سوامی اسیمانند کی براء ت ؛جب سیاں بھئے کوتوال
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
۱۱،اکتوبر ۲۰۰۷ کو رمضان کے مہینے میں افطار کے وقت اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ شریف کے احاطہ میں ایک طاقتور بم دھماکہ ہوا تھا جس میں ۳،افراد ہلاک اور ۱۵،زخمی ہوئے تھے ۔اس دھماکے کی تفتیش راجستھان اے ٹی ایس سے شروع ہوکر قومی تفتیشی ایجنسی ( NIA) تک پہنچی تھی ۔اس کیس میںکل ۱۳،افراد ملزم بنائے گئے تھے جن میں تین ابھی تک مفرور ہیں۔ سوامی اسیمانند پر اس حملہ کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام تھا،اب اس دھماکہ کا فیصلہ ہوا تو این آئی اے کی اسپیشل کورٹ نے کیس کے ماسٹر مائنڈ سوامی اسیمانندسمیت کل سات افراد کو تمام الزامات سے بری کردیا جبکہ سنیل جوشی( مقتول )،بھاویش پٹیل اور دیویندر گپتا نامی تین افراد کو مجرم قرار دیا ہے۔ اس کیس میں ماسٹر مائنڈ کا بری ہوجانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے ۔یہ تو ہونے ہی والا تھا اور اس کی تیاری این ڈی اے کے حکومت میں آنے کے بعد ہی سے شروع ہو گئی تھی جس کا انکشاف مالیگاؤں دھماکہ کیس میں وکیل استغاثہ محترمہ روہینی سالیان نے کیا تھا کہ این ڈی اے کی حکومت آنے کے بعد این آئی اے کے ایک افسر نے ان سے کہا کہ ’پیغام ہے کہ وہ اس کیس( ۲۰۰۸ کا مالیگاؤں بم دھماکہ کیس ) میں نرم رویہ اختیار کریں ‘ ۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت موافق آرڈرس نہیں چاہتی، ہو سکتا ہے کہ وہ اس کیس کو کمزور کر کے آخر کار ہار جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اسے واپس نہیں لے سکتے ‘( انڈین ایکسپریس ۲۵،جون ۲۰۱۵) انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں بیوقوف نہیں ہوں کہ بغیر ثبوت کے اس طرح کے الزام لگاؤں( انڈین ایکسپریس ۱۰،جولائی ۲۰۱۵) اور واقعی ان کے اس بیان کے بعد سے مبینہ ہندو دہشت گردوں کے کیسس کی صورت بدلنی شروع ہو گئی ،پہلے تو یہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف بنائی گئی ہائی پروفائل قومی تفتیشی ایجنسی نے گجرات کے موڈاسا بم بلاسٹ کیس میں وہ رویہ اختیار کیا جونہ اسکے شایان شان ہے اور نہ ہی ملک کی حکومت اور قانون نافذ کر نے والے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے ۔ابتدائً میں موڈاسا دھماکہ کیس کی تفتیش گجرات پولس نے کی تھی لیکن دوسال تک کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر پائی تھی جس کے بعد یہ کیس این آئی اے کو سونپ دیا گیا تھا اور صاحب! این آئی اے نے پچھلے سال عدالت میں اس کیس کی کلوزر رپورٹ داخل کر کے اسے بند کروا دیا کہ ’ وہ اس کیس میں کسی کے خلاف فرد جرم عائد کر نے کے لئے ثبوت تلاش کر نے سے قاصر ہے ‘۔حالانکہ یہ کیس این آئی اے کے سپرد کرنے کے بعد ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ’ این آئی اے کا خیال ہے کہ اجمیر درگاہ اور موڈاسا بلاسٹ ا یکدوسرے سے متعلق ہیں کیونکہ موڈاسا بلاسٹ کی جائے واردات پر اجمیر بلاسٹ کے اہم ملزمین میں سے ایک سندیپ ڈانگے کی موجودگی ثابت ہوچکی ہے اور اسیمانند کے اعتراف سے اسکی تصدیق بھی ہوتی ہے( انڈین ایکسپریس ۲۷جنوری ۲۰۱۱ )اسی طرح ۲۰۰۶ کے مالیگاؤں بم دھماکے میں این آئی اے یو ٹرن لیا ، پہلے تو اس نے مسلم ملزمین کی ضمانت کی مخالفت نہیں کی جس کی وجہ سے انہیں ضمانت کے ذریعہ جیل سے رہائی ملی پھر اس نے اس کیس میں اپنی تحقیق کی بنیاد پر چار ہندو افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کی اس کے بعد اس نے اس کیس میں اے ٹی ایس کے ذریعہ ملزم بنائے گئے مسلم ملزمین کی مقدمہ خارج کر نے کی اپیل کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی کہ اسے ان مسلم افراد کو دھماکے سے جوڑنے والے ثبوت نہیں ملے۔ لیکن اس اپیل پر فیصلے کے وقت اس نے ایکدم یو ٹرن لیتے ہوئے مسلم ملزمین کا مقدمہ خارج کر نے کی مخالفت کی ۔ایجنسی کے دونوں اسٹینڈس میں زمانے اور حکومت کی تبدیلی ہی کا فرق ہے ،این آئی اے کا یہ اسٹینڈ کتنا بودا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی مخالفت کے باوجود کورٹ نے اس کیس کے تمام مسلم ملزمین کو ڈسچارج کردیا۔ اسی طرح مالیگاؤں بم دھماکے میں این آئی اے نے سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کواس بنیاد پر کلین چیٹ دی کہ جس موٹر سائیکل پر بم رکھا گیا تھا وہ اسکی ضرور تھی لیکن اس کے استعمال میںنہیں تھی بلکہ دوسرے ملزم کے استعمال میں تھی ۔جب این آئی اے کی یہ الٹی پلٹی شروع تھی اس وقت جن کیسس کی سنوائی شروع تھی مثلاً اجمیر اور سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکوں کے جو کیس این آئی اے کی عدالتوں میں چل رہے تھے اس وقت ان کے متعلق بھی یہ انتہائی مایوس کن خبر یہ آرہی تھی کہ استغاثہ کے گواہ ایک کے بعد منحرف ہو رہے ہیں ‘اور اب میڈیا رپورٹس کے مطابق اجمیر بلاسٹ کیس میں کل ۱۴۹ گواہوں میں سے تین درجن کے قریب منحرف ہوگئے اور شاید اسی کارن سوامی اسیمانند کو بری کردیا گیا ۔اور خدشہ ہے کہ ہندو دہشت گردی کے دوسرے مقدمات کا بھی یہی حال ہو۔ اب جبکہ اس کیس میں سوامی جی بری ہوگئے ہیں توکچھ ان کے متعلق بھی ہوجائے ۔دراصل سوامی جی وہ خاص آدمی ہیں جنہوںنے ایک میجسٹریٹ کے سامنے اپنے اقبالیہ بیان کے ذریعہ ہندو دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑا تھامیڈیا رپورٹس کے مطابق وہ جیل میںاپنے ساتھ موجود بم دھماکوں کے ایک بے گناہ مسلم قیدی کے حسن اخلاق سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ اس نے کریمنل پروسیجر کوڈ ۱۶۴ (164of Cr pc ( کے تحت ایک جج کے سامنے دئے گئے اپنے بیان میں مکہ مسجد حیدرآباد،درگاہ اجمیر شریف،سمجھوتا ایکسپریس دھماکوں میں اپنی شمولیت کا اعتراف کیا تھا۔سوامی نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ستمبر ۲۰۰۶ میں مالیگاؤں کی حمیدیہ مسجد،بڑا قبرستان اور مشاورت چوک میں ہوئے بم دھماکے بھی ہندو انتہا پسندوں کی کارستانی تھے۔سوامی نے مزید کہاتھا کہ اس تمام سازش میں آر ایس ایس کے لیڈر اندریش کمار بذات خود شامل تھے۔سوامی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ اس اعتراف جرم کے بعد اسے سزائے موت بھی ہو سکتی ہے لیکن اسے اقرار جرم کرنا ہے کہ یہ اس کے ضمیر کی آواز ہے تاکہ بے قصوروں کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔اسی طرح اس نے کاروان میگزین کو دئے گئے اپنے انٹر ویوز میں،اس کی اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ کی گئی دہشت گردی میں اپنے آپ کو ہندوستان کی سب سے بڑی تہذیبی اور سماجی تنظیم بلکہ اپنے آپ کو ملک کی تہذیب کا ٹھیکیدار اور دیش بھکتی کا سر چشمہ کہنے والی تنظیم آر ایس ایس کے رول کی بھی نشاندہی کی تھی ۔سوامی نے اس انٹر ویو میں ۲۰۰۵ میں گجرات کے ڈانگس میں ہوئی ایک میٹنگ کا ذکرکرتے ہوئے کہا تھا کہ اندریش کمار اورسنگھ کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت جو اس وقت آر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری تھے اسیمانند اور اس کے ساتھی سنیل جوشی سے ملے تھے جہاں سنیل جوشی نے انہیں مختلف مسلم نشانوں پر بم دھماکے کرنے کا اپنا منصوبہ بتایا تھا اوردونوں آر ایس ایس لیڈران نے اس منصوبہ کو منظوری دی تھی اور بھاگوت نے اسیمانند سے کہا تھا ’تم سنیل کے ساتھ کام کرسکتے ہو ،ہم اس میں ملوث نہیں ہوں گے لیکن اگر تم یہ کررہے ہو تو ہمیں اپنے ساتھ سمجھو۔‘ حالانکہ بعد میں سوامی جی عدالت میں دئے گئے اپنے اقبالیہ بیان سے بھی مکر گئے تھے اور ان کے انٹرویو پر مشتمل کاروان میگزین کے مضمون کو بھی جھوٹ کا پلندہ کہا گیا تھا اور ان کے وکیل نے دعویٰ کیا تھاکہ ان کے موکل (سوامی اسیمانند ) نے انکار کیا ہے کہ اسنے اس طرح کا کوئی انٹرویو دیا ہے۔لیکن میگزین نے اپنی بات کے ثبوت کے طور دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اس انٹر ویو کے آڈیو ٹیپس جاری کر دئے تھے۔ لیکن اس کی بھی کسی آزادانہ انکوائری کی کوئی خبر نہیں ،نہ سوامی جی کے انٹر ویو کے مشمولات کی انکوائری ہوئی اور نہ ہی ان کے ذریعہ بتائے گئے دگجوں کی کوئی انکوائری ہوئی۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی سشیل کمار شندے وزیر داخلہ تھے جنہوں نے ہندو دہشت گردی کا اقرار کیا تھا لیکن بی جے پی اور اس کے حلیفوں کے احتجاج کے بعد توبہ بھی کر لی تھی۔ اس حکومت کے پاس سنگھ کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی جرت نہیں تھی اور اب تو حکومت ہی سنگھ کی ہے تو اب جرأت تو بہت دور کی بات ہے ،کارروائی کا سوال ہی سرے سے ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ اجمیر بلاسٹ کیس میں عدالت نے جہاں سوامی اسیما نند کو بری کیا وہیں دوسرے تین ہندو افراد کو مجرم قرار دے کر مانو ’ہندو دہشت گردی ‘ کا اقرار بھی کیا ہے ۔