عمران اللہ شیخ : تعمیرات کے باب میں صرف نام ہی کافی ہے

 صفا انٹر پرائیزز کے پارٹنر مشہور بلڈرعمران اللہ شیخ اپنی سائٹ آفس میں پروجیکٹ سمجھاتے ہوئے (تصویر:معیشت)
صفا انٹر پرائیزز کے پارٹنر مشہور بلڈرعمران اللہ شیخ اپنی سائٹ آفس میں پروجیکٹ سمجھاتے ہوئے (تصویر:معیشت)

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
نیشنل ہائی وے 4(این ایچ ۴ )پر سفر کرتے ہوئے جب آپ شیل پھاٹا جنکشن پہنچیں گے تو سہیادری پہاڑی سلسلے کو بہت قریب پائیں گے۔نوی ممبئی،کلیان،دیوا ،پنویل سے بل کھاتی سڑکیں جب مذکورہ جنکشن پر ملتی ہیں تو دور دراز کا مسافر حسین نظاروں سے متاثر ہوکر اپنی گاڑیاں کنارے لگا دیتا ہے اورپہاڑ کے دامن میںدور تک کھاڑیوں کو دیکھتاکچھ پل گذارنا باعث فرحت سمجھتا ہے۔
اسی جنکشن سے چند فرلانگ پر صفا انٹر پرائیزز کے پارٹنر مشہور بلڈرعمران اللہ شیخ نے ایک ایسے قطعہ اراضی پر قبضہ جمالیا ہے جو مستقبل میں خوبصورت ہائوسنگ سو سائٹی کی نظیر پیش کرے گااور جنکشن سے گذرنے والوں کو دعوت نظارہ دے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تعمیراتی کمپنیوں میں عمران اللہ شیخ کا نام غیر معروف نہیں ہے ۔نوی ممبئی میں ’’عمار ہائیٹس‘‘ اور’’ لینڈ مارک‘‘ کے مکین آج بھی ان کے تعمیری پروجیکٹس سے مطمئن نظر آتے ہیں جبکہ شیل پھاٹے سے متصل کوسہ کا ’’گرین پارک پروجیکٹ ‘‘اپنی مثال آپ پیش کرتا ہے۔ شملہ پارک کے’’ آشیانہ ہائیٹس اور یونائیٹڈ ہائیٹس‘‘ نے اگر لوگوں کا اعتماد جیتا ہے تو صفا انٹر پرائیزیزکے بینر تلے وہ دوبارہ سیکڑوں گھروں کو آباد کرنے کی انتھک جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔
ساڑھے چار ایکڑ قطعہ اراضی پر فلک بوس عمارتوں کا خواب سجائے عمران اللہ شیخ نے فی الحال ایک ایکڑپر ’’صفا پارک پروجیکٹ‘ کی تیاری شروع کردی ہے۔ انتہائی سخت دھوپ میں جبکہ بلڈرس ایئر کنڈیشن روم سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کرتے انہیں سائٹ آفس کے باہر پروجیکٹ کی نگرانی کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔دراصل عمران اللہ کے لیے کام کی بہتر تکمیل عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
وہ معیشت ڈاٹ اِن سے کہتے ہیں’’تعمیراتی کام میرے لیے صرف روزگار ہی نہیں بلکہ مشن بھی ہے۔ لہذا جب آپ کسی کام کو مشن سمجھ کر کریں گے تو دھوپ کی تمازت ،پیاس کی شدت اور بھوک کا احساس خود بخود کم ہوجائے گا ۔میں نے جن کامیاب پروجیکٹوں پر کام کیا ہے اس کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ بہ نفس نفیس تمام معاملات میں دخیل رہا ہوں اور ایک ایک چیز کا جائزہ لے کر عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی عمارت کو دیکھ کر ہی اس کے کنسٹرکشن کے خد و خال بتا سکتا ہوں‘‘۔اپنی سائٹ آفس سروے نمبر ۲۱۴کے حصہ نمبر ۶پر انتہائی خوبصورت عارضی ایئر کنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر گراہکوں سے وہ ایک ایک نکات پر گفتگو کرتے نظر آجائیں گے لیکن وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ خریدار باہر کے نظارے سے لطف اندوز ہو اور مستقبل کےنقشے کو اپنی نظروں کے خاکے سے دیکھ لے۔
عمران کہتے ہیں ’’میرے اس پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ ساڑھے چار ایکڑ خطے میں ایسی پڑھی لکھی ،ملنسار،وضعدار لوگوں کی آبادی آباد ہوگی جس کی مثال دور تک دی جائے گی۔کیونکہ کارپوریٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے پروفیشنلس،کالج ،یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ،سرکاری ملازمتوں میںشامل افسران کے ساتھ سماجی خدمات انجام دینے والے ایسے احباب سے رابطہ استوار کیا گیا ہے جو مذکورہ خطے کو آئیڈیل سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
ـ’’دراصل ان لوگوں کے لیے مذکورہ علاقہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے محض تین کلومیٹر کی دوری پر اگرمیٹرو ٹرین کا اسٹیشن بن رہا ہے تو متصل ہائی وے پر فلائی اورر کی تعمیر کا پروجیکٹ پاس ہو چکا ہے۔فور ٹریک روڈ جہاں اس پورے علاقے کو کشادگی عطا کرے گا وہیںمجوزہ نیوایئر پورٹ محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوا جنکشن جانے کے لیے اگر پانچ کلو میٹر کا سفر طے کرنا ہے تو ممبرا اسٹیشن پہنچنے میں بھی کم و بیش اتنا ہی وقت لگےگالیکن نوی ممبئی کا راستہ بہت کم وقتوں میں طے کیا جاسکتا ہے اور مختصر مدت میں ایرولی پہنچا جاسکتا ہے۔‘‘
مسلم آبادی سے متصل پہاڑ کے دامن میں بننے والے اس پروجیکٹ پر معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے عمران اللہ کہتے ہیں’’جو بھی نئے پروجیکٹ آرہے ہیں وہاں بجلی اور پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے،ابتداءمیں بلڈرس اپنے اخراجات پر ٹینکرس کا تو انتظام کر دیتے ہیں لیکن جیسے ہی سوسائٹی تشکیل پاتی ہے وہ اپنا ہاتھ اٹھالیتے ہیں نتیجتاً وہاں کے مکین ہی تمام اخراجات کا بوجھ سنبھالتے ہیں اور یہ مستقل سر دردبنا رہتا ہے لیکن اس معاملے میں بھی مذکورہ علاقہ قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے
اور پانی کے کنووں کے ساتھ بورنگ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔بجلی کا کنکشن نوی ممبئی سے آرہا ہے لہذا جس طرح نوی ممبئی میں لوڈ شیڈنگ نہیں کے برابر ہے ویسے ہی اس علاقے میں بجلی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *