نیشنلزم ، بھگوا نیشنلزم اور اظہار ِرائے کی آزادی

رامجس کالج میں اے وی وی پی کی دہشت گردی کے خلاف طالبات مظاہرہ کرتے ہوئے (تصویر بہ شکریہ نیٹ)
رامجس کالج میں اے وی وی پی کی دہشت گردی کے خلاف طالبات مظاہرہ کرتے ہوئے (تصویر بہ شکریہ نیٹ)

رامجس کالج اور اس سے پہلے جے این یو میں جو کچھ بھی ہوا وہ محض ۲؍ مخالف نظریات کی حامل طلبہ تنظیموں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ مستقبل کے ہندوستان کو وہ رُخ دینے کی کوشش ہے جس کا خواب آر ایس ایس اور اس کے نظریہ ساز برسہابرس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اصل میں جڑوں پر حملے کی کوشش ہے تاکہ آنے والی نسل ہی ان نظریات کی حامل ہو جس کی ترویج آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں زائد از نصف صدی سے کررہی ہیں۔ اس طرح بعد میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ ایسے میں گر مہر جیسی طالبات کا آواز بلند کرنا یقیناً باعث اطمینان ہے تاہم یہ بات افسوسناک ہے کہ کیمپس میں ایسی طاقتوں سے مقابلے کیلئے بائیں محاذ کے علاوہ کوئی اور نظریہ سامنے نہیں آتا۔
عاصم جلال
ایک طرف یوپی میں وزیراعظم انتخابی مہم کو اچانک شمشان اور قبرستان تک پہنچا کر ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیتے ہیں تو دوسری جانب رامجس کالج میں عمر خالد کی تقریر کو بہانہ بنا کر نیشنلزم اور اینٹی نیشنلزم کی بحث از سر نو چھیڑ دی جاتی ہے۔ پولیس پہلے ہی کی طرح ایک طرف نظر آتی ہے۔ امبیڈکر کالج کشمیر کے موضوع پر پروگرام کو ملتوی کردینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی طلبہ کو فسطائیت کے خلاف سیمینار منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیتی کہ مبادا کہیں کوئی ’ملک مخالف بات‘ نہ کر دے اور یونیورسٹی پریشانی میں آجائے۔ اُدھرکیرالا میں بائیں محاذ اور سنگھ پریوار کا تصادم پرتشدد رویہ اختیار کرتا ہے تو آر ایس ایس کے ایک پرچارک وزیراعلیٰ کے قتل پر ایک کروڑ کے انعام کا اعلان کردیتے ہیں۔ یوپی میں ساکشی مہاراج وزیراعظم کے ذریعہ چھیڑی گئی بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے دفنانے کے مسلمانوں کے مذہبی فریضے کی ہی مخالفت کرتے ہوئے تمام فرقوں میں نذر آتش کرنے کی رسم کی وکالت کر دیتے ہیں۔ کیا یہ سب یوپی میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کے بعد سیاسی مساوات میں اچانک تبدیلی اور بی جےپی کی امیدوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھنے کے بعد یوپی میں سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کیا جارہا ہے یا پھر کوئی بڑی سازش اپنا کام کررہی ہے؟ یا پھر اے بی وی پی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہےکا؟‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی میں بی جے پی کی بگڑتی ہوئی حالت نے زعفرانی طاقتوں کو ایک طرح کی بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ ابتدائی ۴؍ مراحل میں ہونے والی پولنگ کے بعد جس طرح کے اشارے مل رہے تھے، ان کی وجہ سے بی جے پی کو اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی نظر آئی۔ یہی وجہ ہے بقیہ ۳؍ مراحل کو ہر حال میں جیتنے کیلئے وہی پرانے ہتھکنڈے اپنائے جانے لگے جنہوں نے بی جےپی کو ملک کے اقتدار تک پہنچایا ہے۔ اس میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم نے اپنے عہدے کا وقار بھی داؤ پر لگادیا اور سیاست کو شمشان اور قبرستان تک پہنچا دیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رامجس کالج سانحہ اور اس کے بعد کے واقعات نے نیشنلزم اور اینٹی نیشنلزم کی جو بحث شروع کی ہے ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی مدد سے اس کا فائدہ بھی یوپی الیکشن میں بی جے پی کو پہنچے گا مگر اس کا مقصد صرف یوپی الیکشن نہیں ہے۔ وہ ان مقاصد میں سے ایک چھوٹا سا اور فوری مقصد ضرور ہے مگر یہ مذموم تحریک ایک بڑے مقصد کے تحت جاری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد عوام کو مذہب کا افیون کھلا کر اصل مسائل سے بے پروا کردینا ، ایک مخصوص نظریے کو ان پر مسلط کردینا اور دیگر نظریات کو کسی بھی طرح پنپنے نہ دینا نیز پورے ملک کو فرقہ وارانہ خطوط میں بانٹ کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ اس میں زعفرانی طاقتیں بڑی حدتک کامیاب بھی نظر آرہی ہے۔ اکثریتی فرقے کے ایک بڑے طبقے کو اس خمار میں مبتلا کردیاگیاہے کہ’اچھے دنوں ‘ کیلئے کچھ قربانیاں دینی پڑیں گی۔یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی کی مشکلات، بینکوں سے لین دین کو مہنگا کردیئے جانے اور دیگر پریشان کن عوامل کے باوجود بی جےپی کی مقبولیت میں ویسی کمی نظر نہیں آرہی جیسی ہونی چاہئے تھی۔
دوسری طرف اقتدار کا بھر پور فائدہ اٹھاتےہوئے جڑوں پر حملے شروع کردیئے گئے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں ہی سے ملک کی اگلی نسل کو قائد ملیں گے، یہیں پڑھنے والے طلبہ کل کے دانشور اور حکمراں بنیں گے، وہی ملک کیلئے معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے خطوط طے کریںگے، اس لئے اگر آج ہی ان کی ذہن سازی کردی جائے تو مستقبل میں مزید محنت کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ ان خطوط پر آر ایس ایس یقیناً زائد از نصف صدی سے کام کر رہا ہےمگر اسے مکمل کامیابی اب تک حاصل نہیں ہوئی۔ آج بھی ملک کے نامور محققین ، ماہرین معاشیات اور سماجی مفکرین آر ایس ایس کے نظریات سے نہ صرف یہ کہ متفق نہیں ہیں بلکہ وہ ببانگ دہل ان کی مخالفت کرتے ہیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اقتدار میں ہونے کے باوجود اس طرح کی مزاحمت یقیناً زعفرانی طاقتوں کو گراں گزررہی ہے، اس لئے نئی حکمت عملی کے تحت ملک میں ایک مخصوص نظریے کے علاوہ کسی اور نظریے کو پنپنے کا موقع ہی نہ دینے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے جب کچھ نہیں بن پڑرہاتو مخالف آوازوں کو دبانے کیلئے غنڈہ گردی کا سہارا لیا جارہاہے۔ یقیناً فوری طور پر اس میں کامیابی تو ضرور مل رہی ہے مگر شر میں بھی خیر کے پہلو کی طرح نئے نئے حلقوں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں جو یقیناً باعث اطمینان بھی ہیں اور باعث افتخار بھی۔ گر مہر کور جیسی طالبات کا تن تنہا اے بی وی پی سے لوہا لینا اس بات کا اعلان ہے کہ زعفرانی طاقتوں کی دھاندھلی یوں ہی برداشت نہیں کی جائے گی۔اس میں ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ حلقے اور طلبہ بھی اب کھل کر میدان میں آ رہے ہیں جو عام طور پر اس طرح کے معاملات میں پڑنے سے گریز کرتے تھے۔ دہلی میں اے بی وی پی کے خلاف نکالے گئے مارچ میں طلبہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس بات کا غماز ہے کہ اس میں صرف بائیں محاذ کے نظریات کے حامل طلبہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ غیر جانبدار طلبہ بھی تھے جو کیمپس میں غنڈہ گردی کے خلاف ہیں۔
حالات جو رخ لے رہے ہیں وہ یقیناً خوفناک ہیں۔ ایسے میں ذاتی اور تنظیمی سطح سے اوپر اٹھ کر ملک کے جمہوری تانے بانے کو بچانے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اس فکر کی ضرورت اس لئے اور بھی بڑھ جاتی ہےکہ اب حکومت وقت کے خلاف آواز بلند کردینے کو بغاوت کے زمرے میں شامل کیا جانے لگا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ بغاوت سے متعلق برطانوی دور کا وہ قانون جسے بدلنے کی ضرورت تھی، مودی حکومت اسے مزید سخت کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے سے مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے جمعہ کو اپنی گفتگو میں جس لب ولہجے کا استعمال کیا ہے وہ یقیناً خطرناک ہے۔ حکومت بغاوت سےمتعلق سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کو ہی بدلنے پرآمادہ نظر آرہی ہے۔ وینکیا نائیڈو کے مطابق ’’آزادی کے نعرے لگانا اگر ملک سے بغاوت نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟‘‘ انہوں نے بغاوت سے متعلق قانون کو مزید سخت کرتے ہوئے نعرے بازی کو بھی بغاوت کے زمرے میں لانے کا اشارہ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کی جانب سے آزادی کے جو نعرے لگتے رہے ہیں وہ ملک سے آزادی کے نعرے نہیں بلکہ غریبی، فسطائیت اور اس طرح کے دیگر مسائل سے آزادی کے نعرے ہیں۔
ان حالات میں جب تعلیمی اداروں میں ہی طلبہ کے اذہان کو مکدر کرنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کیمپس کی سطح پر کام کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس جانب برتی جانے والی کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اے بی وی پی کی جانب سے ایسی غنڈہ گردی کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ طلبہ میں خوف وہراس تو دور کی بات ہے، یونیورسٹی انتظامیہ تک ڈر اور خوف میں مبتلا ہے۔ ملک کی جمہوریت کو اگر بچانا ہے تو ہمیں اپنے طلبہ کے ذہنوں کو مکدر ہونے سے بچانا ہوگا اورانہیں اس ہندوستان کے نظریے سے روشناش کرانا ہوگا جس کا خواب مولانا آزاد، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور دیگر مجاہدین آزادی نے دیکھاتھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *