آئےجانیںممبراکےرفاہی ادارے’’تنظیم والدین ‘‘کے بارے میں

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
مسلم اکثریتی شہر ممبرا میں سیکڑوںایسی تنظیمیں مل جائیں گی جنہیں ’’ملّی سوداگر‘‘کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوگا لیکن اسی شہر میں ایسےلوگوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی جو شہرت و ناموری سے دور خالصتاً رضائے الٰہی کے لئے اپنا قیمتی وقت قربان کر رہے ہیں۔ممبرا کی مصروف ترین سڑک سے جیسے ہی آپ تنور نگر کی طرف اتریں گے دو تین دکانوں کے بعد ہی ایک آفس ایسی نظر آئے گی جہاں بلا روک ٹوک آنے جانے والوں کی بڑی تعداد دکھائی دے گی۔ ان آنے جانے والوں میں ایسے طلبہ و طالبات کو دیکھنے کا موقع ملے گا جن کی متلاشی نگاہیں آفس میں موجود کتابوں میں کچھ تلاشتی نظر آئیں گی۔
دراصل ۱۹۹۸ میں بنی ’’تنظیم والدین‘‘کا خاص مقصد یہ تھا کہ ایسے بچوں کو تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں جو غربت و پسماندگی کی وجہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کر دیتے ہیں۔اسی نیک مقصد سے جب کام کا آغاز ہوا تو علاقے بھر میں ایسی شہرت ہوئی کہ ہر آدمی اس کام کو اپنا کام محسوس کرنے لگا۔
ممبرا دیوی روڈ پر بارہ برس سے تنظیم میں بحیثیت ٹیچر کام کر رہی شیخ فریدہ عارف معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں’’جن بچوں کو کچھ بھی نہیں آتا وہ جب ہمارے یہاں آتے ہیں تو دینی تعلیم کے ساتھ قرآنیات واخلاقیات کا درس پاتے ہیں۔اسلام کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ قرآن کا ناظرہ ،احادیث مبارکہ کی روشنی میں اخلاقی پہلو کا درس دیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بچوں کے اندر خواطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین بھی ٹیچر کے گھر پر آتے ہیں اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں جس کے حل کے لیے حسب سہولت ہم کوششیں کرتے ہیں‘‘۔

درجہ ہفتم کا طالب علم شاداب حسین شاہ محمد ذاکر جسے درجہ ہشتم میں داخلہ لیناہے وہ مذکورہ تنظیم سے کتابوں کی امداد لینے کے دوران کہتا ہے ’’میں نے درجہ ہفتم کے لئے تنظیم کی جانب سے چلائے جا رہے ٹیوشن کلاسیز سے استفادہ کیا ہے،میرے والدین کی اتنی استعداد نہیں کہ وہ میرے تعلیمی مصارف برداشت کر سکیں لہذا تنظیم نے جو مدد کی ہے میں ا س کا مشکور ہوں‘‘۔پانچویں جماعت کا طالب علم دلشاد جمال الدین خان معیشت سے کہتا ہے ’’میرے والد بھنڈی بازار میں ہاتھ گاڑی چلانے کا کام کرتے ہیں جبکہ تنظیم نے ہر ہر قدم پر میری مدد کی ہے ،دلشاد کی طرح غفران ابراہیم شیخ بھی پانچویں جماعت کا طالب علم ہے جس کے والد حجامت(بال) بنانے کا کام کرتے ہیں۔وہ معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے ’’میرے والد کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ میرے تعلیمی اخراجات برداشت کر سکیں لہذا ’’تنظیم والدین ‘‘کی جانب سے جو کتابیں میسر آتی ہیں وہ میرے لیے ایک بڑا سہارا ہیں‘‘۔ معراج الدین نسیم الدین خان جس کے والدٹرک ڈرائیور ہیں،اس کی داستان بھی مذکورہ بالا طالب علم جیسی ہی ہے ۔تقریباً ۱۵لاکھ کی آبادی والا شہر ممبرا مسلم اکثریتی علاقہ ہے ،جہاں غریب و پسماندہ خاندان کی بڑی تعداد آباد ہے۔ جس میں صاحب حیثیت گھرانوں کی بھی گنی چنی تعداد بستی ہےلیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ غریب و پسماندہ لوگوں کی مدد کے لیے بیشترمڈل کلاس گھرانے سامنے آتے ہیں جبکہ متمول لوگ مجرا و مشاعرہ میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں’’تنظیم والدین‘‘سے وابستہ جمال الدین شیخ کہتے ہیں’’ہم نے سب سے پہلے یہ کام رفاہ عام یونائیٹڈ فورم (Peoples Welfare United Forum ) کے تحت شروع کیا تھا جسے بعد میں ’’تنظیم والدین ‘‘کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔پہلے ہمارے یہاں ۲۵ استاد و استانیاں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے یہ تعداد گھٹ کر۱۵ہوگئی ہے۔گذشتہ برس تقریباً تین ہزار طلبہ و طالبات نے استفادہ کیا تھا جنہیں ہم نے کتابوں کے ساتھ تعلیم سے وابستہ بنیادی سہولیات فراہم کی تھیں۔‘‘جمال شیخ معیشت سے کہتے ہیں’’ہم ممبرا و کوسہ کے بڑے اسکولوں میں کونسیلنگ کا پروگرام بھی منعقد کرتے ہیں جس میں ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم بچوں کو تعلیم کی طرف ایسے آمادہ کریں کہ وہ پوری دلجمعی کےساتھ تعلیم حاصل کریں۔غریب و پسماندہ گھرانوں کے بچوں کے اندر جب کانفیڈنس ڈیولپ کیا جاتا ہے تو یہ بچے آگے چل کر بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں‘‘۔جمال کہتے ہیں’’ہمارے اس سفر کو کامیاب بنانے میں ان اداروں کی خدمات کا بھی بڑا دخل ہے جو ہماری سفارش پر غریب بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں ،آکسفورڈ کوچنگ کلاسیز(Oxford Coaching Classes ) اور ایکسیلنس کوچنگ کلاسیز(Excellence Coaching Classes ) کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ان اداروں نے ہماری سفارش پر بیشتر بچوں کو یا تو مفت میں کوچنگ فراہم کی ہے یا پھر آدھی فیس معاف کردی ہے۔یقیناً اللہ کےفضل و کرم سے ان جیسے اداروں کا ساتھ ملتا رہا ہے تبھی ہم بہتر خدمات انجام دینے میں کامیاب ہو سکے ہیں‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ادارے سے صرف غریب و پسماندہ گھرانے کے بچے ہی استفادہ نہیں کرتے بلکہ متمول گھرانے کے وہ بچے بھی ان کی آفس پر آکر ان کتابوں کو حاصل کرتے ہیں جو مارکیٹ میں ختم ہوچکی ہوتی ہیں۔جمال شیخ کے مطابق’’ NEET, JEE, ,Main-IIT,AIPMTمیڈیکل ،لاء،مینجمنٹ جیسے اکزامس کی تیاری کے لیے بھی بچے ہم سے رجوع کرتے ہیں چونکہ یہ کتابیں مہنگی ہوتی ہیں لہذا اچھے گھرانوں کے بچے بھی ہمارے دفتر آتے ہیں اور اسٹڈی مٹیریل لے جاتے ہیں‘‘۔ سوپر وائزر فہمیدہ مکری،شاہدہ شیخ،شیریں ناز کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے جمال کہتے ہیں’’ان استانیوں کی خدمات بھی اہم ہیں انہوں نے اپنا قیمتی وقت دے کر اس ادارے کو اس قابل بنایا ہے کہ آج سماج میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ اپنی امداد ہم تک پہنچاتے ہیں۔‘‘
تنظیم سے وابستہ اکرم خان کہتے ہیں’’ہمارے یہاں لوگ اپنی پرانی کتابیں دے جاتے ہیں جبکہ وہی کتابیں ہم دوسرے غریب بچوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض بچے جب کتاب لینے آتے ہیں اور انہیں مطلوبہ کتاب نہیں ملتی تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں لیکن پھر جب ہم کسی صورت اس کاانتظام کرتے ہیں تو خوشی کے کلمات ایسے ادا کئے جاتے ہیں کہ خود ہمیں بھی فرحت و انبساط محسوس ہوتا ہے‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب گھروں کے استعمال شدہ کپڑے تنظیم والدین کے دفتر آتا ہے تو اچھے کپڑے ممبراکےان مدارس کے حوالے کردیےجاتے ہیں جہاں یتیم و نادار طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ پرانے کپڑوں کو فروخت کرکے جو پیسےملتے ہیں اس کا استعمال نئی کتابوں کی خریداری یا پھر غریب بچوں کے اسکول یونیفارم کی خریداری پر صرف کیا جاتاہے‘‘۔