ڈراپ آئوٹس بچوں کو نئی پہچان دیتا ہے ماہم کایونائیٹڈ وے چیریٹبل ٹرسٹ

ڈاکٹر سید خورشید حسین ٹرسٹ کے بچوں کے ساتھ جبکہ یوسف رتنسی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے (تصویر : معیشت )
ڈاکٹر سید خورشید حسین ٹرسٹ کے بچوں کے ساتھ جبکہ یوسف رتنسی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے (تصویر : معیشت )

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی کے ماہم میں واقع حضرت مخدوم علیؒ ماہمی درگاہ جاتے وقت آپ جیسے ہی ایس وی روڈ سے گلی کی طرف مڑیں گے اس سے قبل ہی ایکسس بینک کے بالمقابل یو نیائیٹڈ وے چریٹبل ٹرسٹ کی آفس نظر آجائے گی۔مصروف شاہراہ سے متصل مذکورہ ٹرسٹ میں صبح سے ہی انتہائی گہما گہمی کا عالم رہتا ہے ۔ بچے اور بچیوں کواخلاقی تعلیمات کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جا رہی ہوتی ہے وہیں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو باحوصلہ بنانے کے گُر سکھائے جا رہے ہوتے ہیں۔
دراصل یہ ۱۹۹۵؁ کے اوائل کی بات ہے کہ جب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے اپنے علاقے کے پسماندہ طبقات کی ترقی کا ایک خاکہ ترتیب دیا ۔انہیں یہ درد ستائے جا رہا تھا کہ باندرہ ،ماہم اور اس کے اطرف میں بسی جھوپڑ پٹیوں میں پلنے والے بچے تو بڑے ذہین ہوتے ہیں لیکن تعلیم سے دوری اور بہتر تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سےان کی صلاحیتیں مثبت کاموں کی بجائے منفی کاموں پر صرف ہوتی ہیں ۔لہذا اگر ان کے معاشی مسائل حل کرتے ہوئے اردو میڈیم اسکول کے بچوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم فراہم کر ائی جائےتو ممکن ہے کہ بہتر نتائج سامنے آئیں۔وہ اس بات سے بھی باخبر تھے کہ بسا اوقات بچے اپنی تعلیم اس وجہ سے بھی ادھوری چھوڑ دیتے ہیں کہ والدین بچپن میں ہی انہیں کسب معاش پر مجبور کرتے ہیں اوراوئل عمری میں ہی انہیں ایسی نوکریوں پر مامور کردیاجاتا ہے کہ پھر زندگی بھر وہ اس قعر مذلت سے نکل نہیں پاتے ۔

ریاض یوسف رنتیسی ٹرسٹ کے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہوئے (تصویر : معیشت)
ریاض یوسف رنتیسی ٹرسٹ کے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہوئے (تصویر : معیشت)

لہذا ڈاکٹر سید خورشید حسین،ایڈوکیٹ اعجاز الدین بخاری،زاہدہ بیگم ،نذیر سرگروہ،،سراج الدین بخاری،قاسم رضا،عبد اللہ خان،شیخ نفیس احمد،احمد حسن پٹیل،سشما گھاڑے،عمر بھائی چونا والا،عبد القیوم شیخ،بالا صاحب ٹھاکر جیسے افرادنے سر جوڑ کر بیٹھنا مناسب سمجھا اور پھر یونیائیٹڈ وے چیریٹبل ٹرسٹ کی بنیاد رکھ دی گئی۔اپنے اہداف میں انہوں نے اسکول ڈراپ آئوٹ اسٹوڈنٹس کی کفالت،ایس ایس سی گائڈینس لیکچرس،کمپیوٹر ٹریننگ پروگرام، بقائے باہمی کے لیے عید ملن پروگرام،رمضان میں غریبوں تک ضروریات زندگی پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیااور پھر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ اس نے معاشرے پر مثبت اثرات منتج کرنے لگا۔
ٹرسٹ کے روح رواں مشہور طبیب ڈاکٹر سید خورشید حسین کہتے ہیں’’ ہم نے بہت پہلے علاقے کی مثبت ترقی کے لیے ایک خواب دیکھا تھا ،جس کی تعبیر یہ چاہتے تھے کہ ایک بچہ جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو اسے دوبارہ حوصلہ دیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اور الحمد للہ آج ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوا چاہتا ہے کہ سیکڑوں بچے جنہوںنے تعلیم ترک کردی تھی جب ہمارے رابطے میں آئے تو انہیں زندگی جینے کا حوصلہ ملا اورمختلف چیزوں کی ٹریننگ لے کر آج وہ کامیاب زندگی گذار رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر سید خورشید کہتے ہیں’’جب ہم نے ٹرسٹ کا آغاز کیا تو ہم اس بات کے لیے فکر مند تھے کہ آخر جس شہر میں ہزاروں لوگ سوشل ورک کر رہے ہوں ،تعلیم و تعلم کے باب میں بھی کام کرنے والی سیکڑوں انجمنیں موجود ہوں ،وہاں کونسا ایسا کام کیا جائے کہ ہم دوسروں سے منفرد قرار پائیں۔یقیناً ڈراپ آئوٹ اسٹوڈنٹس کو دوبارہ مین اسٹریم میں لانا ایسا ہی کام تھا جس پر کسی نے بہت زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔وہ بچے جنہیں پڑھائی کا شوق ہے لیکن گھریلو ضررتوں کی بنا پر جب وہ بہتر نہیں کر پاتے تو کلاس میں پچھڑ جاتے ہیں ۔بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ نویں اور دسویں کے بعد والدین انہیں معاشی الجھنوں میں پھنسا دیتے ہیں اور پھر وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کر پاتےحالانکہ انہیں زندگی میں کچھ بہتر کرنے کی خواہش رہتی ہے۔ ہم نے ایسے بچوں کے لیے مذکورہ پلیٹ فارم تیار کیا ہے جہاں وہ اپنی مصروفیات جاری رکھتے ہوئے کچھ ہنر سیکھ کر باہر نکلتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر سید خورشید جنہوں نے زمانے کے اتار چڑھائو کو بہت قریب سے دیکھا ہے کہتے ہیں’’سائنس و ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں ہماری نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جو لوگ ہیں انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔حالانکہ موجودہ زمانے میں بیشتر کام سائنس و ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہیں۔ایسے میں اگر ہم اپنے بچوں کو ان دونوں میدان کا شہسوار بنا دیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باعزت زندگی کے راستے خود ہی کھول دےگا۔چھوٹے سے چھوٹا کام اور بڑے سے بڑا کام آج ان دونوں علوم کو محیط ہے‘‘۔

یونائیٹڈ وے چیریٹیبل ٹرسٹ کی آفس کا بیرونی منظر (تصویر : معیشت)
یونائیٹڈ وے چیریٹیبل ٹرسٹ کی آفس کا بیرونی منظر (تصویر : معیشت)

ٹرسٹ کو اپنی خدمات دے رہے ریاض یوسف رتنسی جنہیں انگلش اسپیکنگ کلاس چلانے پر معمور کیا گیا ہے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ علاقے کے وہ بچے جنہیں انگریزی زبان نہ جاننے کی وجہ سے نوکریاں نہیں مل رہی تھیں اب اس لائق ہیں کہ اچھی کمپنیوں میں ملازمت کر رہے ہیں‘‘۔ مستفید ہونے والے طالب علم اخلاق کی مثال پیش کرتے ہوئے ریاض کہتے ہیں ’’اترپردیش سے تعلق رکھنے والے مذکورہ بچے نے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی تھی لیکن انگریزی زبان ایسی نہیں تھی کہ وہ کہیں ملازمت کر لیتا ،اس نے میڈیکل ریپرزنٹیٹیوکی جاب کے لیے مختلف جگہوں پر درخواست دی لیکن ہر جگہ ناکام ہوتا رہا تقریباً سات بار کی ناکامی کے بعد جب اس نے یونائیٹڈ وے چیریٹبل ٹرسٹ میں انگریزی زبان سیکھنا شروع کیا تو بہت جلد الفاظ و تلفظ پر قابو پالیا اور اب حال ہی میں اسے ۱۴ہزار روپئے کی ملازمت بطور ایم آر مل چکی ہے۔کے ای ایم اسپتال میں ملازمت کر رہی آفرین کا معاملہ بھی ایسا ہی کہ جب اس نے وہاں درخواست دی تو زبان کی وجہ سے منھ کی کھانی پڑی لیکن جب ٹرسٹ میں باقاعدہ کلاسیز کیا تو زبان پر بھی قدرت حاصل ہوگئی اور ملازمت بھی ہاتھ لگ گئی۔‘‘
بطور ٹیچر کام کر رہی زوبیہ کی مثال دیتے ہوئے ریاض کہتے ہیں ’’مذکورہ بچی کو پڑھانے کا شوق تھا لیکن ڈگریوں کے باوجود انگریزی زبان پر قدرت حاصل نہیں تھی ،گوکہ اس نے ایم ایس سی کر رکھا تھا لیکن لوگ ملازمت دینے میں پہلو تہی اختیار کر رہے تھے لہذا جب ہم نے مذکورہ بچی کی تربیت کی اور زبان و بیان سکھایا تو ماشاء اللہ اب وہ بطور استانی خدمات انجام دے رہی ہے۔ناگپاڑہ کے دائود نرسنگ ہوم میں نرس کی خدمات انجام دینے والی شمیم بھی ہماری ہی طالبہ ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ ادارہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ملک و ملت کی تعمیر وترقی میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہےجبکہ علاقے کے پسماندہ اور غریب بچوں کے لیے روشنی کی کرن بنا ہوا ہے ۔لیکن یہ اپنی خدمات اسی وقت انجام دیتا رہے گا جب معاشرے کے دیگر احباب بھی اس کی طرف متوجہ ہوں اور دامے درمے قدمے سخنے اس کی امداد کریں۔یقیناً خیر کے کام میں تعاون نہ صرف اس دنیا میں اجر کا مستحق بناتا ہے بلکہ آخرت میں تو اس کا اجر کئی گنا قرار پائے گا۔کاش کہ ہم اپنی چھوٹی موٹی رقم اس ادارے پر بھی نچھاور کرتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *