگان کا حامی میڈیا اپوزیشن جماعتوں کا موقف عوام تک نہیں پہنچائے گا اور عوام کو یہ تاثر دیا جائے گا کا ہم ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔‘‘
ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے مطابق اپوزیشن جماعت ایم ایچ پی کی ایک اہم خاتون سیاست دان میرائل اکشنر ہفتے کے روز اپنے حامیوں سے خطاب کرنے لگیں تو ہوٹل کی انتظامیہ نے، جو اردگان کی حامی تھی، بجلی بند کر دی جس کے باعث اکشنر کو میگا فون کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کرنا پڑا۔