بہار میں سیلاب کی آفت اورراحت میں سیاست

پٹنہ میں لالو پرساد یادو کی ریلی کا منظر
پٹنہ میں لالو پرساد یادو کی ریلی کا منظر

محمد عارف انصاری
جنرل سکریٹری بہار اسٹیٹ مومن کانفرنس، پٹنہ رابطہ : 9572908382
سیلاب کی قیامت خیزتباہی سے بہار کے ۱۹؍اضلاع میں تقریباً ۲؍کروڑ کی آبادی متاثر ہوئی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اموات واقع ہوئی ہیں۔مرنے والوںکو قبر تک نصیب نہیں ہوئیں اور نعشوںکوبلا کفن پانی میں بہا دینے مجبور ہوناپڑا۔جو بچ گئے ہیںان کے کھانے پینے کا کوئی ٹھکانہ ہے ،نہ تن ڈھاکنے کو کپڑے اور نہ رہنے کو گھر ، کھلے آسمان تلے رہنے کو مجبور ہیں۔پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے جس کے سبب آرسینک اور آئرن آلود پانی پیناپڑرہاہے ۔دودھ کے فقدان سے بچے بلک رہے ہیںاور خواتین پریشان ہیںاورانتظامیہ کے تمام تردعووں کے باوجودبھی دودھ پائوڈر کی فراہمی نہیں ہو پارہی ہے۔لوگوں کو سوکھے اناج وایندھن اورگیس کی سخت ضرورت ہے جو پوری نہیںہوپارہی ہے ۔ سڑکیںوپل بہہ جانے کے سبب آمد و رفت متاثرہے جس کے سبب وہاںنہ توراحت کے سامان پہنچ پارہے ہیںاور نہ لوگ ذاتی طور پر ہی کچھ کرپارہے ہیں۔زیادہ دنوں تک پانی جمع رہنے کے سبب نہ صرف وبائی امراض کا خطرہ ہے بلکہ لوگ مختلف کی بیماریوں کے شکارہونے لگے ہیںاور ان کے لئے مناسب طبی خدمات کیا، سردی زکام اور بخار کی دوا بھی محال ہے۔چارہ کی قلت کے سبب باقی ماندہ بے زبان جانور بھی بھوکے مر رہے ہیںاوران کے سڑے ہوئے باقیات کے سبب ماحول پر تعفن ہوگیا ہے۔بہت سی عبادت گاہیں ،اسکول و مدارس اوردیگرتعلیم گاہیں بھی سیلاب کی نذر ہو گئی ہیںجس کے سبب نظام تعلیم متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔وزیر اعلی نتیش کمار کی تمام تر ہدایات کے باوجودراحت کے نام پر لگائے جانے والے کیمپ وہیںلگائے گئے ہیں جہاں تک لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ پانی میں گھرے ہوئے لوگوں تک توسامان راحت پہنچ ہی نہیں پارہے ہیں۔سرکاری اشیائے راحت کی تقسیم میں بد عنوانی بھی شباب پر ہے ،جس کے سبب ہنگاموں کے ساتھ ہی سڑک جام کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔حکومت نے جو معاوضے کا اعلان کیا ہے وہ بھی کم ہی لوگوں کو پا رہا ہے اور معاوضے کی رقم۹؍ہزار ۸سو روپئے کی جگہ محض ۶؍ہزار روپئے ہی دیئے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔فصلیں تباہ ہوگئی ہیں،حکومت نے اس کے لئے فی ایکڑ ۵؍ہزار۴؍سوروپئے کے حساب سے معاوضہ کااعلان کیا ہے۔ بتایاجارہاہے کہ اس کی رپورٹ تیار کرنے کے عوض زرعی صلاح کاروںکے ذریعے ایک ہزار۵؍سو روپئے کے حساب سے رشوت طلب کیاجارہاہے۔یعنی سرکاری ملازمین کے لئے یہ سیلاب ناجائز آمدنی اورکمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔اس سلسلے میں قابل ذکر ہے کہ ریاست میں نئی حکومت وجود میںآنے کے بعد سرکاری عملہ اور افسران کے رویے میںخاصی تبدیلی آگئی ہے۔ان کی ایک تعداد مسلمانوںکے ساتھ تعصب سے کام لے رہی ہے۔بالخصوص مسلم اکثریتی علاقہ سیمانچل میںان کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ انہیںمسلمان ہونے کی سزادے رہے ہیں۔
پانی اترنے کے بعدسب سے اہم مسئلہ سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کا ہے جو آسان نہیں ہے۔اشیائے خوردنی،پینے کا صاف پانی، رہائش گاہ و مکانات کی تعمیر،حفظان صحت،روزگار وآمدنی،کاشتکاری ،بچوں کی تعلیم کے ساتھ ہی روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ہی زندگی کو معمول پر لانا آسان نہیں ہے۔حکومت کامحکمہ آفات منیجمنٹ بھی پوری طرح ناکام ثابت ہوگیا ہے۔اگر یہ محکمہ بروقت ہائی الرٹ جاری کر دیتا تو لوگ اپنے بچائو کی کچھ تدبیریںضرور کرلیتے اورشاید اس قدر تباہی سے دوچار نہیں ہوتے۔سرکاری مشنریز کے کام کرنے کے انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے نبٹنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔تقریباً ۲۰؍سال قبل سابق مرکزی وزیرآنجہانی چتورا نند مشر نے اپنے ایک پرمغز مضمون میں تحریر کیا تھا کہ نیپال کے آبی ذخائر پر جو بندبنائے گئے ہیںوہ بہار کی سرزمین سے کئی سو فٹ اونچائی پر واقع ہیں۔ان کی آبی سطح جب بلند ہوجاتی ہے اور خطرے کے نشانات عبور ہونے لگتے ہیں تو حکومت نیپال اپنے بچائو میں بند کے پھاٹکوںکوکھول دیتی ہے جس کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ بہار کی ندیوں میںطغیانی آجاتی ہے اورسیلاب کی شکل اختیار کر کے میدانی علاقوں میں قیامت خیز تباہی مچا دیتی ہے۔لہٰذا ریاستی و مرکزی حکومتوں کو چاہئے کہ حکومت نیپال سے اس سلسلے میں گفت وشنید اورمعاہدے کر ے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ ریاست کے شمالی علاقوںمیںمختلف آبی ذخائراوربند کی تعمیرکرکے پوری ریاست میں نہروں کی جال بچھا دے، تاکہ سیلاب کے پانی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اس کے زور کو توڑا جا سکے۔اس طرح ریاست کوسیلاب کی تباہی سے نجات مل سکتی ہے اور خشکی کے ایام میں جمع شدہ پانی سینچائی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔نیزان بندوں پر پن بجلی پروجیکٹ قائم کرکے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف بہار خود کفیل ہو گا بلکہ دوسری ریاستوں کو بجلی فروخت کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے ساتھ ہی خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔مگر افسوس کہ ان کی باتوںپر کوئی کان نہیں دھرا گیا،جس کا نتیجہ ہے کہ باشندگان بہار مستقل طور سے اس قیامت صغرا کو جھیلنے پر مجبور ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *