میری امی آپ انتظار کیجے ،ہم بھی آتے ہیں

مشفق و مربی بزرگ صحافی عالم نقوی کی مذکورہ تحریر ’’میری امی (تاریخ وفات ۹ مئی ۲۰۰۴ )‘‘آج سے تقریباً بارہ برس قبل ماہنامہ’’ رہنمائے والدین‘‘ ممبئی کے لئے لکھی گئی تھی۔دراصل رہنمائے والدین کی ادارت کرتے ہوئے میں نے ایک سلسلہ ’’بڑوں کا بچپن‘‘شروع کیا تھا جس میں آج کے بڑوں کے والدین کا تذکرہ شامل تھا۔فل اسکیپ کاغذ پر قلم سے تحریر کردہ مضمون کو ٹائپنگ سے قبل میں نے تین بار پڑھا تھا اور ہر بار آنکھیں اشکبار ہوگئی تھیں بلکہ یہ کہوں کہ آفس پر تنہا بیٹھے تحریر کا سہارا لے کر میں رات بھر روتا رہا تھا۔کل جب مذکورہ تحریرروزنامہ ’’اودھ نامہ ‘‘لکھنئومیں دکھائی دی تو عالم نقوی صاحب سے ڈیجیٹل فائل منگوالی اور اسی بہانے ایک بار پھر آنسوئوں کو بہنے دیا ہے۔ادارہ معیشت عالم نقوی کا مشکور ہے کہ انہوںنے اسے ’’معیشت ڈاٹ اِن‘ میںاشاعت کی اجازت دی ہے۔دانش ریاض،منیجنگ ڈائرکٹر معیشت میڈیا)
یوں تو میری امی ،عام ماؤں جیسی ہی ایک ماں تھیں، پھر بھی اُن میں کچھ خاص ضرور تھا ، جو اُنہیں ،اُن کی جیسی دوسری خواتین سے ممتاز بناتا ۔ امی نے کبھی حالات سے شکست نہیں مانی ۔اللہ پر کامل ایمان اور بھروسے کے ساتھ ہمیشہ ان کا مقابلہ کیا ۔ ہم نے ان کی زبان سے کبھی مایوسی کی باتیں نہیں سنیں ۔ انہوں نے کبھی دوسروں کی شکایت نہیں کی ۔ ان لوگوں کی بھی نہیں جو ان کی شکایتیں ہم بھائی بہنوں سے کرتے نہیں تھکتے تھے ۔
گھر کے غسل خانے میں نل کے نیچے کپڑے دھوتے ہوئے انہوں نے ہمیں بچپن میں ایک کہانی سنائی تھی کہ کس طرح ایک ’مشلول ‘ انسان نے ، جو اپنی سنگین نافرمانیوں کے سبب اپنے والدین ہی کی بد دعا کے نتیجے میں اپاہج ہو گیا تھا ،کس طرح اپنی ماں کی قبر پر رو رو کر گڑ گڑا کر ،اللہ سے اپنی صحت کے لیے دعا مانگی ،جو با لآخر مستجاب ہوئی ۔ ہماری تربیت میں ان قصوں کا بڑا دخل ہے جو امی نے ہمیں بچپن میں سنائے ۔ اللہ کی رحمت و رافت کے واقعات ،نبیوں اور ولیوں کے قصے ،صدیقین اور شہدا کی داستان ِ راستان !
امی نے کبھی اپنے بچوں کی توہین نہیں کی ۔کبھی دوسروں کے سامنے ان کی کوئی برائی نہیں بیان کی ۔ کبھی کسی سے ان کی شکایت نہیں کی ۔ کبھی ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا ۔ نفسیات تو ہم نے بعد میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھی ،پھر بھی ’ماہر نفسیات ‘نہ بن سکے،اور محض ایک ’اخبارچی ‘ ہو کے رہ گئے ،لیکن امی سے بڑھ کے ماہر نفسیات نہ پایا جبکہ انہوں نے اردو کی چند ابتدائی کتابوں اور قرآن کریم کے سوا اور کچھ نہیں پڑھا تھا ۔ ان کا گھر ہی ان کے لیے مدرسہ ،اور اسکول تھا اور ان کے والد ماسٹر نذیر احمد اور ماموں مولوی نجم ا لدین حیدر اُن کے استاد ۔
نام تو ہمارے والد کا ’ کاظم ‘تھا ،لیکن ’’کظم ِ غَیض ‘‘(غصے کو ضبط کرنے )کا ملکہ ہماری امی کو اللہ نے عطا کیا تھا ۔ ہم نے اُنہیں غصہ کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں ، نہ کبھی اُنہیں کسی سے لڑتے دیکھا ۔ حالانکہ دو ایسی پڑوسی خواتین سے بھی پالا پڑا ، جنہیں ،ستانے ،اذیت دینے ،کوسنے ،گالی دینے اور غریب و کمزور پڑوسیوں کے چھوٹے بچوں کو مارنے پیٹنے کا روایتی ملکہ حاصل تھا ۔لیکن ،کیا مجال جو امی نے کبھی پلٹ کے جواب دیا ہو یا اپنے بچوں کو جواب جواب دینے پر اُ کسایا ہو ۔ نہ انہوں نے کسی کو بد دعا دی ،نہ کوسا ۔ گالی دینے اور مارنے پیٹنے کے الفاظ تو ان کی لغت ِ زندگی میں جیسے تھے ہی نہیں ۔ بات بے بات اپنے بچوں کو دھُنک کر رکھ دینا ،یا دوسروں کا غصہ اپنےبچوں پر اُتارنا ، اُن کی دنیا کے کام نہیں تھے ۔
نام اُن کا ’عالیہ‘ (خاتون ) تھا ! ہم نے بھی انہیں ہمیشہ ’’عالیہ ‘‘ ہی پایا ! کبھی کوئی کم تر درجے کی بات یا کوئی نچلے درجے کا عمل اُن سے چھو کر بھی نہیں گیا ۔
وہ ہمارے والد (سید محمد کاظم نقوی مرحوم ) کی دوسری بیوی اور اُن کے تین بچوں کی ماں بن کر گھر میں آئی تھیں ۔ لیکن یہ تو ہمیں بڑے ہونے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی صاحب ،بجیہ اور بھیا ،امی کے نہیں ، ’’امی مرحومہ ‘‘ کے بچے ہیں ۔ہم نے پھر ہمیشہ انہیں (ر ُقیہ خاتون بنت سید علی عباس کو) ’امی مرحومہ ‘ ہی کے نام سے یاد کیا ۔ اب تو میری امی بھی اپنے اللہ کے پاس جا چکی ہیں ، اُنہیں کیا کہیں ؟ ہم نے اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا ہوتا تو شاید یقین آجاتا ۔ ابھی تو بس یہی لگتا ہے کہ وہ لکھنؤ میں گھر پر ہیں ۔ اپنے بستر پر لیٹی آیت ا لکرسی پڑھ رہی ہیں ، اپنی کرسی پر بیٹھی نماز میں مشغول ہیں (جس کا قضا ہونا ہمیں تو یاد نہیں ) اور ہم جب لکھنؤ جائیں گے تو اس سے پہلے کہ ہم اندر کمرے تک پہنچیں ، وہ خود ہی اپنے پوتے پوتیوں کے سہارے چل کر آدھے صحن تک آجائیں گی ،اپنے پردیسی بیٹے کو گلے سے لگانے کے لیے ۔
اللہ نے امی کو بھی کثرت اولاد سے نوازا ۔ چار بیٹے اور تین بیٹیاں دیں لیکن جب شوہر کا سایہ سر سے اُٹھا تو بڑا بیٹا صرف تیرہ سال کا تھا ،سب سے چھوٹا آٹھ مہینے کا گود میں ، اور درمیان میں تلے اوپر کے پانچ بچے !
ایک مکان تھا وہ بھی کرائے کا ۔ بھائی ابا مرحوم (محمد کاظم ابن ڈاکٹر محمد رضا نقوی )کا پورا سرمایہ حیات بس ان کی اولادیں ہی تھیں۔مال دنیا سے کچھ جمع نہ کیا ۔جو تھا وہ ان کی سال بھر کی بیماری (کینسر کے علاج ) اور اس سے پہلے کی قریب ایک سال کی بیکاری کے زمانے میں صرف ہو چکا تھا ۔ لیکن ہم نے بھائی ابا کی میت پر امی کی زبان سے یہ بین نہیں سنے کہ ’’ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جاتے ہیں ‘‘۔نہ اس کے بعد کبھی ان کی زبان سے کلمہ شکر کے سوا کچھ اور سنا ۔ نہ کوئی شکایت ،نہ کوئی شکوہ ،نہ قسمت سے ،نہ زمانے سے ،اور اللہ سے تو ہر گز نہیں ’’شکر ہے مالک کا ‘‘۔’’یا اللہ تیرا شکر ہے ‘‘ ۔ اللہ شاہد ہے کہ ان کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ نہیں سُنا ۔
بھائی ابا زندہ تھے تو وہ گھر سے کبھی پیدل نہیں نکلیں ۔ پڑوس کے صرف اُن گھروں کی تقریبات میں جانے کی اجازت تھی جن کے دروازے اور کھڑکیاں ایک دوسرے کے آنگنوں یا دالانوں میں کھلتے تھے۔سڑک کے اُس پار نوابو صاحب کے مکان میں صرف اس لیے کبھی جانے کی اجازت نہیں ملی کہ ان کے گھر سے ہارمونیم اور طبلے پر ریاض کی آوازیں آیا کرتی تھیں ۔ لیکن۔جب عدت کے چار مہینے دس دن پورے ہوئے تو پتہ چلا کہ اب اگر گھر سے باہر نہیں نکلیں تو بچے فاقے بھی کر سکتے ہیں ۔
بھائی ابا کی زندگی میں جب وہ اپنے میکے جاتیں تو پہلے ،یکہ ،تانگہ ،اور بعد میں رکشہ ،دروازے پر لگتا تھا ۔ہُڈ آگے کھینچ کر پردہ باندھا جاتا ،دو بچے گھر کے پھاٹک اور رکشے کے درمیان دونوں طرف چادریں تان کر کھڑے ہوتے ،تب امی پورا نقاب اوڑھے ہوئے اس میں سوار ہوتیں ۔
وہی سیدانی پہلی بار بغیر کسی سواری کے اور بغیر کسی ہٹو بچو والے اہتمام کے ،گھر سے باہر نکلی ،تا کہ ،محلے کے کسی گھر میں کسی بچے کو ’یسر نا القرآن ‘ پڑھائے ،کسی کی رضائی میں دھاگہ ڈالے ،کسی کا غرارہ کاٹ کر سیئے ،کسی بچی کو مولوی اسمٰعیل میرٹھی کا قاعدہ یا اردو کی پہلی کتاب کا درس دے ،کسی گھر میں ہاتھ کی چکی پر کچھ گیہوں یا چنا پیس دے اور اس کے بدلے میں جو اٹھنی ،چَوَنی یا روپئے دو روپئے مل جائیں تو گھر میں چولھا جلے ۔ اور اس سے کچھ بچے تو دوسری ضرورتیں بھی پوری ہونے کی سبیل نکلے ۔
ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ امی صبح کو بغیر دودھ کی چائے کے ساتھ رات کی بچی ہوئی یا کچھ سوکھی روٹی بچوں کو کھلا کر گھر سے نکلی ہیں تو گرمیوں کے طویل دنوں میں جب شمال کے میدانی علاقوں میں لو کے جھکڑ چلتے ہیں اور دن کا درجہ حرارت ۴۵ ۔۴۶ ہو جاتا ہے ، وہ سہ پہر کے قریب واپس آئی ہیں ، اس حال میں کہ اُن کے ہاتھ میں جو تھیلی ہے اُس میں صرف چوکر ہے (گیہوں کے آٹے کو چھاننے کے بعد بچ رہنے والی بھوسی ) جسے بڑے جَتَن سے روٹی کی طرح تھوپ کر انہوں نے بچوں کو کھلا دیا ہے ۔ پتھر کی سل پر موٹی موٹی پسی ہوئی چند لال مرچوں اور نمک کے ساتھ !
بڑے بیٹے نے ساتواں پاس کر کے آٹھویں میں داخلہ لیا تھا ۔ اس کو بھی امی نے ایک ٹیوشن دلا دیا ۔ کچھ قریبی اعزہ نے زور ڈالا تو امی نے دِل پر پتھر رکھ کر اپنے جگر کے دو ٹکڑوں (محمد عون اور محمد جواد )کویتیم خانے میں داخل کرانا بھی منظور کر لیا ۔
گھر میں صرف وہ دن عید کا ہوتا تھا جب کسی سید کے گھر سے تیجے چالیسویں کے فاتحے کا کھانا آجاتا ۔ اس لیے کہ اس میں شیر مال ،پلاؤ اور قورمہ ہوتا تھا اور زردہ بھی ۔اور کبھی کبھی کچھ نئے کپڑے اور برتن ۔برسوں گھر کے سب بچوں نے دوسروں کے دیے ہوئے پرانے کپڑے ہی نئے سمجھ کر پہنے جو ان گھروں کی خواتین امی کو دے دیا کرتی تھیں جن کے گھروں میں وہ قرآن پڑھانے ،رضائیوں اور دُلائیوں میں دھاگہ ڈالنے یا چکی پیسنے جایا کرتی تھیں ۔
لیکن ۔امی نے اپنے بچوں کو کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے دیا ۔ انہیں ہمیشہ ’شُح ِ نفس ‘ میں مبتلا ہونے سے بچایا ۔ اس ’اِفلاس ِ شاہانہ ‘ میں بھی امی نے اپنے بچوں کو ہمیشہ دوسروں کو ’ دینے ‘ کی ترغیب دی ۔ ’لینے ‘ کی نہیں ۔الحمد للہ آج ان بچوں میں استغنا اور ہمہ وقت دوسروں کے کام آنے کا جو جذبہ ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے ۔
وہ کبھی کھانے یا ناشتے کے وقت یا عید بقر عید یا شادی بیاہ کے موقع پر اپنے یتیم بچوں کو لے کر کبھی اپنے کسی پڑوسی یا عزیز کے گھر نہیں گئیں کہ مبادا ،اں کے محروم اور ترسے ہوئے بچے کچھ مانگ بیٹھیں ،یا کچھ دیکھ کر للچائیں یا کچھ لینے کے لیے مَچَل جائیں اور اُنہیں دوسروں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے !
اُدھر یتیم خانے کا ماحول ایسا نہ تھا کہ حاجی میاں محمد مرحوم (رئیس چوپار ،قصبہ نصیر آباد ،ضلع رائے بریلی ) کے پر پوتے زیادہ دن ٹک کر وہاں رہ پاتے جن کے دادا سید محمد رضا نقوی کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی تھی اور جو تیرہ سال کی عمر میں ہندستان واپس آنے تک حرم مکی کے سائے میں پلے بڑھے تھے ۔ آل انڈیا شیعہ یتیم خانہ لکھنؤ کے ناگفتہ بہ ماحول سے نکل کر ان بچوں نے بھی اپنی امی کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ۔ کبھی کسی کتابوں کی دوکان پر کام ملا تو کبھی کسی بنیے کی دوکان پر ۔ کبھی اینٹ گارا پتھر ڈھونے کی مزدوری ۔ اَز قسم ِ محنت شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو ان بچوں نے نہ کیا ہو ۔ امی نے ہمیں صرف چاہنے والی ماں ہی کی طرح نہیں پالا ،شفیق و مہر بان باپ کی طرح ہماری اخلاقی تربیت ،نگرانی و نگہبانی بھی کی ۔اللہ جل شانہ نے امی کو اس کا یہ صلہ دیا کہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے سب بچوں کو عزت کے ساتھ پھلتے پھولتے اور کامیاب و کامران ہوتے دیکھ لیا ۔
والد کے انتقال کے آٹھ سال بعد جب ۲۵ روپئے ماہانہ کرائے کے مکان کا ایک سال کا کرایہ واجب ا لادا ہو گیا تو ایک مضبوط چھت اور مستحکم دیواروں کا سہارا بھی ہم سے چھن گیا ۔چچا ابا (سید محمد صادق نقوی مرحوم ۔اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے )اور ماموں جان (سید مظفر احمد نقوی ۔اللہ ان کا شفیق و مہر بان سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم رکھے )جنہوں نے اپنی مقدرت بھر ہمیشہ ہماری ہر ممکن مدد کی ،ان کے لیے ۱۹۷۰میں تین سو روپئے کی رقم تین لاکھ روپئے کے برابر تھی ۔ہم اس زر کثیر کا انتظام نہیں کر سکے ۔
جب امی اس گھر سے نکلیں ،جسے ہم نے بچپن میں قیمتی فرنیچر ،آرام کرسیوں ،میزوں ،کتابوں کی الماریوں ،آبنوس کی لکڑی کی سیاہ خوبصورت ریوالونگ ریک ،پلنگوں اور انگلینڈ اور بلجیم کی بنی ہوئی چینی اورشیشے کی نفیس کرا کری ،اور تانبے کے برتنوں سے بھرا ہوا دیکھا تھا اور جس کے ایک کمرے میں امی نے ہمیں یعنی اپنے پلوٹھی کے بچے کو جنم دیا تھا ۔۔تو ان کے پاس ۔۔ہم سات بچوں کے سوا ،سازو سامان دنیا سے چند ٹوٹے پھوٹے المونیم کے برتنوں اور بستر و کپڑوں کے نام پر چند خستہ و بوسیدہ اشیا کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔۔۱۹۶۲ سے ۱۹۷۰ کے آٹھ طویل برسوں کے دوران عزت کے ساتھ جسم و روح کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش میں سب کچھ ختم ہو چکا تھا ۔۔۔لیکن اللہ کا شکر سب پہ بھاری تھا ۔۔امی کے لبوں پر شکوہ تو اس روز بھی نہیں تھا !
پھر ایک دن ایک مرد مؤمن (مولانا سید عبد ا لحسین نقوی ۔اللہ ان کی روح کو ہمیشہ اپنے جوار رحمت میں رکھے) کی مدد سے ایک مقبرے میں پہنچے جو زندہ لوگوں کا مسکن تھا ۔۔اودھ کے وزیر حکیم میر مہدی کا مقبرہ ۔۔کچھ نیک و سعید روحیں وہاں زمین کے نیچے آرام فرما تھیں اور قریب ایک سو چھوٹے بڑے بوڑھے جوان اور بچے مرد اور خواتین زمین کے اوپر ان کے پڑوس میں آباد تھے ۔محنت کر کے ،چٹنی روٹی میں مگن رہنے والے لوگ ۔حالات میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا تھا اور خوش گوار مستقبل کے آثار نظر آنے لگے تھے ۔
ہم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور مزدوری کرنے والے ہمارے محنت کش اور ایماندار بھائی امین آباد کے بک مارکٹ میں نوکری کرتے ہوئے حضرت گنج اور علی گنج میں کتابوں کی دوکانوں کے مالک بن گئے ۔
امی نے ایک ایک کر کے اپنے سب بچوں کی شادیاں کیں ۔اپنی سب اولادوں کا سکھ دیکھا ۔ میری امی کی ایک بڑی بہو ۔۔جو امی ہی کی طرح اُستانی تھی اور سرکاری پرائمری اسکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی ۔۔اُسی مقبرے کے دو کمروں میں ۳۰ نومبر ۱۹۷۷ کوبیاہ کر آئی اور اٹھارہ سال بعد۵ دسمبر ۱۹۹۵کو اپنے چار چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر، وہیں سے سفر آخرت پر روانہ ہو گئی !
امتحان کا ایک اور مرحلہ مکمل ہوا ۔ ہم سب امی کے ساتھ ایک بڑے مکان میں اٹھ آئے ۔ جہاں دالان بھی تھے اور آنگن بھی اور آنگن میں جامن اور امرود کے پیڑ بھی !
امی ایک شجر سایہ دار ہی تو تھیں ۔آج نہ وہ جامن کا پیڑ ہے ۔نہ امی کا سایہ ۔
اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے ۔ عزت بھی اور راحت بھی ۔لیکن لگتا ہے ایک صحرا میں کھڑے ہیں !
میری امی آپ انتظار کیجے ۔ہم بھی آتے ہیں ۔
رب ا لرحم ھما کما ربیا نی صغیرا ً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والد کے انتقال کے آٹھ سال بعد جب ۲۵ روپئے ماہانا کرائے کے مکان کا ایک سال کا کرایہ واجب ا لا دا ہو گیا تو ایک مضبوط چھت اور مستحکم دیواروں کا سہارا بھی ہم سے چھن گیا ۔ چچا ابا (سید محمد صادق نقوی مرحوم ۔اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ) اور ماموں جان ( سید مظفر احمد نقوی ۔اللہ اُن کا سایہ ہمارے سروں پر تا حیات قائم رکھے ) جنہوں نے اپنی مقدرت بھر ہمیشہ ہماری ہر ممکن مدد کی ،ان کے لیے ۱۹۷۰ میں تین سو روپئے کی رقم تین لاکھ کے برابر تھی ۔ ہم اس زر کثیر کا انتظام نہیں کر سکے ۔
جب امی اس گھر سے نکلیں ،جسے ہم نے بچپن میں قیمتی فرنیچر ،آرام کرسیوں ،میزوں ،کتابوں کی الماریوں ،پلنگوں اور انگلینڈ اور بلجیم کی بنی ہوئی چینی اور شیشے کی نفیس کرا کری