جی ایس ٹی کےآغاز پرصدرجمہوریہ ہندنے آخر کیا کہا۔آئے جانیں

صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق پروگرام کو خطاب کرتے ہوئےجبکہ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ارون جیٹلی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے(تصویر:پی آئی بی)
صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق پروگرام کو خطاب کرتے ہوئےجبکہ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ارون جیٹلی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے(تصویر:پی آئی بی)

نئی دہلی (معیشت نیوز) پارلیمنٹ سینٹرل ہال میں جی ایس ٹی کے آغاز پر صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی نے کہا کہ’’اب سے چند لمحوں کے بعد ہم ملک میں ایک یکساں ٹیکس نظام ، ساز وسامان اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کے آغاز کےگواہ بنیں گے۔ یہ تاریخی لمحہ دسمبر 2002 میں شروع ہوئے 14 سال کے طویل سفر کا نتیجہ ہے ، جب بالواسطہ ٹیکس نظام پر کیلکر ٹاسک فورس نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کے اصول پر مبنی ایک جامع اشیا اور خدمات ٹیکس جی ایس ٹی کی تجویز رکھی تھی۔ جی ایس ٹی کو شروع کرنے کی تجویز سب سے پہلے مالی سال 07۔2006 کی بجٹ تقریر میں پیش کی گئی تھی۔ چونکہ یہ تجویز نہ صرف مرکز کے ذریعہ عائد کردہ بالواسطہ ٹیکسوں کی اصلاحات اور اس کو ازسرنو ترتیب دینے سے متعلق تھی بلکہ ریاستوں کے ذریعہ عائد کردہ بالواسطہ ٹیکسوں سے متعلق بھی تھی۔ لہذا جی ایس ٹی کے نفاذ کے لئے ایکشن پلان اور ڈیزائن تیار کرنے کی ذمہ داری ریاستوں کے وزرائے خزانہ کی با اختیار کمیٹی کو سونپی گئی، جو کہ اس سے قبل ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کو لاگو کرنے کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔ اس با اختیار کمیٹی نے نومبر 2009 میں سازو سامان اور خدمات ٹیکس پر تبادلہ خیالات پر مبنی پہلی دستاویز جاری کی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’دوستو!جی ایس ٹی کا آغاز پوری قوم کے لئے ایک یادگاری لمحہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ذاتی طور پر میرے لئے بھی اطمینان اور سکون کا لمحہ ہے کیونکہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے میں نے 22 مارچ 2011 کو آئینی ترمیمی بل کو متعارف کرایا تھا۔میں اس کے ڈیزائن اور نفاذکے عمل سے نہایت قریب سےوابستہ تھا ۔مجھے ریاستوں کے وزرائے خزانہ کی بااختیار کمیٹی سے رسمی اور غیر رسمی طور پر 16 مرتبہ ملاقات کرنے کا موقع ملا تھا۔میں نے گجرات ، بہار، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کے وزرائے اعلی کے ساتھ متعدد بار ملاقات کی تھی۔مجھے ان میٹنگوں کی بہت سی باتیں اور میٹنگوں میں اٹھائے گئے متعدد امور اور مسائل اب بھی یاد ہیں۔اس کام کی اہمیت اور وقعت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کہ آئینی، قانونی، اقتصادی اور انتظامی جہات پر محیط ہے ۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اس میں بے شمار متضاد مسائل تھے۔ اس کے باوجود میں نے ان میٹنگوں میں اور ریاستوں کے وزرائے خزانہ اور افسران کے ساتھ مختلف بات چیت میں محسوس کیا کہ ان میں سے زیادہ تر افراد تعمیری سوچ اور جی ایس ٹی کو شروع کرنے کے لئے زبردست جذبہ رکھتے تھے۔اس طرح مجھے پورا یقین تھا کہ جی ایس ٹی میں بھلے ہی وقت کے لحاظ سے کچھ تاخیر ہوسکتی ہے لیکن بالآخریہ نافذ ہوکر رہے گا۔میرا اعتماد اس وقت پختہ ہوگیا جب 8 ستمبر 2016 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور 50 فیصد ریاستی قانون ساز اسمبلیوں نے اس کو منظوری دے دی۔ مجھے آئینی (101 ویں ترمیم) ایکٹ کو منظوری دینے کا اعزاز حاصل ہوا تھا‘‘۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’دوستو! آئین میں ترمیم کے بعد، آئین کی دفعہ 279A کی تجاویز کی مطابق، جی ایس ٹی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کونسل جو مرکز اور ریاستوں کو جی ایس ٹی کے سلسلے میں اپنی جانب سے تمام تر شفارشات پیش کرنے کی ذمہ دار ہے ،جن میں ماڈل قوانین ، شرحیں ، رعایات شامل ہیں، اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے ۔یہ مرکز اور ریاستوں کا ایک مشترکہ فورم ہے اور اس سلسلے میں مرکز اور ریاستیں بغیر ایک دوسرے سے تعاون حاصل کئے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتیں۔ اگرچہ کونسل کے سلسلہ میں آئین نے ایک واضح ووٹنگ نظام فراہم کیا ہے، تاہم، یہ قابل ذکر ہے کہ اب تک منعقدہ 19 میٹنگوں میں تمام تر فیصلے، کونسل میں اتفاق رائے سے ہی لئے گئے ہیں۔اس بات کے اندیشے پائے جاتے تھے کہ ہزاروں اشیا کے لئے شرحوں کا تعین، جی ایس ٹی کونسل کے ذریعہ کرنا ممکن بھی ہوسکے گا یا نہیں کیونکہ مختلف ریاستوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے، کونسل نے خوشگوار طور پر اپنا کام مکمل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے‘‘۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’دوستو! ٹیکسیشن کے شعبے میں ایک نئے عہد کا آغا ز، جو ہم ابھی چند منٹوں میں کرنے والے ہیں، مرکز اور ریاستوں کے مابین ایک وسیع اتفاق رائے کا نتیجہ ہے۔ یہ اتفاق رائے، ایسا تھا جس نے نہ صرف وقت لیا بلکہ اس کے لئے کوششیں بھی کرنی پڑیں۔ یہ کوشش ان تمام افراد کی ہے جو مختلف سیاسی حلقوں سے متعلق ہیں اور جنہوں نے تنگ نظری پر مبنی مفادات کی نفی کرتے ہوئے قومی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ یہ بھارتی جمہوریت کی پختگی اور دانش مندی کو ایک طرح کا خراج عقیدت ہے‘‘۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’دوستو!مجھ جیسے شخص کے لئے بھی، جو ٹیکسیشن اور فائنانس کے معاملات سے قریبی طور پر وابستہ رہا ہے، تبدیلی کے امکانات، جن کے لئے ہم کوشاں رہے ہیں، وہ یقینی طور پرسانس روک کر نتائج کا انتظار کرنے سے متعلق ہیں۔ مرکزی آبکاری محصولات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ وزیر خزانہ کے طور پر میری مختلف مدت کار کے دوران ،یہ ہمیشہ مرکزی خزانے میں سب سے بڑے تعاون کار کے طور پر شریک رہا ہے۔ سروس ٹیکس نسبتا ابھی تازہ تازہ منظر عام پر آیا ہے تاہم مالیات کے شعبے میں اس نے بڑی تیزی سے نشو ونما پائی ہے۔گڈس اور سروسیز ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر چند اشیا کے علاوہ، یہ دونوں اب اضافی کسٹم محصولات، خصوصی اضافی کسٹم محصولات اور متعدد دیگر واجبات اور جرمانوں سمیت معدوم ہو جائیں گے۔ بین ریاستی فروخت پر عائد ہونے والا مرکزی فروخت ٹیکس، اُن اشیا پر عائد نہیں ہو گا جو ساز وسامان اور خدمات ٹیکس کے زمروں میں آتی ہوں گی۔ ریاستی سطح پر بھی واقع ہونے والی تبدیلی کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ بڑے ٹیکس جنہیں ختم کیا جا رہا ہے وہ قدروقیمت کے لحاظ سے عائد ہونے والے ، یا سیلس ٹیکس، داخلہ ٹیکس، اشتہارات پر عائد ہونے والے ٹیکس اور آسائش پر عائد ہونے والے ٹیکس ہیں جن کے ساتھ ریاستی سطح کے تفریحاتی ٹیکس اور متعدد دیگر محصولات اور واجبات شامل ہیں‘‘۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’دوستو!جی ایس ٹی ہماری برآمدات کو مزید مسابقتی بنانے کے ساتھ ساتھ گھریلو صنعت کے لئے بھی زمین ہموار کرے گا اور یہ درآمدات کے ساتھ مسابقت کی اہل بن سکے گی۔فی الحال چند بندشوں کی وجہ سے ہماری وبرامدات میں اب بھی کچھ مضمراتی ٹیکس باقی ہیں جن کی بنیاد پر یہ قدر ےکم مسابقت کی حامل ہے، اسی طرح بندشوں کے مقفی اثرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گھریلوں صنعت پر عائد ہونے والا مجموعی ٹیکس شفاف نہیں ہے۔ جی ایس ٹی کے تحت ٹیکس کا اطلاق شفاف ہوگا جس کے نتیجے میں برامدات پر عائد ہونے والا ٹیکس کا وزن یکسر ہٹ جائے گا اور درآمدات پر عائد ہونے والے گھریلو ٹیکس پوری طرح سے نافذ ہو سکیں گے۔‘‘
صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’دوستو! مجھے بتایا گیا ہے کہ جی ایس ٹی کا نفاذ عالمی پیمانے کی جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نظام کے ذریعہ کیا جائے گا۔ مجھے جولائی 2010 میں اس وقت کی یاد آ گئی جب میں نے جی ایس ٹی نظام کے لئے درکار آئی ٹی نظام کے فروغ کے لئے جناب نندن نیلکنی کی سربراہی میں ایک با اختیار گروپ کی تشکیل کی تھی۔ اسی طرح، اپریل 2012 میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے لئے حکومت نے اسپیشل پرپز وہیکل یعنی جی ایس ٹی این (جی ایس نیٹ ورک) کی تخلیق کیلئے حکومت نے اپنی منظوری دی تھی۔ یہ انتظامات اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کئے گئے تھے کہ جب جی ایس ٹی کو آگے لے جانے کے لئے قانونی فریم ورک تیار ہو جائے تو بنیادی ڈھانچے کی تیاری میں کوئی وقت برباد نہ ہو۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس نظام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ خریداروں کو ان کے ذریعہ ادا کئے گئے ٹیکس پر منافع ( کریڈٹ) حاصل ہوگا جب کہ اصل فروخت کاروں کو اپنی جانب سے حکومت کو ٹیکسوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔اس سے خریداروں کو ایماندار اور ادائیگی کرنے والے فروخت کاروں کو،جو اپنے بقایاجات فوراَ ادا کرتے ہیں ،لین دین میں بڑی مراعات حاصل ہوں گی‘‘۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’متحدہ عام قومی بازار کی تشکیل سے جی ایس ٹی، معاشی صلاحیت، ٹیکس کی ادائیگی اور گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افضائی میں اہم رول ادا کرے گا۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’دوستو!جی ایس ٹی ایک انتشاری تبدیلی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جب ویٹ نافذ کیا گیا تھا اور اس کے خلاف ابتدائی طور پر مزاحمت ہوئی تھی۔ جب اس طرح کی تبدیلی کی جاتی ہے تو ابتدائی مراحل میں کچھ پریشانیاں اور مشکلات درپیش ہوتی ہیں، خواہ وہ تبدیلی مثبت ہی کیوں نہ ہو۔ ہم سب کو انہیں سمجھداری اور تیزی سے حل کرنا ہوگا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس سے معیشت کی نمو پر منفی اثر ہیں پڑے گا۔ اس طرح کی اہم تبدیلیوں کی کامیابی ہمیشہ ان کے موثر نفاذ پر منحصر ہوتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں، اصل نفاذ کے تجربے کی بنیاد پر، جی ایس ٹی کونسل اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کو ڈیزائن اور اصلاحات کے لئے اسی تعمیری جذبے سے جس کا اب تک مظاہرہ کیا گیا ہے، کے ساتھ مسلسل تجزیہ کرتے رہنا ہوگا‘‘۔صدر جمہوریہ نے اپیل کرتے ہوئےکہا کہ “اب جب کہ ہم ایک ملک، ایک ٹیکس ایک بازار کا نظام متعارف کرانے جارہے ہیں، میں اپنی تقریر کا اختتام ،ہر ہندوستانی کو یہ پیغام دینے کے ساتھ کرتا ہوں کہ اس نئے نظام کے کامیاب نفاذ میں سب اپنا تعاون دیں‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *