ممبئی اردو نیوز نے اچھے بروں کی پہچان کرنا سکھایا ہے:امتیاز احمد

ممبئی اردو نیوز کے منیجنگ ایڈیٹر امتیاز احمد کو معیشت کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض میمنٹو پیش کرتے ہوئے (تصویر:معیشت)
ممبئی اردو نیوز کے منیجنگ ایڈیٹر امتیاز احمد کو معیشت کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض میمنٹو پیش کرتے ہوئے (تصویر:معیشت)

گذشتہ روز ممبئی اردو نیوز نے اپنی اشاعت کا ایک برس مکمل کر لیا ۔ہندوستان میںکسی اردو اخبار کے لیے جسے پروپرائٹر شپ کی بنیاد پر چلایا جارہا ہویقیناً ایک حوصلے بھرا پیغام ہے۔ادارہ معیشت ممبئی اردو نیوز کے منیجنگ ایڈیٹر امتیاز احمد اور ان کی ٹیم کوتہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہے ۔اس موقع پر معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض نےامتیاز احمد کا خصوصی انٹر ویو کیا جسے نذر قارئین کیا جاتا ہے۔
سوال: ممبئی اردو نیوز کی اشاعت سے قبل ممبئی اور اس کے اطراف میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ مذکورہ اخبار بہت جلد اپنی اشاعت بند کر دے گا اور مالی مسائل کا شکار ہوجائے گا لیکن آپ نے بحسن و خوبی سال بھر کا سفر طے کیا ہے ۔اس پورے مرحلے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: اُردوزبان سے تعلق رکھنے والوں کایہ المیہ ہے کہ اگرکوئی شخص اخبار، رسالہ یا کوئی پرچہ شروع کرناچاہتا ہے،یا اُردو کے قارئین کے لیے کچھ کرناچاہتا ہےتو اس کی حوصلہ افزائی کم کی جاتی ہے،اس کے پیروں کو کھینچنے کی کوشش زیادہ۔ہم نے جب اخبار شروع کرنے کاقصد کیا اورشروع کیا توہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔پروپیگنڈہ شروع ہی سے تھا مگرہم نے پوری ٹیم کے ساتھ اپنے کان بند کر کے صرف کام پر توجہ دی اوریہی ہماری کامیابی کی حقیقی وجہ ہے۔عملے کی محنت رنگ لائی،قارئین کاپیارملا اورآج اللہ کے فضل وکرم سے اخبار اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیاہے۔اس پورے مرحلے میں ہم نے صبرکیا اوراپنا کام کیا۔
سوال: میڈیا کا کاروبار عرف عام میں خسارے کا کاروبار ہے ۔باوجود اسکے بہت سارے لوگ روزانہ اس بزنس میں قسمت آزمائی کرتے نظر آجاتے ہیں ۔آپ اس کاروبار کو کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب: یہ سچ ہے کہ میڈیا کاکاروباربالخصوص اردومیڈیا کا عرف عام میں خسارے کاکاروبار ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ چیلنج سمجھ کر اس کاروبار میں آتے ہیں،ان کے مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ میڈیا کے حوالے سے قوم وملک کے لیے کچھ مثبت کام کریں۔یہ کاروبار خلوص چاہتاہے۔
سوال: اردو قارئین کی گھٹتی تعداد نے اردو اخبارات کی اشاعت پر بھی اثر ڈالا ہے جبکہ اشتہارات کے شعبہ میں بھی ویسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی جیسی دوسری علاقائی زبانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔آپ ان مسائل کا کیسے سامنا کرتے ہیں؟
جواب: بلا شبہ اردوقارئین کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ہمارے سامنے یہ چیلنج ہے کہ ہم اردو کے نئے قارئین پیدا کریں۔انشاءاللہ کامیابی ہوگی۔ہم اس کے لیے سوشل سائٹس کابھی استعمال کر رہے ہیں۔ہماری ویب سائٹ بے حد مقبول ہے۔مگریہ سچ ہے کہ قارئین کی تعداد گھٹی ہے اوریہ تشویش کی بات ہے۔اردو والوں کو سوچنا ہوگا،بچوں کو،نئی نسل کو اُردو زبان سے محبت کرناسکھانی ہوگی۔اسی طرح جیسے دوسری علاقائی زبانوں کے بچے اپنی زبانیں پڑھ رہے ہیں۔دوسری زبانوں کے قارئین اپنی زبانوں کے اخبارات خرید کر پڑھتے ہیں،اردووالوں کو بھی یہ عادت بنانا ہوگی۔
سوال: ممبئی اردو نیوز جس کی اشاعت کو محض سال بھر کا عرصہ گذرا ہے لیکن وہ معاصر اخبار کا ہم پلہ قرار پایا ہے ۔آخر مختصر مدت میں کس چیز نے آپ کو سب سے زیادہ تقویت پہنچائی ہے؟
جواب: مختصر مدت میں قارئین کی حوصلہ افزائی سے تقویت پہنچی،قارئین نے اسے پسند کیاہے اورہاتھوں ہاتھ لیاہے۔
سوال: ایک طرف اردو اخبارات کارپوریٹ گھرانوں کی ملکیت قرار پا رہا ہے جبکہ دوسری طرف انفرادی گھرانوں تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: کارپوریٹ گھرانوں کا میڈیا میں آنا کوئی خراب بات نہیں ہے بشرطیکہ وہ ادارتی کام میں دخل نہ دیں اوراخبار کو کسی ایک نظریے کاپابند نہ بنائیں۔ویسے ہندوستان میں ہو یہی رہاہے ،کارپوریٹ گھرانوں نے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر قبضہ کرلیا ہے اورسیکولراقدار کو تج کرکے صرف مودی کے گن گانے پر اپنے صحافیوں کو مجبورکردیا ہے۔اردو کے کچھ اخبارات آج بی جے پی کی بولی بول رہے ہیں۔انفرادی گھرانے بھی ایسی حرکت کر سکتے ہیں لہٰذا ضرورت یہ ہے کہ میڈیا میں چاہے کارپوریٹ گھرانے ہوں یا انفرادی وہ ملک اورعوام کو اہمیت دیں نہ کہ کسی ایسے سیاسی نظریے کو جو ملک اورقوم دونوں کے لیے نقصان دہ ہو۔
سوال: یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اردو اخبارات محض کمیونیٹی مائوتھ پیس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں لیکن وہ کمیونیٹی کی رہنمائی کا کام نہیں کرتے ۔آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: یہ الزام درست نہیں ہے۔اُردو کے اخبارات اگراپنی کمیونٹی کی بات کرتے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے،ہر اخبار اپنی ہی کمیونٹی کی بات کرتاہے۔اردو کے اخبارات پر یہ الزام کہ وہ رہنمائی نہیں کرتے درست نہیں ہے۔آج کے شدید فرقہ وارانہ ماحول میں یہ اردومیڈیا ہی ہے جو کمیونٹی کو اچھے برے کی پہچان کرانے اوراپنا بھلا برا سمجھنے کی ضرورت پر زوردیتاہے۔تعلیمی بیداری اورسماجی بیداری کاکام اردومیڈیا کررہا ہے اورلوگوں تک یہ پیغام بھی پہنچا رہا ہے کہ سیکولر اورجمہوری اقدار ہی میں ملک کابھلا ہے لہٰذا کمیونٹی ان اقدار پر عمل کرنے والوں کا ساتھ دیتی رہے۔
سوال: ممبئی اردو نیوز نے اپنی اشاعت کے سال بھر کے عرصہ میں مہاراشٹر یا مسلم عوام پر کون کون سے مثبت اثرات مرتب کئے ہیں؟
جواب: اس سے بڑا مثبت اثر اورکیا ہوگا کہ اس نے لوگوں میں مطالعے کی عادت ڈالی ہے۔لوگوں کو اپنے بھلے برے کی سوچنے کی جانب مائل کیاہے۔
سوال: اس وقت مین اسٹریم میڈیا جس طرح مسلمانوں کے خلاف صف بستہ ہے کیا اردو کے اخبارات کچھ مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں؟
جواب: اُردو کے اخبارات مثبت کرداراد اکر رہے ہیں۔مین اسٹریم میڈیا مسلمانوں کے تعلق سے سنگھی پروپیگنڈے کاحصہ ہے اردواخبارات اس پروپیگنڈے کا جواب دے رہے ہیں۔
سوال: اردو اخبارات میں سیاست،معاشرت ،یا مذہب و شریعت پر تو گفتگو ہوتی ہے لیکن تجارت ،معیشت اور صنعت و حرفت پر بہت زیادہ مضامین یا خبریں دیکھنے کو نہیں ملتیں آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: یہ سچ ہے،اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردومیں صحافی ٹرینڈنہیں ہیں۔ویسے ماضی کے اُردواخبارات میں تجارت اورمعیشت کے ضمیمے ہوتے تھے۔انشاء اللہ ہم اس کی بھی شروعات کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *