ممبرا کوسہ میں جیتندر اوہاڈ کا جلوہ قائم ،جیتے ہوئے کارپوریٹر ایم ایل اے کےمشکور

اشرف پٹھان (شانو) ابراہیم رائوت اور معراج خان جیت کے بعد کامیابی کا جشن مناتے ہوئے
اشرف پٹھان (شانو) ابراہیم رائوت اور معراج خان جیت کے بعد کامیابی کا جشن مناتے ہوئے

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبرا:(معیشت نیوز) میونسپل کارپوریشن انتخابات میںمجموعی طور پربھلے ہی راشٹر وادی کانگریس پارٹی نے بہتر کار کردگی کا مظاہرہ نہ کیا ہو لیکن این سی پی سے ممبرا و کلوا کے ایم ایل اے جیتندر اوہاڈ کارپوریشن انتخابات میں بھی امیدکی کرن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے پورے مہاراشٹر میں سب سے بہتر مظاہرہ اسی علاقے سے کیا ہے۔ تھانے میونسپل کارپوریشن میں اگر راشٹروادی کانگریس پارٹی کو 34سیٹ ملی ہے تو صرف ممبرا سے این سی پی کے 18امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔وارڈ نمبر 32سے کامیابی درج کرنے والی عشرین کے شوہر ابراہیم رائوت کہتے ہیں’’ہم نے وارڈ نمبر ۳۳میں کام کیا تھا جبکہ انتخابات کے لیے وارڈ نمبر ۳۲کا ٹکٹ ملا ،ہم لوگوں کے کام کی قدر کتنی ہوئی اس کا تو اندازہ نہیں لیکن ہمارے آمدار جیتندر اوہاڈ صاحب نے جتنی محنت کی وہ قابل رشک ہے‘‘۔ابراہیم معیشت ڈاٹ اِن سے کہتے ہیں’’اوہاڈ صاحب نےترقیاتی کام کیا ہے اور اسی بنیاد پر ووٹ بھی مانگا ہے لیکن جس طرح پیدل چل کر خود ہاتھ میں مائک لے کر انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے یہ صرف عوام سے ان کی محبت کا نتیجہ ہی ہے۔اپنے پارٹی کارپوریٹروں کی کامیابی کے لیے کسی جگہ کا ایم ایل اےاس طرح کی کوشش کرتا ہو کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا ہے‘‘۔ابراہیم کہتے ہیں’’اوہاڈ صاحب نے ترقیاتی کاموں سے ممبرا کا دل جیت لیا ہے اورممبرا کی عوام بھی ان سے محبت کرتی ہے‘‘۔

ایم ایل اے جیتندر اوہاڈ
ایم ایل اے جیتندر اوہاڈ

وارڈ نمبر ۳۱سے راشٹروادی کانگریس پارٹی سے کامیاب ہونے والے راجن نارائن کینے کہتے ہیں’’جیتندر اوہاڈ کے ترقیاتی کاموں کو لوگ سراہتے ہیں ۔میں نے جس وارڈ میں کام کیا وہاں سے مجھے بھی ٹکٹ نہیں ملا لیکن میری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کسی کا بھی کوئی مسئلہ ہو خواہ وہ میرے وارڈ کا ہو یا نہ ہو ،اسے حل کردوں لہذا جب مذکورہ وارڈ سے کھڑا ہوا تو لوگوں نے سابقہ ریکارڈ کی لاج رکھی اور مجھے کامیاب بنایا لیکن اس کامیابی میں اوہاڈ صاحب کی کامیابی بھی پوشیدہ ہے کیونکہ انہیں کے کام کو لوگوں نے سراہا ہے۔‘‘
معراج نعیم خان بھی جیت کا کریڈٹ جیتندر اوہاڈ کو دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارے پینل میں جتنے بھی لوگ تھے ان کے کام کو لوگوں نے دیکھا تھا صرف فرزانہ شاکر شیخ ایسی امیدوار تھیں جو پہلی مرتبہ انتخاب لڑرہی تھیںلیکن انہوں نے بھی کامیابی حاصل کرلی ۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ آمدار صاحب کے کام نے ہمیں کامیابی دلائی ہے جبکہ پینل کے دیگر لوگوں کے کام کو بھی لوگوں نے سراہا ہے‘‘۔
البتہ جیتندر اوہاڈ جیت کی کریڈٹ عوام کو دیتے ہوئے معیشت ڈاٹ اِن سےکہتے ہیں’’جیت تو عوام کی ہوئی ہے جذباتی نعروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ممبرا کوسہ میں جو ترقیاتی کام ہوا ہے لوگوں نے اسے دیکھا ہے ۔ہاں نئی عمر کے نوجوانوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے لیکن میں ان سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اکبرالدین اویسی نے اپنی تقریر میں کہیں بھی ترقیاتی کام کا حوالہ دیا ہے یا ترقیاتی کام کی یقین دہانی کرائی ہے۔صرف جذباتی نعروں کے بہائوں میں ،کیونکہ انہیں بولنے کا ہنر آتا ہے ،عوام کے جذبات سے کھیلواڑ یقیناً مسلمانوں کو سیاسی طور پر بہت پیچھے لے جائے گا‘‘۔اوہاڈ کہتے ہیں’’مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ آج کا نوجوان صرف جذباتی نعروں کی آڑ میں بہتا چلا جا رہا ہے وہ ان امور کا جائزہ نہیں لے رہا جو اسے ترقی کی طرف لے جانے والے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کے کچھ قریبی ایم آئی ایم کا خوف دلاکر آپ کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟کسی کا نام لیے بغیراوہاڈ کہتے ہیں’’جو لوگ انتخابات کے وقت استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم انہیں بہتر طور پر جانتے ہیں لیکن چونکہ معاملہ نازک ہوتا ہے اسلئے کچھ لوگوں کے ناز نخرے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں ویسے ایسے لوگوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی‘‘۔
واضح رہے کہ سید علی اشرف نے سنگیتا دوے کو امیدوار بنانے کے لیے جیتندر اوہاڈ پر دبائو بنایا تھا جس کے نتیجہ میں کانگریس این سی پی کے درمیان تلخیاں بڑھیں اور دونوں نے علحدہ علحدہ انتخاب لڑا اور آخر کار این سی پی کی سنگیتا دوے بری طرح شکست سے دوچار ہوگئیں جبکہ ممبرا کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس حرکت کے بعد اب سید علی اشرف کا سیاسی کریئر بھی خطرے میں ہے اور ممکن ہے کہ انہیں تادیر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
جیتندر اوہاڈ کہتے ہیں’’مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ مہاراشٹر کی مسلم آبادی نے جس طرح ایم آئی ایم کا استقبال کیا ہے اس کا راست فائدہ فرقہ پرست پارٹیا ں اٹھا رہی ہیںحالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بہار کے مسلمانوں نے جس طرح انہیں نکار دیا تھا یہاں بھی ویسا ہی کیا جانا چاہئے تھا لیکن اترپردیش میں جو حالات بن رہے ہیں اور فرقہ پرستوں کو جس طرح فائدہ پہنچایا جا رہا ہے اس سے یقیناً ملک کو نقصان پہنچے گا‘‘۔
واضح رہے کہ کوسہ ممبرا کےجن امیدواروں کی مقامی جماعت اسلامی ہند نے حمایت کی تھی ان میں دس امیدواروں کو کامیابی ملی ہے ۔جماعت کے مقامی ذمہ دار عبد السلام ملک معیشت سے کہتے ہیں’’ہم نے جن لوگوں کی حمایت کی ان میں دس لوگوں کو کامیابی ملی جبکہ آٹھ امیدوار ہار گئے۔دراصل ہم نے جو معیار مقرر کیا تھا اس معیار کے مطابق جو امیدوار ہماری نظر میں بہتر تھے ہم نے ان کا ساتھ دیا خواہ وہ ایم آئی ایم کے ہوں ،این سی پی کے ہوں یا کسی اور پارٹی کے۔لیکن یہ بات درست ہے کہ ہم بھی ڈاکٹر جیتندر اوہاڈ کی خدمات کے معترف ہیں البتہ ہم ایک ایسی اپوزیشن بھی چاہتے ہیں جو جمہوریت کے تقاضوں پر پوری اترے اور منتخب نمائندوں کو متحرک رکھ سکے‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *