
میڈیا کا ’کارپوریٹ کرن‘!
عالم نقوی
سابق صدر جمہوریہ ہند اور جنوبی ہند کے مزدور لیڈر وی وی گری کے پوتے ،پی (پالاگُمِّی) سائی ناتھ سچ بولنے والوں کے اُس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے اَفراد کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے ہر قیمت پر سچائی کا ساتھ دینے اور ظالموں سے نہ ڈرنے والا یہ وہی قبیلہ ہے جس میں میگا سیسے ایوارڈ یافتہ ’دی ہندو کے سابق ’دیہی ‘RURALایڈیٹر پی سائی ناتھ کے علاوہ اَرُون دَھتی رائے، ہرش مندر، وِبھوتی نارائن رائے ، تیستا سیتل واڈ،اَپوروا نند، میدھا پاٹکر اور رویش کمار وغیرہ سر فہرست ہیں ۔’بہت جھوٹی پارٹی ‘بی جے پی کے لیڈر اور مرکزی وزیر برائے اطلاعات ونکیا نائڈو نے بدھ (۷ جون ۲۰۱۷ ) کو نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ یہ جھوٹ بولا کہ این ڈی ٹی وی کے دفاتر وغیرہ پر سی بی آئی نے چھاپہ نہیں مارا تھا لیکن ایک بات وہ ایسی کہہ گئے جس نے حکومت کی بد نیتی کا بھانڈا پھوڑ ہی دیا کہ ’این ڈی ٹی وی کے نیوز آپریشنس سوالات کے گھیرے میں ہیں ۔ان سوالوں کا جواب ملنا چاہیے ‘‘! مطلب یہ کہ سرکار کو آئینہ دکھانے والے نیوز آپریشنز سے جواب طلبی اب سی بی آئی کے ذریعے ہوا کرے گی !کل جب ان سے پوچھا جائے گا تو وہ اس سے بھی انکار کر دیں گے کہ روزنامہ سیاست حیدرآباد کے ہندی نیوز پورٹل کی یہ خبر بھی غلط ہے کہ ُان کی ناک کے نیچے راجدھانی دلی کے سونیا وہار میں واقع اَمبے اِنکلیو میں بدھ ۷ جون ۲۰۱۷ کی دوپہر کو کچھ مسلح غنڈوں نے کچھ ہی دن پہلے پولیس کی با قاعدہ اجازت سے بنی ہوئی ایک مسجد کو مسمار کر ڈالااور پولیس نے بعد میں ایف آئی آر درج کر نے کے سوا بروقت کوئی تدارکی اور تادیبی کارروائی نہیں کی !hindi.siasat.comکے سوا اِس کی خبر بھی آج (جمعرات ۸ جون کے) اخبار میں ہمیں نظر نہیں آئی۔ لیکن سر دست ہمارا موضوع پی سائیناتھ کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے پندرہ ماہ قبل ۵ مارچ ۲۰۱۶ کو ممبئی میں صحافیوں کی ایک تنظیم کَلِکٹِو اِنی شی اِیٹوCollective Initiativeمیں کی تھی جس کا اردو ترجمہ پروفیسر افتخار عالم خاں نے ماہنامہ کانفرنس گزٹ علی گڑھ ( نومبر ۲۰۱۶ )میں شایع کروا دیا تھا ۔پروفیسر افتخارعالم خان مسلم یونیورسٹی کے شعبہء میوزیا لوجی کے ڈائرکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد نہ صرف متعدد کتابیں تحریر کر چکے ہیں بلکہ قبیلہ ئِ حق گویانِ ہند کی انگریزی کتابوں اور مضامین کے ترجمے بھی اردو قارئین کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ہرش مندر کی کتاب ’لو کنگ اَوِے ‘Looking Away۲۰۱۵کے کئی اَبواب کے ترجمے وہ کانفرنس گزٹ میں شایع کروا چکے ہیں ۔
پی سائی ناتھ کی جس غیر معمولی تقریر کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں ،وہ بعنوان ’’مکیش امبانی اگلے پانچ برسوں میں ہر صحافی کو خرید سکیں گے ‘‘کانفرنس گزٹ میں شایع ہوئی تھی ۔شری سائی ناتھ نے کہا تھا کہ ’’جمہوریت کے چوتھے ستون ’میڈیا ‘ میں بھی منافع خوری کے مواقع بدرجہئِ اَتَم موجود ہیں۔ ۔ایک طرف بھارتی سماج ناقابل یقین حد تک ’متنوع ‘ Heterogeneousہے،میڈیا اُتنا ہی ’ہَم نوع ‘Homogenousہے یہ بھی ایک ناقابل یقین اور قطعی خلاف مصلحت تضاد ہے ۔ٹی وی کے مباحثوں کو دیکھیے ،اُن میں حصہ لینے والوں کی سماجی ترتیب پر غور کیجیے ۔اخباروں کے کالم لکھنے والے کون لوگ ہوتے ہیں ؟ یہ بیشتر ’’مفت خوروں ‘‘ کا ایک نہایت ہی محدود حلقہ ہے ! آج وطن دوست اور وطن دشمن (نیشنل اور اینٹی نیشنل ) کی بحث ملک اور میڈیا میں ان لوگوں نے شروع کی ہے جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں کبھی کوئی حصہ نہیں لیا جو انگریزوں سے گڑگڑا گڑگڑاکر معافیاں مانگ مانگ کر جیلوں سے رہا ہوتے رہے تھے جبکہ جو واقعی مجاہد آزادی تھے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ۔کل کے دیش دروہی آج ہمیں دیش بھکتی کا سبق پڑھا رہے ہیں ۔‘‘
’’ ہماری نئی نسل سے اس کی اپنی تاریخ کو چھین لیا گیا ہے ۔اسے نہیں معلوم کل کون واقعی نیشنلسٹ تھا اور کون صرف برٹش سامراج کا ایجنٹ ! آج صحافت کو تباہ و برباد کرنے کا بہت بڑا عمل جاری ہے ۔ پچھلے بیس برسوں میں ہم نے صحافت کو منافع خوری کا ایک بہتا دریا بنا دیا ہے اور یہ سب میڈیا کے ’کارپوریٹ کرن ‘ یعنی میڈیا کے بتدریج کارپوریشنوں کے قبضے میں چلے جانے سے ہوا ہے ۔ آج جو لوگ میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں ہم ان کی طاقت اور پہنچ کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ نیٹ ورک 18مکیش امبانی کی ملکیت ہے ای ٹی وی کے تلگو چینل کو چھوڑ کر بقیہ سارے چینل انل امبانی کی ملکیت ہیں۔اسی طرح دوسرے اور بھی متعدد چینل ان کی اماک میں شامل ہیں ۔اگر ہم سب اگلے پانچ سال تک اور صحافت کے پیشے میں موجود رہے تو شاید ہم بھی ان کی املاک بن چکے ہوں گے ۔ مکیش امبانی کو اپنی ملکیت والے سارے چینلوں کے نام بھی نہ معلوم ہوں گے لیکن وہ ایک حکم نامہ جاری کرتے ہیں کہ ’’عام آدمی پارٹی کو الکشن کے دوران کوئی اہمیت نہ دی جائے ‘‘ اور اس کی تعمیل ہر طرف نظر آنے لگتی ہے ۔ پچھلے بیس برسوں میں کارپوریٹ سکٹر کے مالکان کو جو میڈیا کمپنیوں کے بھی مالک ہیں قدرتی وسائل کی ’نجکاری ‘(یا نجی کرن ) کی سرکاری پالیسیوں نے بے انتہا فائدے پہنچائے ہیں ۔ اب آپ آج اسی ’نجکاری ‘ کے ہتھوڑے کی مار کا دوسرا دور دیکھ رہے ہیں جو عام آدمی اور قدرتی وسائل دونوں ہی کے لیے اور زیادہ مہلک ہے ظاہر ہے کہ اس کا سب بڑا فائدہ ٹاٹا ،برلا ،امبانی اور اڈانی ہی کو ہوگا ۔ جب قدرتی گیس کا نجی کرن ہوا تو فائدہ ’ایسار ‘ ESSARاور امبانی ہی کو ہوا تھا اور اسپیکٹرم کی نجکاری کے فائدے امبانی ،ٹاٹا اور برلا نے اٹھائے تھے ۔
اچھی صحافت میں سماج خود سے مکالمہ کرتا ہے یعنی پوری قوم خود سے ہم کلام ہوتی ہے اور بحث و مباحثہ کرتی ہے لیکن جب ہم اس عوامی خدمت کو آج کی طرح ایک اُکتا دینے والی سودے بازی بنا دیتے ہیں تو ملک و قوم کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے بھارت کے ۸۳ کروڑ لوگ آج بھی شہر میں نہیں گاؤں میں رہتے ہیں جہاں ۹۸۴ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں چھے ایسی زبانیں ہیں جن کو پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ بولتے ہیں ۔تین زبانیں ایسی ہیں جن کو تقریباً آٹھ کروڑ لوگ بولتے ہیں لیکن دہلی کے میڈیا اسٹڈی سنٹر کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے چھے سب سے بڑے اخباروں کے فرنٹ پیج پر بھارتی دیہاتوں کو دو فی صد سے بھی کم صرف 1.8فیصد جگہ ملتی ہے اور ملک کے سب سے بڑے ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم میں ان کا حصہ صرف 0.16فی صد ہی ہو تا ہے ۔
میڈیا نے ابھی تک بڑے کے گوشت (BEEF)پر پابندی کے نتائج پر بہت کم دھیان دیا ہے ۔اس جاہلانہ اور متعصبانہ اقدام نے صرف مسلمانوں ہی کو برباد نہیں کیا ہے بلکہ دلتوں اور بے شمار پسماندہ طبقوں کو بھی تباہ کر دیا ہے لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ عام آدمی غریب آدمی عوام اور جنتا سے حکمرانوں اور قارونوں کو کوئی لینا دینا نہیں ہے کولھا پوری چپل کی صنعت برباد ہو چکی ہے مویشیوں کی تجارت کرنے والے بھوکوں مر رہے ہیں ۔اس احمقانہ اقدام نے دیہی معیشت و معاشرت دونوں پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں لیکن قارونی پالیسیاں مرتب کرنے والے اور اس کے پروپیگنڈے پر مامورغلام اور زر خرید میڈیا ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں جنہیں نہ زراعت کی الف بے معلوم ہے نہ مویشیوں کی اقتصادی اہمیت کوئی علم ہے ۔‘‘
وطن عزیز ناقابل تصور معاشی و معاشرتی تباہی اور بد امنی کی ڈھلان پر ہے !اللہم ا حفظنا !!