سپریم کورٹ میں اونچی ذات والے ججوں کا چلتا ہے راج: کولکاتہ ہائی کورٹ کے دلت جج کا الزام

کولکاتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سی ایس کرن(تصویر بہ شکریہ این ڈی ٹی وی)
کولکاتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سی ایس کرن(تصویر بہ شکریہ این ڈی ٹی وی)

کولکاتہ: سپریم کورٹ کی طرف سے عدالت کی توہین کا نوٹس ملنے کے بعد کولکاتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سی ایس كرن نے سپریم کورٹ کے کسی سٹنگ جج کو نوٹس تھمانے کے حق پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے. ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ اونچی ذات کے جج، ایک دلت جج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے حقوق کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں.
آگے بڑھنے سے پہلے بتا دیں کہ جسٹس كرن وہی ہیں جو 2011 سے پہلے اور موجودہ ججوں پر الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ ان (كرن کے) دلت ہونے کی وجہ سے انہیں دوسرے ججوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے. 2016 میں جسٹس كرن نے سپریم کورٹ كولیجيم کی طرف سے ان کا کولکاتہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کئے جانے کے حکم پر کہا تھا کہ انہیں دکھ ہے کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ ایسے ملک میں جانا چاہتے ہیں جہاں نسل پرست نہ ہو.
سپریم کورٹ کے صبر کی حد تب پار ہو گئی جب اسی سال جنوری میں كرن نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر سپریم کورٹ اور مدراس ہائیکورٹ (جہاں وہ پہلے خدمات انجام دے رہے تھے) کے ججوں پر بدعنوانی کے الزام لگائے. ساتھ ہی انہوں نے اپنےخط میں موجودہ اور ریٹائرڈ ہو چکے 20 ججوں کے نام بھی لکھے. اس کے بعد سپریم کورٹ نے 8 فروری کو جسٹس كرن کو نوٹس جاری کیا اور پوچھا کہ کیوں نہ اس کو کورٹ کی توہین تصور کیا جائے. غور طلب ہے کہ اس طرح کا نوٹس پانے والے كرن ہائی کورٹ کے پہلے سٹنگ جج ہیں.
اب كرن نے اس نوٹس کے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو ہائی کورٹ کے موجودہ جج کو نوٹس بھیجنے کا کیا حق ہے. كرن نے کہا کہ سپریم کورٹ چاہے تو ان کے خلاف توہین کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کر سکتا ہے.
انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے دعوی کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے نوٹس کے جواب میں كرن کے ذریعہ لکھے گئے خط کی کاپی ان کے پاس موجود ہے. اخبار کے مطابق كرن نے لکھا ہے کہ’’ یہ حکم کسی دلیل پر منحصرنہیں ہےلہذا عمل کا نفاذ ٹھیک نہیں ہے. اس حکم کے علامات صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح قانون اونچی ذات کے ججوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی عدالتی طاقتوںکا استعمال کرکے نچلی ذات و قبائل کے جج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بے جا استعمال کر رہے ہیں. اس لئے آٹھ فروری 2017 کو جاری کئے گئے خود ساختہ توہین عدالت کا حکم قانونی دائروں کے تحت نہیں آتا۔
واضح رہے کہ کولکاتہ ہائی کورٹ میں عہدے پر موجود جسٹس كرن کو مارچ 2009 میں مدراس ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا تھا. اس کے بعد وہ مسلسل ججوں اور سپریم کورٹ کے خلاف اپنے مختلف بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں بنے رہے. سب سے زیادہ سرخیوں میں وہ اس وقت آئے جب انہوں نے 2011 میں سپریم کورٹ قومی کمیشن کو خط لکھا کہ دلت ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے ججوں کی طرف سے پریشان کئے جاتے ہیں. انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ دوسرے جج انہیں چھوٹا ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں. مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کس طرح ایک شادی کے پروگرام میں ایک دوسرے جج نے اپنے پیروں کو یہ سوچ کر تھوڑا دور کر لیا کہ کہیں كرن کےپاؤں سے ان کے پائوں چھو نہ جائیں ۔كرن کی بطور جج تقرری کی سفارش کرنے والے ہائی کورٹ كولیجيم کے تین میں سے ایک جج نے گزشتہ سال عوامی طور پر كرن کی تقرری کے لئے معافی مانگی تھی.
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش میں اعلیٰ ذات کے جج نے جب آر ایس ایس پرچارک سنیل جوشی قتل معاملے میں عدم ثبوت کی بنیاد پر مالیگائوں بم دھماکوں کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بری کیا تھا تو بھی یہ سوالات کھڑے ہوئے تھے کہ کیا کہ مخصوص ذہن کے لوگ اعلیٰ ذات والوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *