
بچوں کا ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ کمپیوٹر کا استعمال مضرصحت:سائنسداںسید یٰسین

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
بنگلور کے شیواجی بس اڈے کے قریبی تبلیغی مرکز سلطان شاہ میں’’ کمپیوٹر کا ایک سلطان‘‘ روزانہ نمازیں ادا کرتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اس کی دنیوی شہنشاہی سے واقف ہیں۔پُرنور چہرے پر تبلیغی ٹوپی سجائےعربی لبادے میں جب وہ نماز عصر کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہوتا ہے توشناسا نظریں جھک کر سلام کرتی ہیں جبکہ بیشتر چہرے مہرے سے پردیسی سمجھ کر گذرجاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید کسی جماعت کے ساتھ گشت پر یہاں آئے ہوں۔دراصل کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں الگوریدم کے موجد سید یٰسین ریکو اینوویشنس پرائیویٹ لمیٹڈ میں کنسلٹنسی دے رہے ہیںچونکہ آفس مذکورہ مسجد سے قریب ہےلہذا اکثر عصر و مغرب کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتے ہیں۔Bookkleکے بانی فی الحال سرچ انجن Medboon پر کام کر رہے ہیں۔۲۰۰۹ میں امریکہ سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے آئی ٹی سائنسداں نے معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی فیلڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی پر کہا کہ ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی کم۔ اس وقت دنیا Artificial Intelligence اور Big Dataکی طرف جا رہی ہے۔یہ دو ایسے بڑے میدان ہیں جس کی طرف ماہرین توجہ دے رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان دونوں فیلڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی ناکے برابرہے۔میری علم کی حد تک صرف ایک کمپنی ہے جو بگ ڈاٹا پر کام کر رہی ہے جس کا نام لینا فی الحال سود مند نہیں ہے۔‘‘مختلف حوالوں سے گفتگو کرتے ہوئے سید یٰسین نئی جنریشن کے حوالے سےکہتے ہیں’’یہ ایک اچھا سوال ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جبکہ ہر گھر میں کمپیوٹر اور موبائل موجودہے ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں؟اس کی مثال میں اپنے بچے سے دیتا ہوں ،میرا بچہ ۱۲ برس کا ہے اور وہ گیم کھیلنا چاہتا تھا لیکن گیم کھیلتے کھیلتے اب وہ گیم بنانا چاہتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اینڈرائڈ پر وہ خود پروگرامنگ کرنے لگا ہے۔اس نے میرا پرانا لیپ ٹاپ لے لیا ہے۔دراصل نئی پیڑھی کے لیے اسکول کی پڑھائیاں اور مستقبل کی پیش بندیوں میں بڑا فرق ہے۔کلاس میں جو کچھ انہیں پڑھایا جا رہا ہے ،باہر نکلنے کے بعد وہ اس پر مشق کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں لہذا بچوں کے مزاج میں تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ ہم بچے کو ہینڈل ڈیوائس کی پروگرامنگ سکھائیںجس کے ذریعہ گیم ایپس یا چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس بنائے جاسکتے ہیں۔اگر آپ بچپن سے ہی اس کی مشق کراتے رہیں گے تو وہ انجینئرنگ سے پہلے ہی کمانے والے بن جائیں گے جبکہ انجینئرنگ میں بھی انہیں بڑی سہولت ملے گی۔میں بطور مثال انگلیڈ کے بچے کی کہانی سناتا ہوں کہ جس نے محض ۱۲ برس کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ شروع کی اور ۱۵ برس کی عمر میں ایک ایسا ایپ بنایا کہ جسے ۳۰ ملین ڈالر میں خریدا گیا۔لیکن یہ بہت آسان بھی نہیں ہے بلکہ توجہ چاہتا ہے ‘‘۔
معیشت ڈاٹ اِن کے اس سوال پر کہ آپ جس طرح بچوں کو لیپ ٹاپ یا فون کا استعمال کروانا چاہ رہے ہیں اس سے تو وہ مزید ان ڈیوائیسیزکےگرویدہ ہوجائیں گے اور صرف گیمس ہی کھیلتے رہیں گے ؟ یٰسین کہتے ہیں’’میں نے پہلے جو بات کہی ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھروں میں والدین کمپیوٹر کا علم رکھتے ہیں جبکہ وہ گھر جہاں ان چیزوں کا اہتمام نہیں ہے لیکن وہاں انٹرنیٹ لگا ہے اور بچے اس سے استفادہ کر رہے ہیں تو یہ بڑا ہی خطرناک ہے ۔کیونکہ اگر بچے انٹر نیٹ پر گیم کھیلنے یا گیم دیکھنے کے رسیا بن جائیں تو پھر ان کی نشو ونما رک جائے گی کیونکہ انٹرنیٹ اچھی بھی ہے اور بری بھی۔اگر بچوں کی تربیت اچھی ہے تو وہ اچھائی کی طرف جائیں گے ورنہ بری چیزوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔لیکن میں جو بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ کہ بچوں کو انٹرنیٹ سے دور رکھنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے لہذا اس بات کا خیال رکھاجائے کہ بچے ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ کسی بھی ڈیوائس خواہ وہ فون ہو یا کمپیوٹر استعمال نہ کریں۔بلکہ روزانہ بچوں کو باہر بھیجا جائے تاکہ وہ جسمانی طور پر کھیل کر تھک جائیں اور رات کو گہری نیند لیں۔بچوں کا کمپیوٹر استعمال یقیناً محدود ہونا چاہئے کیونکہ جو لوگ کمپیوٹر کے رسیا بن جاتے ہیں وہ پھر حقیقی دنیا سے دور ہوجاتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ انٹر نیٹ پر جو قابل مطالعہ چیزیں موجود ہیں ہم اپنے بچوں کی رسائی ان تک کرائیں ،ان کے لئے ایسے کوڈنگ کریں کہ وہ اس پر اپنا وقت خرچ کریں اور اس فیلڈ میں ہی آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
سوشل سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے درمیان رابطے پر گفتگو کرتے ہوئے یٰسین کہتے ہیں’’انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل سائنس کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔میں دوسروںکی مثال کیا دوں خود گھر میں دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ آخر کیا ہو رہا ہے ،دور دراز سے میرے رشتہ دار گھر آئے تو لوگ ہنسی مذاق کرنے لگے لیکن بیٹا طہٰ اپنی دنیا میں ہی مگن رہا جب ہم نے ان سے کہا کہ دیکھو! کون لوگ آئے ہیں تو اس نےسوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہوئے معصومیت سے کہا کہ ’’میں کسی سے چیٹ کر رہا ہوں لہذا ابھی آپ کو وقت نہیں دے سکتا‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کے اندر منفی اثرات بھی پیدا کرتا ہے ۔آدمی کبھی حقیقی دنیا کے بالمقابل غیر مرئی دنیا پر زیادہ بھروسہ کرنے لگتا ہےاور یہیں سے اخلاقیات کی تباہی کا باب شروع ہوتا ہے۔حالانکہ نبی کریمﷺ کی سیرت میں سب سے زیادہ توجہ اخلاقیات پر بھی دی گئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب نبی کریم ﷺ کی سنت سے اب استفادہ کرنے لگا ہے جبکہ ہم لوگ اس سے دور جانے لگے ہیں اگر آپ تجارت کی ہی مثال لیں تو سب سے پہلے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے ہی یہ اصول رائج کیا تھا کہ اگر کوئی شخص مال بیچ دے اور خریدنے والے کو مال پسند نہ آئے تو بیچنے والے کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ خریدنے والے سے مال واپس لے لے۔آج چودہ سو برس بعد کارپوریٹ کمپنیاں اس بات پر توجہ دے رہی ہیں کہ فروخت ہوا مال واپس لے رہی ہیں ۔خصوصاً آن لائن تجارت میں اس پر خاص توجہ دی جارہی ہےاور آن لائن ریٹرن پالیسی بنائی جا رہی ہے۔
دراصل کسی بھی میدان میں ہمیں سنت نبویﷺ پرخصوصی توجہ دینی چاہئے۔اس وقت دنیا کو سنت کی ضرورت ہے اور ہم ہی انہیں راہ راست دکھا سکتے ہیں۔