حامد انصاری کا انٹرویو‘قومی کشمکش کا شاہکار
ڈاکٹر سید ظفر محمود
حامد انصاری ‘سابق نائب صدر جمہویہ کے اپنے عہدے کی مدت کے آخری دن مشہور صحافی کرن تھاپڑ کو دئے گئے راجیہ سبھا ٹی وی انٹرویو میں علامہ اقبال کے تصور خودی کی عکاسی نظر آتی ہے۔ اقبالؔ کے مطابق خودی کی اخلاقی تعریف ہے خود مختاری‘ خود احترامی‘ خود اعتمادی ‘ خود نگہداری اور خود وثوقی کے ساتھ سچائی‘ عدل اور فرض شناسی کی پاسداری کرنا‘ اگر ایسا کرنے میں اپنی ذات کے لئے خطرہ دکھائی پڑ رہا ہو تب بھی۔ خودی کی روحانی تعریف کے مطابق یہ ضمیر کی وہ چمکدار روشنی ہے جو ذہن میں تشکیل تخیلات و تخلیقات کو جلا بخشتی ہے ‘ یہ وہ خاموش قوت ہے جو عملی جامہ میں آنے کے لئے بیتاب رہتی ہے۔ اسی تصور خودی کا استعمال کر کے علامہ نے نصیحت کی کہ:
ہزار چشمے تیرے سنگ راہ سے پھوٹیں
خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
گذشتہ دو تین برس میں حامد انصاری نے ملک میں جو کچھ ہوتے ہوے دیکھا ہے ان نظاروں کے پس منظر میںان کا روحانی وجوداپنی خودی میں غوطہ زنی کرتا رہا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ ان کے ضمیر کی سچائی ‘عدل اور فرض شناسی کی آواز نے ملک کی نائب صدارت سے سبکدوشی سے قبل ہی ان کی خاموش قوت کو عملی جامہ پہنا دیا۔ کرن تھاپڑ کے سوالوں کے اپنے نپے تلے الفاظ پر مبنی جوابات سے انھوں نے اپنی عبدیت کا حق ادا کر دیا اور125 کروڑکے ملک میں باایمان لوگوں کو مرہون منت کر دیا۔ آزاد ہندوستان میں اتنے اعلیٰ عہدے سے ضمیر کی اس قدر صاف گوئی اور خوش بیانی کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ گئو رکشکوں کے ذریعہ کئے گئے حالیہ حملوں‘ جگہ جگہ بھیڑ کے ذریعہ پروگرام کے تحت ایک نادارشخص کا قتل ‘ لو جہاد‘ گھر واپسی کی منظم کوشش جیسی دستور مخالف حرکتوںاورحکومت کے ذریعہ ان کی گرفت نہ ہونے کے لئے حامد انصاری نے کہا کہ اس سے اعلیٰ ہندوستانی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ(Breakdown) اور نفاذقانون کے رکھوالوں کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے اورہندوستان کے کسی بھی شہری کی ہندوستانیت پر سوال کھڑے کرنا ذہن کو مضمحل کرتا ہے۔ ہم ایک جامع سماج ہیں جو صدیوں سے ایک ایسے گرد و پیش (Ambience)میں رہ رہے ہیںجہاں ایک دوسرے کو دل سے قبول کیا جاتا رہا ہے‘ اب اُس ماحول پر خطرہ منڈلا نے لگا ہے۔ کرن تھاپڑنے پوچھا کہ کیا آپ متفق ہیں کہ ہندوستان میںعدم رواداری(Intolerance) بڑھ رہی ہے نائب صدر نے کہا ’جی ہاں میں نے اس بارے میں پہلے بھی اپنی بنگلور کی تقریر میںذکر کیاہے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ نے اپنی تشویش کا اظہار وزیر اعظم سے کیا ‘ حامدصاحب نے کہا کہ’ جی ہاںلیکن وزیر اعظم اور نائب صدر کے درمیان ہونے والی گفتگوحضوصی استحقاق (Privileged conversation)کے دائرے میں ہی رہنی چاہئے۔سوال‘ کیا آپ ان کے جواب سے مطمئن ہوے‘جواب‘بھئی ہر تشویشناک ماجرے کی ہمیشہ کچھ نہ کچھ وضاحت اور صفائی دی جاتی ہے ‘ لیکن یہ عقل پر منحصر ہے کہ وہ وضاحت کس حد تک منظوری کے لائق ہے ‘اس پر کرن تھاپڑ نے کہا کہ یہ جواب بڑا اہم ہے اور عقلمند لوگ یقیناً سمجھ جائیں گے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
؎
کرن تھاپڑ نے یاد دلایا کہ گذشتہ چند مہینوں میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہر فلم دکھائے جانے سے قبل جن گن من گایا جائے ‘ پھر مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ وندے ماترم کم از کم ہفتہ میں ایک دفعہ تامل ناڈو کے اسکولوں میں اور کم از کم مہینہ میں ایک دفعہ سرکاری دفتروں اور پرائیویٹ اداروں میںگایا جانا چاہئے‘ ان فیصلوں نے رائے عامہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے‘ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ یہ عدالتی تجاوز (Judicial overeach) ہے اور کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سب قومی ترانہ اور قومی گیت کے تئیں ایسا مبالغہ آمیزاظہار اطاعت و وفاداری کریں اور کیا ہمارے جذبہ قومیت کی اس نمائش کی ضرورت ہے۔ حامد صاحب نے جواب دیا کہ عدالتیں بھی سماج کا ہی حصہ ہیں اور اکثر جو وہ کہتی ہیں اس میں چاروں طرف پھیلے ہوے ماحول کی عکاسی ہوتی ہے‘ میں اسے عوامی عدم تحفظ کے احساس سے تعبیر کرتاہوں‘ اپنے قومی جذبہ کو صبح شام اجاگر کرنے کی یہ روش غیر ضروری ہے‘ یہ یقین کامل رکھنا کہ میں ایک ہندوستانی ہوں بس اتنا کافی ہے‘ یہ عموماًمان لیا جانا چاہئے کہ ہر ہندوستانی ملک کے لئے فرمانبردارہے۔کرن تھاپڑ نے یاد دلایا کہ نائب صدر نے چند روز قبل ہی بنگلور کی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ قومی جذبہ کی وہ ماہیت(Version) جو ثقافتی ارتکاب(Cultural commitment) کو اپنی بنیاد بنا کے رکھتی ہے وہ عام طور پر قومی جذبہ کی سب سے زیادہ دقیانوس اور تنگ دل شکل سمجھی جاتی ہے ‘ اس سے متعصب اور مغرور وطن پرستی (Intolerant and arrogant patriotism)کو فروغ ملتا ہے ‘ انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس پر گفتگو کر رہے تھے یعنی آپ 2017 میں ملک کے موڈ پر بات کر رہے تھے آپ نے ایسا کہنے کی ضرورت کیوں محسوس کی‘جواب ملا جی ہاں یقیناً‘ ہر ایک کا بولنے کا ایک ایک انداز ہوتا ہے اور میں نے اپنے انداز سے گفتگو کی۔سوال‘ آپ نے سوامی وویکانند کا حوالہ دیا کہ’ہمیں دیگر مذاہب کوصرف برداشت ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ مثبت طور پر انھیں گلے بھی لگانا چاہئے کیونکہ ہر مذہب کی بنیاد حق ہے‘ کیا آپ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ کچھ مذاہب سے ملک میں دوری رکھی جا رہی ہے بلکہ ان کے ساتھ تعصب بھی ہو رہا ہے۔ جواب‘میں سمجھتاہوںکہ رواداری ایک نیک فضیلت ہے(Tolerance is a virtue) لیکن وہ ناکافی ہے‘ اس لئے ہمیں اگلے پائیدان پر جانا ہے ‘ رواداری سے قبولیت و منظوری کی طرف(From tolerance to acceptance) اورعام طور پر وہ قبولیت ہمارے ملک میںفی الحال عنقہ ہے۔
کرن تھاپڑ نے کہا کہ حال کے برسوں میں بی جے پی کے اراکین‘ وزرا اورسنگھ پریوار کی معروف شخصیات کی طرف سے تبصرے آئے ہیںجن میں مسلمانوں کو خاص طور پرتختہ مشق بنایا گیا ہے‘میں نام نہیں لوں گا لیکن ایک وزیر نے ذکر کیا حرام زادوں اور رام زادوں کا‘ آر ایس ایس کے ایک سربراہ نے کہا کہ سبھی ہندوستانی ہندو ہیں اور اس کے فوراً بعد ایک سینئیر وزیر نے لقمہ دیا کہ ہندتوا ہی ہندوستان کی پہچان ہے ‘پھر ایک شخص نے کہا جو بعد میں وزیر اعلیٰ بن گئے‘ کہ مسلمان ہو جانے والی ہر ایک ہندو لڑکی کے بدلے میں ایک سو مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائوں گا‘ محترم نائب صدر آپ بھی مسلمان ہیں‘ سیاسی طاقت والے ان لوگوں کی زبان سے یہ سب سن کر آپ کو کیسا لگتا ہے۔ جواب‘میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والا ہر شخص ناخواندہ ہے‘ متعصب ہے اور وہ اس بنیادی قومی ساخت سے ہم آہنگ نہیں ہے جس پر ہندوستان نے ہمیشہ ناز کیا ہے یعنی کہ ہمیںبالحاذ و فراخ دل سماج بن کے رہنا ہے۔تھاپڑنے کہا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ان تبصروں کے نتیجہ میں ملک میںجو موڈ پیدا کیا گیا ہے اس کی وجہ سے مسلمان فکر مندہیں اور وہ اپنے کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں‘ کیا یہ صحیح اندازہ ہے یا یہ مبالغہ ہے۔جواب‘ جو کچھ میں ملک کی مختلف سمتوں سے سن رہا ہوں‘ میں نے یہی بنگلور میں بھی سنا اور ملک کے دیگر حصوں میںبھی سنا ‘ شمالی ہندوستان میں ہر روز سنتا ہوں‘ ملک میں بیچینی و اضطراب کی کیفیت ہے‘ عدم تحفظ کا احساس وجود میں آ رہا ہے۔ حامد انصاری چاہتے تو ہزاروںلاکھوں افراد کی طرح خاموشی سے گوشہ نشینی اختیار لر لیتے اس فکر میں کہ شاید آگے ذاتی طور پر کچھ اور فائدہ ہو جائے لیکن انھوں نے حق کا راستہ چن کر مثال قائم کر دی کہ کس طرح انفرادی وجود مجازی اوراور ہستی قوم کو حقیقی بنایا جا سکتا ہے ‘ اس طرح انھوں نے علامہ کے ذہنی انتشار کو آسودگی بخشی :
کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر تو ملی
آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی