ڈیجیٹل انڈیا. رام راج اور بھگوائیت!!قلندر کی بات

ملک میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے بھگوا آتنک واد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھولے بھالے نوجوانوں کو دھرم کے نام پر استعمال کرنے کی سنگھی کوشش
ملک میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے بھگوا آتنک واد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھولے بھالے نوجوانوں کو دھرم کے نام پر استعمال کرنے کی سنگھی کوشش

متین خان (چیف اڈیٹر پیغام میڈیا )
بھارت میں انسانوں کے مارنے کی آزادی ہے گائے مارنے پر عمر قید ہے…..ہندو ثقافت عام کی جارہی ہے مسلم پرسنل لا پرعمل مشکل بنا یا جارہا ہے..مسلم عورتوں کی تعلیم .روزگار وغیرہ کی فکرنہیں صرف تین طلاق پر سارے مسلمانوں کا وکاس کیا جارہاہے ۔
مودی جی ڈجیل انڈیا اور اسمارٹ سٹی بنانے کے ساتھ یوروپ کی یہ خوبیاں بھی اپنا لیں آپ ابھی بھی ذ ہنی طور پرصلیبی جنگوں کے زمانے میں کھڑے ہیں اب مغربی سماج چرچ کے تابع نہیں رہا. اب وہاں پر چرچ کا کردار برائے نام باقی ہے. اب وہاں پر مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہوتی۔
آج بھی مغربی معاشرہ مکمل اور مثالی نہیں ہے۔ یہاں بہت سی قباحتیں ہیں بے شرمی اور فحاشی کے ساتھ کئی ناہمواریاں بھی ہیں۔ تمام برائیوں کے باوجود اگرہم تقا بلی جائزہ اپنے سماج سے لیں توحیرت انگیز صورت حال سامنے آتی ہے۔
یوروپ کا جدید نظام انسان کو بے خوف جینے کی آزادی دیتا ہے۔ خوف .رشوت،شفارس اور کرپشن یہاں سے سینکڑوں نہیں ہزاروں گنا کم ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق ہے لیکن معاشی سماجی تضاد کی شکل میں سامنے نہیں آتا۔ بسا اوقات کروڑپتی اور عام فیکٹری مزدور کو یکساں خوراک . پوشاک اور رہائش رکھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
وہاں غربت بھی ہے۔ لیکن یہ صرف غربت ہے بیماری یا ذلت نہیں وہاں غربت کے سبب لوگ بھوکے نہیں سوتے۔کوئی سردی میں کمبل اور سوئٹر کے بغیر نہیں مرتا۔ علاج میسر نہ ہونے کے سبب بیمار دم نہیں توڑتا. کینسر جیسے مہنگے علاج کے لیے چندے کی اپیلیں نہیں کرنی پڑتیں۔ غریب کا بچہ غربت کے سبب اعلی تعلیم سے محروم نہیں کیا جاتا. انصاف سبھی کے لئے یکساں میسر ہے۔ جو ملزم اپنی صفائی پر آنے والے اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے ان کی صفائی پر پورا خرچ سرکار برداشت کرتی ہے. اس میں عیسائیت یا چرچ کا کوئی کردار نہیں ہے . یوروپ میں ریاستیں اور قوانین مکمل طور پرسیکولر ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں ہر چیز مذہب سے شروع ہو کر مذہب پر ختم ہو تی ہے۔صوبوں اور سڑکوں اور شہروں کے نام مذہبی ہیں اور جو مذہی نہیں ہیں انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے قوانین پر ہندوازم کی بالادستی قائم کی جارہی ہے .
تعلیم اور ثقافت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں امیر اور غریب کے درمیان فرق صرف معاشی نہیں سماجی . نفسیاتی اور مذہبی بھی ہے۔
ہمارے یہاں پر موت و پیدا ئش کے سرٹیفیکیٹ لینے سے لیکر بیمارکوہسپتال میں داخلے کے لیے رشوت اورشفارس کی ضرورت پڑتی ہے۔ غریب اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ صوبوں میں مردے بیچنے کی منڈی لگتی ہے اسے مردے بیچنے کا قانونی حق حاصل ہے
ان بے شمار ناہمواریوں کو پس پشت ڈال کر ڈجیٹلٹ انڈیا اور اسٹمارٹ سٹی کی کوشش کہیں مارڈن رام راج کی تیاری تو نہیں ہے.
اگر یہ رام راج بنانے کی تیاری نہیں ہے تو کیوں قانون پر صرف ایک ہی مذہب ہندتوا کا رنگ چڑھرایا جارہا ہے..
آخر کیوں اسلام یا عیسائ مذہب اپناتے ہی شیڈول کاسٹ کا رزرویشن قانونی طور منسوج ہوجاتا ہے جبکہ سکھ ،بودھ، جین یا ہندو بننے پر زرویشن قانونی طور برقرار رہتا ہے .
مودی جی ڈجٹل انڈیا بنانے کے ساتھ تمام مذہب اور قوموں کے لئے کمفٹیبل انڈیا بنائیے اسکے بعد انڈیا یوروپ سے برابری کے قابل ہوگا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *