
مولانا محمود مدنی کی قیادت میں وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ملّی ماحول گرم
سوشل میڈیا پر حمایت و مخالفت میں گرما گرم بحث کا آغاز،مسلکی تناظر میں غول بندی شروع ہوگئی
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی،نئی دہلی(معیشت نیوز)جمعیۃ علماء(محمودمدنی گروپ) کے بینر تلے مولانا محمود مدنی کی قیادت میں گذشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات اب مسلمانوں کے بیچ بحث کا موضوع ہے۔سوشل میڈیا پر سرگرم علماء کرام حمایت و مخالفت میں اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں ۔ملی و سماجی خدمت گار بھی شعر و شاعری کا سہارا لے کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں تو کچھ لوگ اسے مولانا محمود مدنی کا راجیہ سبھا کے لئے راہ ہموار کرنے کا پینترا بتا رہے ہیں۔
نئی دہلی میں مقیم یونیورسل پیس فائونڈیشن کے سابق رکن عبد الرب کریمی اپنے فیس بک وال پر لکھتے ہیں۔
کل ہی سے مجھے حفیظ میرٹھی کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے :
مجھے یہ مشورہ خوش حال لوگ دیتے ہیں
ضمیر بیچ دے اپنی خودی کا سودا کر
تھوڑا رک کر وہ دوبارہ لکھتے ہیں
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح
مشہور انگریزی نیوز پورٹل مسلم مرر کے ایڈیٹر سید زبیر احمد لکھتے ہیں
’’ڈائیلاگ ،میٹنگ بری بات نہیں مگر راجیہ سبھا کا راستہ نا ڈھونڈھیں مدنی صاحب!‘‘
جبکہ کسی نے اس روایت کو مشتہر کرنا شروع کر دیا ہے کہ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ علماء اللہ کے بندوں پر رسول کے امین ہیں اسوقت تک جبتک کہ وہ بادشاہوں سے خلط ملط نہ ہوں، اور اگر انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو انہوں نے رسول کے ساتھ خیانت کی، پھر انسے چوکنا رہنا اور علیحدگی اختیار کر لینا( امام حاکم، ابو نعیم، امام دیلمی )‘‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا محمود دریا آبادی ایک شعر کا سہارا لیتے ہوئےلکھتے ہیں
زندگی کا یہ ہنر بھی آزمانا چاہئے
جنگ جب اپنوں سے ہو تو ہار جانا چاہئے
جبکہ مشہور کالم نگار عمر فراہی لکھتے ہیں
جو راز راز ابھی تک ہے ،راز رہنے دو
تعلقات کے کچھ تو جوا ز رہنے دو
خدا کرے نہ کہیں جنگ تھوپ دی جائے
ہماری بستی میں اک چالباز رہنے دو
شعر و شاعری کے ساتھ حمایت و مخالفت میں یہ بات بھی پیش کی جارہی ہے کہ جب یہی کام بریلوی مسلک کے علماء کرتے ہیں تو انہیں کیوں خاطر میں نہیں لایا جاتا اور قوم و ملت کا سوداگر قرار دے دیا جاتا ہے ۔ایک صاحب نے حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مولانا نے مودی کی تعریف کی تو دار العلوم دیوبند کی نظامت سے ہاتھ دھونا پڑا ،آج وہی ٹولہ سر عام ملاقات کر رہا ہے تو کوئی ہنگامہ نہیں؟
واضح رہے کہ گذشتہ روز ہی صدر جمعیۃ علما ء ہند حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں ، ماہرین تعلیم اور دیگر سماجی دانشوروں پر مشتمل جمعیۃ علماء (محمود مدنی گروپ)کے وفدنے وزیر اعظم نریندرمودی سے ان کی رہائش گاہ ۷؍ریس کورس نئی دہلی پر ملاقات کی تھی، یہ ملاقات تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہی تھی ۔ وفد نے وزیر اعظم کو ایک میمونڈم بھی پیش کیا تھا ۔ ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مشترکہ طور سے کہا تھا کہ ہماری میٹنگ مثبت اور قابل اطمینان رہی اور وزیر اعظم نے ہماری تمام تشویشات سے اتفاق کیا ہے ، مولانا محمود مدنی نے کہا تھا کہ طلاق کے موضوع پر بھی انھوں نے ہماری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مسلم سماج کا داخلی معاملہ ہے ، اسے خود ہی اسے حل کرنا چاہیے ۔مولانا محمود مدنی نے بتایا تھا کہ ملاقات سے ہمارا مقصد باہمی رابطے کا دروازہ کھولنا اور ایک ایسے میکانزم کا تعین تھا جس کے ذریعے ہم مستقل مسائل کے بارے میں سرکار سے رابطہ رکھ سکیں تاکہ مسلمانوں کی ملک کی ترقی میں شرکت اور حصہ داری کو یقینی بنایا جاسکے، جس میں ہمیں کامیابی ملی ہے ۔مولانا محمود مدنی نے کہا تھا کہ وزیر اعظم سے تمام مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور تقریبا ہر موضوع پر انھوں نے کھل کر رائے رکھی اور یقین دہانی کرائی کہ سماج دشمن عناصر کے خلاف وہ ذاتی طور سے سنجیدہ ہیں اور اسے پھلنے پھولنے نہیں دیں گے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملاقات ضرورت اور تقاضے کے مطابق ہوئی ہے ، اب ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نے جتنے مثبت خیالات کااظہار کیا ہے ، اتنا ہی بہتر سے بہتر اقدامات کرکے صورت حال کو درست کریں گے ۔اس موقع پر جو میمورنڈم پیش کیا گیا تھااس کا متن یہ تھا کہ
بخدمت عزت مآب وزیر اعظم ہند
اس ملاقات کا بنیادی مقصد حکومت اور اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے درمیان باہمی گفتگو اور افہام و تفہیم کی راہ ہموار کرنا ہے۔ جس کو خود عزت مآب وزیر اعظم نے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘اور ’’میری سرکار، سب کی سرکار‘‘کے نعروں سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہمارا یہ احساس ہے کہ ملک کے اہم بنیادی مسائل باہمی گفتگو کے ذریعے ہی حل کیے جاسکتے ہیں ۔
وطن کے تحفظ ، اتحاد اور ترقی کے لیے قانون کی بالادستی ، سب سے اہم ہے ، کوئی بھی شخص یا تنظیم قانون سے بالاتر نہیں ہے اور قانون کے نفاذ میں کسی طرح کا امتیاز اور جانب داری نہیں برتی جانی چاہیے ۔اسی کے پیش نظرآ پ نے سابق میں تحفظ گاؤکے نام پرائیویٹ گروہوں کے ذریعے قانون ہاتھ میں لینے اور قاتلانہ حملوں کی سرزنش کرکے صحیح پیغام دیا تھا ، لیکن قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔اورحال میں گاؤ کشی کے بہانے انسان کشی کے واقعات نے مسلمان ، دلت اور سماج کے کمزور طبقات میں خوف اور دہشت کی لہر پیدا کردی ہے ۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر اسے نہیں روکا گیا تو اس سے خوف ، مایوسی اور افسردگی پیدا ہو گی جس کے یقیناًسخت منفی نتائج نکلیں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی جسے ہمارے دشمن مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں ، وہ قومی تحفظ،امن واستحکام کے تناظر میں سب سے ا ہم مسئلہ ہے جسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ہم نے ہمیشہ ایسی کوششوں کی مذمت کی ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ قومی سطح پر دہشت گردی ، مذہبی تعصب اور شدت پسندی کے خلاف مسلسل تحریک چلائی ہے ۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانو ں کو بدنام کرنے کے پس منظر میں، آپ نے اسلا م کی امن پسندی اور ہندستانی مسلمانوں کے معتدل نظریہ کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تشدد پسندانہ افکار سے الگ کرکے ان کا وقار بلند کیا ہے۔ہم اس کی تحسین کرتے ہوئے اس عزم کو دوہراتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندستان کے کردار کو قابل تقلید بنائیں گے ۔تاہم دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قانون کے نفاذ میں انصاف کے تقاضوں کی پوری پاسداری ہونی چاہیے تاکہ بے قصور افراد زیادتی کے شکار نہ بنیں ، اس بارے میں سرکاری اداروں کو خاص طور پر محتاط طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔
دیگر فرقوں کی طرح مسلمانوں کے بھی تعلیمی ، سماجی اور معاشی مسائل ہیں ، جن کا اپنی جگہ پر حالات اور تقاضوں کے مطابق حل ہو نا ضروری ہے ۔ ان مسائل کا حل باہمی اعتماد اور خوش گوار ماحول میں ہو نا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے کسی قوم میں مذہب کی بنیاد پر تفریق اور امتیاز کا احساس پیدا نہ ہو سکے اور وطن کے تئیں برابر کی ذمہ داری اور حصہ داری یکساں طور پر سبھی شہری محسوس کریں ، یہی ہمارے محبوب وطن کی پہچان رہی ہے ہم آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ کوئی ایسا طریق کار (Mechanism)متعین کیا جائے جس کے ذریعے ہم مستقل مسائل کے بارے میں آپ کے مقرر کردہ ذمہ داروں سے رابطہ رکھ سکیں تاکہ مسلمانوں کی ملک کی ترقی میں شرکت اور حصہ داری کو یقینی بنایا جاسکے۔
ہم ایک بار پھر آپ کا شکریہ اداکرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ باہمی رابطے اور قربت کا جو آج دروازہ کھولا گیا ہے وہ آئندہ کے لیے مزید راہ ہموار کرے گا او رباہمی تعاون کے ذریعے ہم ملک کی ترقی اور درپیش مسائل کے حل میں مناسب کردار اد ا کرسکیں گے ۔
آپ کا مخلص
( مولانا قاری ) محمد عثمان منصورپوری
صدر جمعیۃ علماء ہند
وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے وفد میں درج ذیل شخصیات شریک تھیں(۱) مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند (۲) مولانا محمود مدنی ، جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند (۳) ڈاکٹر ظہیر آئی کاضی ، صدر انجمن اسلام ممبئی (۴) پی اے انعامدار ، بانی اعظم کیمپس تعلیمی سوسائٹی پونہ (۵) پروفیسر اخترالواسع وائس چانسلر مولانا آزادیونیورسٹی جودھپور (۶) محمد عتیق او ایس ڈی مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور (۷) مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری ، جنرل سکریٹری دینی تعلیمی بورڈ ، جمعیۃ علماء ہند (۸) مولانا حسیب صدیقی خازن جمعےۃ علماء ہند (۹) مولانا محمد قاسم صدر جمعےۃ علماء بہار (۱۰) مولانا حافظ ندیم صدیقی صدر جمعےۃ علما ء مہاراشٹرا (۱۱) مفتی افتخار احمد قاسمی صدر جمعےۃ علماء کرناٹک ( ۱۲) مولاناحافظ پیر شبیر صدر جمعیۃ علماء آندھرا و تلنگانہ ( ۱۳) مفتی شمس الدین بجلی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء کرناٹک ( ۱۴) مولانا بدرالدین اجمل صدر جمعےۃ علماء آسام ( ۱۵) مولانا متین الحق اسامہ صدر جمعےۃ علماء اترپردیش ( ۱۶) مفتی احمد دیولہ نائب صدر جمعےۃ علماء گجرات ( ۱۷) شکیل احمد سید ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ( ۱۸) مولانا نیاز احمد فاروقی رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند ( ۱۹) مولانا عبدالواحد کھتری جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء راجستھان ( ۲۰) مولانا محمد یحیے کریمی صدر جمعیۃ علماء ہریانہ ،پنجاب وہماچل پردیش ( ۲۱) مولانا علی حسن مظاہری جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہریانہ ،پنجاب وہماچل پردیش(۲۲) مولانا معزالدین رکن مجلس عاملہ جمعےۃ علماء ہند ( ۲۳) مولانا قاری شوکت علی رکن مجلس عاملہ جمعےۃ علماء ہند( ۲۴) حاجی سید واحد حسین چشتی انگارہ شاہ سکریٹری انجمن خدام خواجہ صاحب سید زادگان درگاہ شریف اجمیر (۲۵) مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند