آئی ایم اے مالیاتی ادارے کا گھوٹالہ منظر عام پر،ہیرا گولڈ پر بھی نظر
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی (معیشت نیوز)بنگلور میں دوگنا منافع دینے کی آڑ میں غیر قانونی مالیاتی ذخیرہ اندوزی نےآئی مانیٹری ایڈوائزری (آئی ایم اے)کے گھوٹالے کو بےنقاب کر دیا ہےجبکہ ادارے کے سربراہ محمد منصور خان انفوریسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی گرفت میں آچکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق حلال تجارت،حلال سرمایہ کاری کی آڑ میں بنگلور کے دین پسند گھرانوں کو ٹارگیٹ کرکے دوگنا منافع دینے والے منصور علی خان اس وقت حکومت کی نظروں میں آگئے جب وہ ۴۵کروڑ روپئے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا میں ٹیکس سے چھوٹ حاصل کرنے کے لئے جمع کرنے پہنچے۔
۸نومبر کے بعد جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ سو اور ہزار روپئے کے نوٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا ان لوگوں میں تشویش کی لہرعام ہوگئی تھی جن کے پاس کثیر تعداد میں نقدرقم پڑے ہوئے تھے۔
منصور علی خان بھی انہیں لوگوں میں تھے جنہوں نے دوگنا منافع دینے کی آڑ میں عوام کا پیسہ لیا تھا اور اپنی جیولری کی دکان کھول دی تھی۔لیکن نوٹ بندی کے بعد جب وہ مختلف بینکوں میں ۴۵ کروڑ روپئے جمع کرنے پہنچے توانفوریسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی نظر میں آگئے۔

انکم ٹیکس کی چھاپہ ماری میں یہ راز فاش ہو ا کہ ۲۰۱۴ میں قائم کردہ کمپنی آئی مانیٹری ایدوائزری دراصل عوام سے حلال تجارت اور حلال سرمایہ کاری کے نام پرسرمایہ وصولتی تھی اور ۴۰سے ۶۰ فیصد سالانہ منافع پر لوگوں کو پیسے ادا کرتی تھی طریقہ یہ تھا کہ جو نئے سرمایہ کار ان کے جھانسہ میں آتے تھے ان کی رقم پرانے سرمایہ کاروں کو دے کر اپنی ساکھ بنائے رکھی جاتی تھی۔
مقامی انگریزی اخبار بنگلور مرر اور مقامی اردو اخبارات کے مطابق جب انکم ٹیکس محکمہ نے شیواجی نگر میں واقع آئی ایم اے کی طرف سے چلائے جارہے جیولری کی دکان پر چھاپہ ماری کی تو پتہ چلا کہ کمپنی تقریباً سو کروڑ کی سرمایہ کاری کروا چکی ہے اور بغیر کسی قانونی ادارے کے عوام کا پیسہ وصولتی رہی ہےجبکہ ملٹی اسٹوری دکان میں تقریباً ۱۲سو کلوگرام کے سونے کی جویلری موجود ہے۔فی الحال جن لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہے ان کی لسٹ بھی ڈپارٹمنٹ نے ضبط کر لیا ہے اور ممکن ہے کہ ان سرمایہ کاروں سے بھی تفتیش ہو۔
واضح رہے کہ عوامی سرمایہ کاری کے لیے حکومت نے قواعد وضع کئے ہیں جبکہ ریزر و بینک آف انڈیا کے قواعد کی روشنی میں بھی یہ جرم ہے۔انکم ٹیکس محکمہ کے افسران نے مقامی میڈیا سے کہا کہ ’’جن لوگوں نے انکم ٹیکس بچانے کے لیے یہاں سرمایہ کاری کی تھی ہم نے ان کی لسٹ بھی حاصل کر لی ہے جبکہ سو کروڑ کی سرمایہ کاری کی بات سامنے آئی ہے۔لہذا ۲۰۱۴سے چلنے والا سرمایہ کاری گھوٹالہ اب بے نقاب ہوگیا ہے‘‘
جب معیشت نے آئی ایم اے کی آفس پر فون کرکے اس سلسلے میں دریافت کرنا چاہا تو کسی نے فون اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔حقیقت یہ ہے کہ ممبئی میں بھی آئی ایم اے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔
آئی ایم اے پر کارروائی کے بعد ممبئی میں سرگرم ہیرا گولڈ پر بھی نظریں مرکوز ہوگئی ہیں۔ہیراگولڈ بھی کئی گنا منافع پر عوامی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور حلال سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ادارہ معیشت نے ہیرا گولڈ کے حج عمرہ ٹورس کےذریعہ ہوئی بدعنوانیوں پر جب ہیرا گروپ کی مالکن عالمہ نوہیرا شیخ سے ملاقات کی تھی اور تفصیل سے انہیں اس مسئلے پر آگاہ کیا تھاتو انہوں نےاس کے بعد ہی اپنی حج ٹورس سروسیز بند کردی تھیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر اورپارسولی کارپوریشن کے سی ایم ڈی ظفر سریش والا کہتے ہیں’’سرمایہ کاری کے معاملے میں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ High return high risk,low return low risk,اگرآپ نے لالچ میں آکر ایک روپئے کی چیز کو ۵۰ پیسے میں خریدا ہے تو یقیناً اس میں کوئی خرابی ضرور ہوگی،جب بینک ۸فیصد سے زیادہ منافع دینے سے قاصر ہے تو کوئی ادارہ ۴۰ فیصد اور ساٹھ فیصد کیسے دے سکتا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ظفر کہتے ہیں’’گجراتی میں مقولہ مشہور ہے کہ جہاں لالچی لوگ موجود ہوںوہاں دھوکے باز بھوکے نہیں مر سکتا ہے۔لہذا جو لوگ بھی ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں بنیادی طور پر وہ لالچی ہی ہوتے ہیں۔شاردا چٹ فنڈ کے بعد تو لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ نبی ﷺ کی حدیث کہ’’ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا ‘‘اس پربھی لوگ عمل نہیں کر رہے ہیں۔‘‘