سیلاب زدگان کی اجتماعی راحت رسانی دینی و ملی اداروں کا بڑا کارنامہ ہوگا

بہار میں سیلاب

محمد عارف انصاری، جنرل سکریٹری، بہار اسٹیٹ مومن کانفرنس

بہار کے موجودہ سیلاب زدگان کے درمیان راحت رسانی لائق تحسین ہے۔پریشانی کی اس گھڑی میں بندگان خدا کی معاونت عین ایمان ہے۔متاثرین سیلاب کے درمیان غرباء ومساکین کیابعض اصحاب ثروت بھی اشیائے خودونوش،پوشاک و بود وباش،علاج و معالجہ،روزگار اور دیگر ضروریات زندگی کے سلسلے میں تقریباً محتاج سے ہوگئے ہیں۔ایسے عالم میں مصیبت زدگان کے کام آناکسی مسیحائی سے کم نہیں ۔ اس سلسلے میںدینی وملی اداروںکی جانب سے بندگان خدا بالخصوص فرزندان توحیدکے درمیان بروقت راحت کاری کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔یوںتوعوام کوراحت پہنچانا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اسے انجام بھی دیا جاتا ہے ،لیکن جس انداز میں دیا جارہاہے اس سے لوگ ناواقف نہیں۔بقول شاعر ؎ ’’ہم جل چکے تو تھوڑی سی امداد بھیج دی ٭ سرکاری فرض ایسے ادا کردیا گیا‘‘۔سیلاب میں گھرے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے درمیان کی جانے والی سرکاری راحت کاری اسی کے مصداق ہے اورجو رپورٹیں آرہی ہیں وہ تسلی بخش نہیں کہی جاسکتیں۔اگر یہ دینی و ملی ادارے صحیح وقت پر اپنادست تعاون نہیں بڑھاتے توتباہی و بربادی کیا بھوک کے سبب نہ جانے مزیدکتنی جانیں تلف ہوجاتیںبلکہ نسل کشی واقع ہوتی۔ ان ہنگامی حالات میں یہ جو کچھ بھی کرپارہے ہیں اللہ انہیں شرف قبولیت بخشے اور ماجور فرمائے…آمین۔پانی اترنے کے بعد اصل مسئلہ لوگوں کی باز آبادکاری ہے اور حقیقت ہے کہ یہ حکومتوں کے فرائض میں شامل ہے۔مگر ریاست کے بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے میںسرکاری اعانتوں سے قطع نظر دینی و ملی اداروںکے لئے کرنے کے بڑے کام ہیں اوراس متعلق سے ایک منصوبہ کے ساتھ مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح گجرات وآسام فساد زدگان کے درمیان جمعیۃ العلماء و جماعت اسلامی ہنداور مظفر نگر فساد زدگان کے درمیان مذکورہ اداروں کے دوش بدوش آل انڈیا مومن کانفرنس نے جس منصوبہ بندی کے ساتھ راحت رسانی اور اجتماعی رہائش گاہ کی تعمیر کے سلسلے میں شاندارکارنامے انجام دیئے ہیںوہ تاریخ کے سنہرے باب ہیں۔اسی نہج پر بہار میں بھی طویل مدتی منصوبے کے ساتھ کام کریںتو اچھے نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔اگر ملت کے اصحاب خیر کی توجہ کاتسلسل اس جانب برقرار رہا جیسا کہ ابھی ہے تو ان اداروں کے لئے یہ کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔البتہ ایک نکتہ قابل غور ہے کہ یہ ادارے الگ الگ کام نہیں کرکے اپنی شناخت باقی رکھتے ہوئے اسے اگر اجتماعیت کی شکل دیدیں اور باہمی اشتراک سے ایک منصوبہ کے تحت کام کریں تو اور بھی بہتر خدمات انجام دی جا سکتی ہیں۔اس سلسلے میںتوجہ مبذول کرانے کی مجبوری یہ ہے کہ ریاست میں نئی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد ایک حکمراں جماعت جے ڈی یو سے وابستہ ملی رہنمائوں کی ذمہ واریاںبھی مزید بڑھ گئی ہیں۔ انہیں حاشیہ برداری کے بجائے اپنی اہلیت ثابت کرنے کا موقعہ ہے،کیوں کہ متعصب سرکاری ملازمین و افسران کے ذریعہ کیا جانے والا امتیازی سلوک کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سرکاری اعانتیں و معاوضے مسلمانوں کے درمیان مناسب طریقے سے نہیں پہنچ رہے ہیں،جیساکہ موصول ہورہی خبروںمیںبتایاجارہا ہے۔اس کی ایک وجہ تو وہی مذکورہ متعصبانہ رویہ ہے اوردوسری مسلمانوں کے درمیان سماجی کارکنوں کا فقدان اور احساس کمتری ہے۔اگر یہ رہنماء اورملی ادارے اس سمت بھی توجہ دیںتو ملت کے لئے مفید ہوسکتا ہے۔مثلاً سرکاری معاوضے کی رقم ۹؍ہزار ۸؍سو کی جگہ محض ۶؍ہزار ہی دیا جانااور فصل معاوضہ کے سلسلے میں زرعی صلاح کاروں کے ذریعے ایک ہزار ۵؍سوروپئے طلب کیا جانا اوردیگر سرکاری مراعات میں کوتاہی برتاجانا وغیرہ کی نگرانی کر کے اسے اصل صورت میں مستحقین تک پہنچانے کی کوششیںکی جائیں تب یہ ایک بڑا کارنامہ ثابت ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *