
تھا جو نا خوب، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا۔۔۔

ملک کے موجودہ تناظر میں
ـــــــمحمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ دنوں (مئی 2017) بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) نے اپنی ’کامیاب حکمرانی‘ کا جشن منایا۔ جشن منانا عیب کی بات نہیں۔ لیکن خود احتسابی کے بغیر اتنے عظیم ملک کی حکمرانی اور کارکردگی کا سرسری جائزہ لے کر محض اپنی کامیابی کی فتح کا جشن منانا حکمت و دانائی محسوس نہیں ہوتی۔ پارلیمانی طرز حکومت میں وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا واضح اکثریتی پارٹی کا قائد ہونے کے سبب اپنے تین سالہ کارکردگی اور حصولیابی (Achievements) کا جشن کہیں نہ کہیں کمزوری کو نمایاں کرتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اپنی ’خارجہ پالیسی‘ کے تحت ’قومی مفاد‘ میں گزشتہ تین برسوں کے دوران میں دنیا کے تقریباً تمام اہم ممالک کا دورہ کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تاہم جس ملک میں واضح اکثریت کے ساتھ وہ قیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے ہیں وہاں کی صورت حال پر ان کی گرفت کمزور محسوس ہوتی ہے حالانکہ ہم ان کی ’سیاسی بصیرت‘ کے شروع سے قائل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے پارلیمانی ساتھیوں کو بھی اپنے جیسا ہی تصور کرلیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ملک کے جن معروف رائٹرز، آرٹسٹس وغیرہ نے ’عدم برداشت‘ کی کیفیت میں احتجاجی طور پر اپنے اعزازات اور ایوارڈز واپس کیے تھے، انہیں مطعون کیا گیا اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری طرف چند ہندو تنظیموں کی طرف سے پورے ملک میں ’عدم برداشت‘ (In-tolerance) کے جو خطرناک واقعات ہو رہے ہیں، انہیں روکنے میں حکومت ہر سطح پر اپنے دعوے میں کھوکھلی نظر آرہی ہے۔ ملک اور قومی مفاد کا پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ عوام کی جان و مال اور عصمت کے تحفظ کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے۔ یہ حکمرانی کا بنیادی اصول ہے۔ ظلم کرنے والوں کو بلاتفریق مذہب اور ذات و قوم فی الفور ظلم سے باز رکھا جائے اور انہیں سخت سزا دی جائے۔ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ اب عوام کے لیے اپنے ملک کی ٹرین و گاڑیوں میں سفر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عدل و انصاف کے نفاذ اور اخلاقی قوت کے بغیر جس سماج میں ایک مخصوص سرکاری ہتھیار بند طبقے کو بے لگام اختیارات دے کر ان پر نظر نہ رکھی جائے اور ان کا محاسبہ نہ ہو، تو عوام ان کے ظلم کے زیادہ شکار ہوتے ہیں اور حکومت تو عوام سے قائم رہتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ’دہشت گردی‘ کے چرچے عالمی سطح پر خوب ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے عوام ’دہشت کے سائے‘ میں جی رہے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس ان مظالم سے لڑنے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے اجتماعی ’بددعا‘۔ یہ وہ ہتھیار ہے کہ تاریخ میں بڑی سے بڑی حکومت بھی پاش پاش ہوگئی۔ ہمارے ملک میں مظلوم کے ظالم ہونے کی بدترین مثال نکسل تحریک ہے۔ اس کے باوجود عدل و انصاف سے ہم کوسوں دور ہیں۔
’ملک کے مفاد‘ میں وزیر اعظم کے بعض حالیہ انقلابی فیصلے سے بھی عوام حیران و پریشان ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے فیصلے کے مشیران (Advisors) بھی ان کے اپنے پارلیمانی رفقا ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے چند پارلیمانی رفقا ملک میں جس انداز سے ’ہندتو‘ کی تبلیغ کر رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے ان کی حرکتیں ملک کے آئین کی روح کے منافی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم تو سوامی ووِیکانند کے زبردست پیرو ہیں، انہوں نے سوامی جی کی تقریروں سے خوب استفادہ کیا ہے۔ بطور یاددہانی سوامی جی کا ’کرم یوگ‘ پر دیا گیا ایک لکچر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک امریکی یہ سوچتا ہے کہ جو کچھ ایک امریکی اپنے ملک کے رواج کے مطابق سر انجام دیتا ہے وہی سب سے بہتر کام ہے اور جو کوئی ان کے رواج کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ لازماً بدتہذیب انسان ہے۔ ایک ہندو یہ سوچتا ہے کہ اس کے رواج ہی واحد درست رواج ہیں اور دنیا میں سب سے عمدہ ہیں اور جو کوئی اس کی تعمیل نہیں کرتا وہ لازماً دنیا کا بدتہذیب اور گنوار انسان ہے۔ لیکن دھیان رہے کہ یہ ایک نہایت نقصان دہ غلطی ہے۔ دنیا میں موجود آدھی سفاکیت و کنجوسی کی وجہ یہی ایک غلطی ہے۔‘‘ (کرم یوگ، صفحہ 70)
ہمارے ملک میں ہندو برادران ’گائے‘ کو اپنی ’ماتا‘ اور ’پوجیہ‘ سمجھتے ہیں، یہ ان کی اپنی شردھا اور عقیدت ہے۔ اس کام کے لیے وہ کسی دوسرے کو مجبور نہیں کرسکتے ورنہ عمل اور ’ردعمل‘ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ البتہ ملک کے ان افراد (مسلمان، عیسائی اور دیگر ذات پات کے لوگ) کو ضرور اس بات کا لحاظ کرنا چاہیے کہ وہ دیگر پالتو جانوروں کا گوشت استعمال کریں لیکن ’ملک کی قومی یک جہتی‘ اور ہندوئوں کی عقیدت کا خیال رکھتے ہوئے ’گائے‘ کو اس نظر سے نہ دیکھیں۔ یہ مسئلہ اتنا آسان ہے کہ کسی قانون کے بغیر بھی ہندو عقیدت مندوں کے جذبات کا خیال رکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے شہروں کے بازاروں میں ’گائے‘ واحد پالتو جانور ہے جسے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کو فی الفور اسے قابو میں کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی نام نہاد گئورکشکوں کو اس کی جانب ضرور توجہ دینی چاہیے۔
اس وقت مسلم قیادت ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں عقل خبط ہوجاتی ہے۔ شاید وہ اس دانش مندانہ نسخے کو بھی بھول گئی ہے کہ ’حکمت مومن کی متاعِ گم گشتہ‘ ہے۔ جس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت اس وقت حرام کھانے، سود لینے و دینے، زنا کرنے اور انسانیت کو شرمساد کرنے والی حرکتوں میں گردن تک ڈوب چکی ہو، اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انسانیت کے بہی خواہ ہوں گے۔ اگر ان کے بارے میں یہ منفی خیال ہمارے اکثر ہندو بھائیوں میں پیدا ہوا ہے، تو قصور کس کا ہے۔ افسوس کہ ہماری مذہبی و دینی قیادت بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی شاطرانہ سیاسی مکر و فریب کا شکار ہوکر اپنے فرائض منصبی کو بھول کر ’آگ میں گھی ڈالنے‘ کا کام مسلسل انجام دے رہی ہے۔ نازک اور سنگین صورت حال کا شاید اب بھی مسلم قائدین کو اندازہ نہیں اور جذباتیت سے اوپر اٹھ کر اب بھی وہ غور و فکر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے عزیمت کے بجائے رخصت کی راہ اختیار کرنا ’قہر الٰہی‘ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ شاید اسی طرح کے حالات کی نشاندہی کرتے ہوئے کبھی علامہ اقبال نے کہا تھا:
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر