Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

قناعت کی دولت ہی اصل دولت ہے

by | Dec 20, 2017

ناشکری

کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان ایک معاشی حیوان ہے۔ آج دنیا کا ہر دوسرا معاشی ماہر یہی سمجھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اطمینان اور سکون حاصل کرلینا زندگی کا مقصد ہے۔ ان معاشی ماہرین نے انسان کے ہر مسئلے کو معیشت سے جوڑ دیا ہے۔ معاشی ماہرین انسان کے اخلاقی وجود کا یکسر انکار کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر انسان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کرنا ہے۔ یہ اطمینان اسی وقت ملے گا جب انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کرنے کے ذرائع آئیں گے۔
ان ذرائع کو صرف پیسے ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے، لہذا ہر شخص کا بنیادی مسئلہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔ کارل مارکس کے بقول جب انسان کو یہ پیسہ نہیں ملتا تو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے۔ وہ جنگیں لڑتا ہے، وہ لوٹ کھسوٹ کرتا ہے، وہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتا ہے۔
آپ سرمایہ داریت کے بانی ایڈم اسمتھ کو دیکھیں یا اشتراکیت کے علمبردار کارل مارکس کو، دونوںکے معاشی فلسفے کا بنیادی مقصد انسان کو زیادہ سے زیادہ دولت اور اطمینان دلانا ہے۔ امریکا کا معروف سیاسی فلسفی اور ہاروڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مائیکل سینڈل اپنی کتاب what money can’t buy میں لکھتا ہے: آکسفرڈ یونیورسٹی کے استاد کرسٹوفر ہل نے ہمیں اپنا واقعہ سنایا۔ جب اس نے آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو تعلیمی سال کے اختتام پر ایک طالب علم نے اسے پانچ یورو کی ٹپ دی۔ لیکن مسٹر ہل نے طالب علم کی اس حرکت کو برا محسوس کیا۔ ہل کے خیال میں کسی بھی استاد کو ٹپ دینا غلط ہے۔ دوسری طرف جدید سرمایہ داریت کا بانی ایڈم اسمتھ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ہرچیز کی قیمت لگا سکتے ہیں۔ ہر استادجتنے طلبہ کو کھینچ کر اپنی کلاس میں لاسکے، اسے اتنی ہی تنخواہ دینی چاہیے۔ اگر یونیورسٹی اور کالج اپنے استاد کو متعین تنخواہ دیں گے تو وہ سست اور کاہل ہوجائیں گے۔ (صفحہ: 89)
ہر معاشی مفکر دنیاکو زیادہ سے زیادہ دولت دے کر خوشی، اطمینان اور سکون دینا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دنیا اخلاق سے دور ہوتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں ایسا عام ہے کہ کئی تعلیم یافتہ افراد تدریس چھوڑ کر صرف اس لیے خاکروب بن گئے کہ اس پیشے میں تنخواہ زیادہ ملے گی۔ (تراشے، صفحہ: 142)
مغربی دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں فی کس آمدن دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر حیرت انگیز طور پر انہی ممالک میں سالانہ خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اگرمال و دولت سے سکون اور اطمینان ملنا ہوتا تو یہ سرمایہ دار کبھی خود کشی نہ کرتے۔ دنیا کی معلوم تاریخ پانچ ہزار سال کی ہے۔ اتنے طویل عرصے میں کیا لوگ مطمئن نہیں ہوتے تھے؟ کیا ان تمام لوگوں کو ایڈم اسمتھ یا کارل مارکس کے مطابق صرف اور صرف دھن، دولت اور روپیہ پیسہ ہی اطمینان دیتا تھا؟
دنیا کے امیر ترین لوگ، مشہور ترین گلوکاراور دولت سے مالا مال حکمراں بے سکونی، بے اطمینانی اور بے چینی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ مال و دولت سے پیٹ تو بھرا جاسکتا ہے دل نہیں۔ دل کی دنیا میں نہ پیسہ داخل ہوسکتا ہے، نہ عہدہ و مرتبہ جا سکتا ہے، نہ ہی شہرت و ناموری۔ اللہ کے نبی کا اعلان ہے: ’’انسانوں کے دل گویا اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دے‘‘۔ (صحیح مسلم، رقم:2654) دلوں پر اللہ کا قبضہ ہے۔ یہاں سکون دولت، شراب، زنا اور عیاشی سے نہیں آئے گا۔ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ ہماری تاجر برادری کا بڑا حصہ آج بھی اللہ کو ناراض کرکے سکون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کا اعلان ہے: دلوں کو اطمینان صرف اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد: 28)
اگر چند روپے کسی سے کم بھی ہیں تو اس میں غم کی کیا بات ہے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت سامنے رکھیں: ’’یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں‘‘، لہذا جتنی مل جائے اتنی ہی غنیمت ہے۔ جو اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اس پر قناعت کرلو تو اللہ تعالی تمہیں سکون عطا فرمائے گا۔ اگر قناعت نہیں کی تو دنیا کے مال و اسباب تو بڑھتے جائیں گے مگر اطمینان ہرگز میسر نہیں آئے گی۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو حقیقی اطمینان عطا فرمائے۔

بہ شکریہ شریعہ اینڈ بزنس

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

کولکاتہ(معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستان کی چمڑا(لیدر) صنعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا مستقبل بہت زیادہ امکانات سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے میں بھی اہم شراکت دار ہے۔ اس مضمون...