خلیجی ممالک کا حالیہ بحران: فائدے میں کون ہے؟

قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی

محمد مبشر الدین خرم

بحران ممالک کی تاریخ رقم کرتے ہیں اور ایسے بحران جن کے پس پردہ محرکات کا اندازہ لگایا جانا دشوار ہو ان بحرانوں کی صورتحال کے حقائق سے آگہی کیلئے ہی برسہا برس گذر جاتے ہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے فائدہ کون حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان اختلافات یا رنجشوں سے کسے فائدہ حاصل ہوگا۔ خلیج میں جاری سفارتی بحران اور قطر کو یکا و تنہاء کرنے کی کوشش کے بعد پیدا شدہ صورتحال کا حقیقی فائدہ کسے ہوگا اور معیشت کے اعتبار سے انتہائی مستحکم اس مملکت کے عدم استحکام کی صورت میں زوال کا شکار کون ہوں گے؟ عرب ممالک بالخصوص بلدالشام میں جاری جنگی ماحول کے ساتھ ہی اس بات کی پیش قیاسی کی جانے لگی تھی کہ دشمنان اسلام کی جانب سے مسلم ممالک کے عدم استحکام کی کوششیں کی جائیں گی اور ایک کے بعد دیگرے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شام کے حالات کے دوران جب تیونس میں عوامی انقلاب شروع ہوا تو اسے ’بہار عرب ‘ کا نام دیا گیا اور اسی بہار عرب نے عرب دنیا میں نیا حوصلہ پیدا کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مصر میں بہار عرب کو عظیم جمہوری کامیابی حاصل ہوئی اور اخوان المسلمون نے مصر کا اقتدار سنبھالا لیکن یہ تو دشمنان اسلام کے منصوبہ کے عین مخالف ہوا چل رہی تھی کہ اچانک فرعون مصرنے مرسی کو قید کرتے ہوئے اپنے اقتدار کا اعلان کردیا۔ اخوان المسلمون کو مصر کا اقتدار حاصل ہونے کے بعد عرب دنیا کے حالات میں نمایاں تبدیلی دیکھی جانے لگی اور اخوان المسلمون کے نظریہ کو فراموش کیا جا سکے اس کیلئے ’داعش‘ کو خبروں میں نمایاں مقام فراہم کیا جانے لگا کیونکہ اخوان کو حاصل ہونے والی کامیابی خطہ عرب میں جمہوری حکمرانی کی بنیاد ڈال چکی ہے۔ اخوان کے نظریہ سے خائف قوتیں داعش اور اخوان کو یکساں نظریہ کے طور پر پیش کرنے کی ہر ناکام کوشش کرتے رہے لیکن اس میں انہیں کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
روزنامہ سیاست میں شائع ہونے والے کالم ’عرب وعجم‘ کے سلسلہ وار مضامین میں سال گذشتہ اس بات کی پیش قیاسی کی گئی تھی کہ شام کے حالات معمول پر آنے شروع ہونے کے فوری بعد مخالفین اسلام ترکی اور قطر کا رخ کریں گے کیونکہ انہیں شام کے حالات کو قابو میں کرنے کے بعد ان ممالک کو اپنے زیر تسلط لانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک نہ صرف معاشی اعتبار سے مستحکم ہیں بلکہ وہ سیاسی اعتبار سے بھی خود کو دشمن کی چالوں سے محفوظ رکھنے کے فنون سے واقف ہونے کے علاوہ کسی بھی تحریک کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ سال گذشتہ جولائی میں ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ترکی کو کمزور کرتے ہوئے مغرب مسلم دنیا سے ایک دوراندیش قیادت کے خاتمہ کی کوشش میں ناکام ہوئی کیونکہ ترکی حکمراں نے ثابت کردیا کہ وہ خطۂ ارض پر نہیں بلکہ ترک کے اسلام پسند عوام کے ساتھ ساتھ ترقی پسند ذہنوں پر بھی حکمرانی کرتا ہے ۔ اس بغاوت کی خصوصیت یہ تھی کہ اس بغاوت کی سازش کو دنیا کے مختلف گوشوں میں تیار کرتے ہوئے یکجا کیا گیا تھا اور کوشش یہ رہی کہ کسی بھی طرح ترکی کا موافق فلسطین حکمراں طبقہ اقتدار سے محروم ہو جائے لیکن ایسا کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہونے اور عوام نے جب حکومت کی ڈھال بننے کا فیصلہ کرلیا تو ایسی صورت میں کونسی طاقت ہے جو حق پسندوں کی کامیابی کو روک سکتی ہے۔ مغربی دنیا جو ترکی کے السیسی کی پرورش کر رہی ہے نے یہ تصور کرلیاتھا کہ حالات تبدیل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس پالکڑے کے سبب مغرب کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
عالم اسلام کی سیاست کا منبی و محور ارض مقدس فلسطین اور مسجد الاقصی رہا ہے اور شام کے حالات ہوں یا مصر کا انقلاب‘ ترکی میں بغاوت ہو یا قطر کو یکا و تنہاء کرنے کی ساز ش اس کے تمام تار جڑتے ہیں اسرائیل سے اور یہ وہ حالات ہیں جنہیں ہوکر ہی رہنا ہے۔مفہوم عام میں قطر کے متعلق کہا جائے تو قطر عالم اسلام نہیں تو مسلم دنیا کا معاشی مرکز بن چکا ہے جو اپنی منفرد اور معیاری اقتصادی پالیسی کے سبب نہ صرف خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ امیر قطر کی دوراندیشی نے اس مملکت کو عرب خطہ میں منفرد اہمیت کا حامل بنادیا ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہود نہیں چاہتے کہ ان کے علاوہ دنیا کے معاشی نظام پر ان کے علاوہ کسی کا تسلط برقرار نہ رہے اور اسی طرح وہ اس بات کیلئے بھی کوشاں ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ ان کے کنٹرول میں رہے اور عوام تک وہی چیز پہنچے جو وہ ان تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن قطر نے ان دونوں امور میں یہود کو نہ صرف ٹکر دی بلکہ ان کے نظریا ت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کے لئے جال بن دیا جس کے نتیجہ میں قطر آج دنیا کی وہ سر فہرست مملکت ہے جہاں شہریوں کی فی کس آمدنی شرح دنیا کے کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ہے اور عرب دنیا میں قطر واحد ایسا ملک ہے جہاں کا نظام تعلیم محدود نہیں بلکہ عالمی اعتبار سے یہ چوتھے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے اور اس نظام تعلیم میں تحقیق کو ترجیح دی جاتی ہے۔ذرائع ابلاغ کے معاملہ میں یہود کی پالیسی عیاں ہے لیکن قطر نے ذرائع ابلاغ کا متبادل ایسا پلیٹ فارم تیار کیا جس نے دنیا کو دہشت گردی کا مخفی چہرہ سے شناسا کروایا اور یہی وجہ تھی کہ ’’الجزیرہ‘‘ نیٹ ورک کو قلیل مدت میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی لیکن اس نیٹ ورک کو بند کرنا مخالفین کے منصوبہ کو آشکار کرنے کا سبب بنتا اسی لئے انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی۔
مغربی دنیا اور سازشی عناصرعالم اسلام بالخصوص مسلم ممالک کو دو حصوں میں منقسم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ امن کے ساتھ یا امن کے خلاف محاذ تیار کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مخالف اسلام اور اسلام دشمن ممالک نظریات کی سرپرستی کر رہے ممالک حامی فلسطین و حامی اسرائیل محاذ کی تیاری میں مصروف ہیں لیکن اس شعور سے عرب دنیا محروم نظر آرہی ہے یا پھر سب کچھ جانتے ہوئے مسلم ممالک پر روایتی طرز حکمرانی کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ کی خاطر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ مصر و مالدیپ کی جانب سے قطر کے خلاف کی گئی کاروائی قطر کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ شام میں قطر کے سفارتخانہ کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا تھا اس سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قطر کا نظریہ کیا ہے ۔ قطر نے حماس کے خالد مشعل اور اسمعیل ھنیہ جسے سرکردہ قائدین جو اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہیںانہیں پناہ دی ہے اور اخوان المسلمون کی سرکردہ قیادت جو کہ محمد مرسی کی گرفتاری کے بعد جلا وطن کردی گئی ہے اسے بھی پناہ دیتے ہوئے اپنے حکمراں کو حاصل تعلیمات پر عمل کیا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی صدرنشین’ الاتحاد العالمی العلماء المسلمین‘جیسی عظیم شخصیت کی مہمان نوازی کرتے ہوئے عرب دنیا میں پیدا ہونے والے حالات سے خائف ہوئے بغیر ’بہار عرب‘ کی تائید کی جبکہ بیشتر عرب ممالک اپنی روایتی حکمرانی کے خاتمہ سے خائف تھے۔قطر نے ان حالات سے خائف ہوئے بغیر ان نظریات کو فروغ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جن نظریا ت کو علامہ یوسف القرضاوی نے تحریک مصر کے دوران فروغ دیتے ہوئے نہ صرف مرسی کی تحریک کو کامیاب کیا بلکہ حسن البناء شہید ؒ کو بھی زبردست خراج پیش کیا ۔
امریکہ سعودی عرب میں جمہوری نظام حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے نہ صرف خواب دیکھ رہاہے بلکہ سعودی عرب کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عرب اتحاد میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ مخالف اسلام قوتوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ سرزمین پاک حرمین شریفین کی جانب کوئی قدم اٹھتا ہے تو ایسی صورت میں انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اسی لئے یہ قوتیں عرب دنیا بالخصوص مسلم دنیا کو کمزور کرتے ہوئے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن اس بات کا احساس سعودی حکمراں طبقہ کو بھی ہے لیکن اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی موجودہ حکمت عملی کے ذریعہ یمن میں ایران کی مداخلتوں اور بحرین میں جاری مسلکی تشدد کے خاتمہ کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔جبکہ قطراور ایران کے درمیان بڑھ رہی قربت کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ قطر کو داعش‘ جبھۃ النصرہ اور اخوان المسلمون کا مددگار قرار دینے کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں و جماعتوں کا حامی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے بر عکس ایران داعش‘ مخالف بشار النصرہ فرنٹ کا کٹر مخالف ہے لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان ایسی کیا موافقت ہے جو ان دونوں کے تعلقات کے استحکام کا سبب بن رہی ہے؟ تجارتی امور نے دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کو مزید بہتر و مستحکم بنانے کے لئے مجبور کیا ہے کیونکہ قطر میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی صنعت و حرفت اور پیداوار نہ ہونے کے سبب قطر کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں پیدا ہورہے استحکام کاباریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان کی یہ حکمت عملی کامیاب نظر آرہی ہے۔دونوں ممالک اس اتحاد کے ذریعہ اپنے معاشی و اقتصادی موقف کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں کیونکہ ان کا یہ احساس ہے کہ اگر اقتصادی حالات میں تبدیلی آتی ہے تو ایسی صورت میں اس کا انجام غلط ہوگا۔
2016میں برطانیہ کی یوروپ سے علحدگی کے فیصلہ کے بعد یورپ کی معیشت اس قدر تباہ ہوچکی تھی کہ ماہرین معاشیات نے یوروپی کرنسی ’یورو‘کی برخواستگی اور ڈالر کے کنٹرول کے متعلق مذاکرات شروع کر چکے تھے۔ یوروپ کے معاشی حالات کے ساتھ اب امریکہ بھی معاشی ابتری کا شکار بنتا جا رہا ہے اور اس صورتحا ل میں یوروپ و امریکہ اپنے معاشی استحکام کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ امریکہ ۔ایران تجارتی تعلقات میں خرابی نے سال 2014میں امریکہ کو 175بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے اسی لئے اب ٹرمپ انتظامیہ ایران سے تجارتی تعلقات کو استوار کرنے پر غور کر رہا ہے ۔ ایران ۔امریکہ تجارتی سرگرمیاں از سرنو شروع ہونے کی صورت میں امریکی مصنوعات قطر بتوسط ایران پہنچتی رہیں گی اور قطر کی دولت سے امریکہ کو بالواسطہ طور پر فائدہ حاصل ہوتا رہے گا اور ایران بھی ان حالات سے مستفید ہوگا۔ اسی طرح قطر 2022میں ہونے جا رہے فٹ بال کے سب سے بڑے فائنل کے لئے تیاریاں زور و شور سے جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اب فیڈریشن انٹرنیشنل فٹبال اسوسیشن کا عالمی کپ قطر میں منعقد ہوگا یا نہیں اس پرسوالیہ نشان لگائے جانے لگے ہیں اور قوی امکان ہے کہ جاریہ تنازعہ کی عاجلانہ یکسوئی نہ ہونے کی صورت میں یہ کھیل کسی یوروپی ملک کو منتقل کردیئے جائیں گے تاکہ ان کی معیشت کو مستحکم بنانے میں تعاون کیا جاسکے۔عرب ممالک کے درمیان پیدا کئے جانے والے اس اختلاف کے متعلق اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ تمام سرکردہ عرب ممالک کا ویژن 2030ہے۔سعودی عرب نے سال گذشتہ اپنا ویژن 2030جاری کیا ہے اور متحدہ عرب امارات معاشی ویژن 2030پر مصروف بکار ہے جبکہ قطر ’قومی ویژن2030‘ پرتیزی سے گامزن ہے۔عرب دنیا کی یہ ترقی کس کی آنکھ میں کھٹک رہی ہے اس بات کو سب محسوس کر رہے ہیں لیکن مصلحت کے بندوں کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی ان کے زوال کا سبب بنے گی ؟؟؟؟؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *