کیا یہی ہے جمہوریت؟؟؟

mugalsarai

از:۔حساس نایاب،کرناٹک ۔ شیموگہ۔
26 جنوری یعنی یومِ جمہوریہ جو برسوں سے ہمارے ملک کی پہچان ہے ۔جسے 1950 سے ہر سال پورے ہندوستان میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ قومی ترنگا لہراتے ہوئے، مٹھائیاں تقسیم کر چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوان، بزرگ سبھی مناتے آرہے ہیں، پر حالاتِ حاضرہ کے مدِنظر یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے اور کس بنا پہ خوشیاں منائی جارہی ہیں ؟
ایسا لگ رہا ہے ہر کوئی خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اپنے چہرے پہ خوشیوں کا مکھوٹا سجائے جس ملک میں آج جمہوریت کی دھجیاں اْڑائی جارہی ہیں جہاں من کے مطابق زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ کھانے پینے سے لیکر پہنائوے، بول چال، گھومنا پھرنا ،یہاں تک کہ زندہ رہنے سے لیکر عبادات میں بھی مداخلت کرتے ہوئے بے مطلب کے قوانین عائد کر بندیشیں لگادی گئی ہوں ،ایسے ماحول میں جمہوریت کے نام پہ خوشیاں مناکر خود کو دھوکے کے سوائے کچھ نہیں دیا جارہا۔
ہمارا ملک تو طویل جدوجہداوربیشمار قربانیوں سے آزاد ہوا اور آزادی کے تیسرے سال 1950 میں جب جمہوری دستور نافذ کیا گیا اس وقت ہندوستان کے جمہوری نظام کو سنبھالے رکھنے کیلئے چار شعبوں کو اہم ستوں قرار دیا، جس میں پہلا لجسلیٹیو اسمبلی ،دوسرا ایگزیکیٹو، تیسرا جوڈیشیری اور چوتھا صحافت ہے ، ان چاروں شعبوں کو جمہوریت کے چار ستوں کہا جاتا ہے۔ انکی ذمہ داری ہے کہ اپنے تمام فرائض کو بخوبی نبھاتے ہوئے ہندوستان کی جمہوریت کو وقار کے ساتھ ہمیشہ برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔
پر افسوس آج یہ سارے ستون کھوکھلے ہوچکے ہیں ۔ انہیں کرپشن کی دیمک نے کھوکھلا کردیا ہے۔ جنکی ذمہ داری عوام سے جڑی ہوئی ہے ۔جنہیں عوام کیلئے رہنماء ، طاقت، آواز مانا جاتا ہے ۔لیکن آج وہ چند مطلب پرست طاقتوں کے آگے کمزور نظر آنے لگے ہیں یا یہ کہیں بک چکے ہیں ۔ ملک کئی مسائل میں الجھ گیا ہے ۔ چائلڈ لیبر، چائلڈ ابئیوز ، جنسی استحصال، چاروں طرف لوٹ مار، قتل وغارت، نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، رشوت خوری کا ماحول عام ہے، ہر جگہ ہر نگر ہر دفتر میں چپراسی سے لیکر اعلیٰ عہدیداروں میں بھی رشوت خوری کا راج چل رہا ہے غنڈ ہ گردی انتہاء پہ ہے جسکی وجہ سے سیکولرزم دم توڑنے کی کگار پہ آچکا ہے اور ہم چابی والے کھلونوں کی طرح حقیقت سے آنکھیں موندھے پرانے آئین کی خوشی میں چور ہیں، جسے آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے اور ہم اس پہ غور و فکر کئے بنا روبوٹ کی طرح صرف اتنا ہی کررہے ہیں جو ہمارے اندر فیڈ ہے۔ اسکے آگے بڑھ کر دیکھنے کی سمجھ بوجھ گنواچکے ہیں ، ہمارا فرض تو بس ایک دن جمع ہوکر جشن مناتے ہوئے ترنگا لہرادینا، مٹھائی تقسیم کر چند شاعروں کے جوشیلے انقلابی دیش بھگتی گیت گاکر،یاپرانی ہندی فلموں کے دیش بھگتی وقومی یکجہتی کے گانے بجاکر اس پہ دو چار ٹھمکے لگاکر خود کو ایک دن کے دیش بھگت کی طرح پیش کر کے اپنا فرض ادا کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ کیا آج دیش بھکتی کا مطلب صرف اتنا ہی ہے ؟؟؟
اگر یہی جمہوریت ہے اسی کو دیش بھگتی کہتے ہیں تو بڑی ہی شرمندگی اور افسوس کی بات ہے ۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہمارے بزرگوں نے بھی اتنا ہی کیا ہوتا وہ بھی ایک دن جمع ہوکر جشن مناتے ہوئے اپنی دنیا میں اپنے پریواروں کے ساتھ مدہوش رہتے تو آج ہم انگریزوں کے گھر باتھ روم صاف کرتے یا کسی انگریز کی جوتیاں صاف کرتے ہوئے زندگی گذار رہے ہوتے۔پر نہیں ہمارے بزرگوں کی حب الوطنی کا عالم ہی نرالا تھا انہیں ایک دن کی خوشی کی چاہ نہیں تھی ۔ بلکہ وہ تو تاعمر اور آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنے پیارے وطن کی آزادی کی مانگ کی جسکے لئے انہوں نے اپنے جان و مال تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے ہر قسم کی قربانی دیتے ہوئے اپنی وطن پرستی ثابت کی ہے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب پہ آنچ تک آنے نہیں دی ہر لمحہ ملک کی بہتری کامیابی کیلئے سخت سے سخت اقدامات اٹھاتے رہے ۔ ایسے وطن پرست رہنماؤں کی سرزمین پہ بسنے والی عوام آج روزانہ کئی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے انکی شہادت انکی قربانیوں کو پامال کر رہی ہے ۔
آج چند تعصب ذہنیت کے لوگ ہم سے خوداری کی زندگی چھین کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم اپنی بزدلی لاپرواہی ، کوتاہیوںسے جمہوری نظام کو ہی خطرے میں ڈال چکے ہیں اور ہماری ان غیر ذمہ دارحرکتوں کی وجہ سے سیکولرزم کے دشمنوں کوپناہ مل رہی ہے ، وہ ہم پر حاوی ہورہے ہیں۔ آئے دن ہمارے دیش بھگت جانبازوں کی بے حرمتی کررہے ہیں ۔ مہاتما کہلانے والے گاندھی جی جو ہندوستان کے باپو جی ہیں آج ان کے قاتل گوڈسے کی پوجا کی جاتی ہے ، جو کل تک انگریزوں کے دلال تھے آج انہیں کا بول بالا ہورہا ہے۔
دیش بھگتوں کی قربانیوں کو بھلاکر مفاد پرست دلالوں کی قدم بوسی کی جارہی ہے جو ہمارے ملک کیلئے بہت شرمناک بات ہے ۔اگر یہی اسی طرح چلتا رہا تو اسکا سب سے بڑا نقصان ہماری قوم کو ہوگا، آج ہماری قوم و ملت کے تمام رہنماؤں سے گذارش ہے کہ اپنی قوم کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے ہر نوجوان کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد کریں۔انکا ساتھ دیتے ہوئے انکی راہیں ہموار کریں کیونکہ آج تعلیم سے ہی ہمارے ملک اور قوم کی کامیابی ہے اور تمام والدین سے بھی گذارش ہے اپنے بچوں کو غربت کو وجہ بنا کر تعلیم سے محروم نہ رکھیں۔
آج ہماری قوم کی خستہ حالت کی سب سے بڑی وجہ تعلیم سے دوری ہے، ہمارے بچوں کا تعلیمی میعار دوسری قوموں کے برعکس نا کے برابر ہے جسکی وجہ سے قابلیت ہونے کے باوجود ہر شعبے میں ہمارے نوجوان پیچھے ہیں ، ڈاکٹر،انجینئر، وکلاء، آئی آے ایس جیسے وقاری عہدوں وپیشے غیر قوموں کی جھولی میں جارہے ہیں ابھی تو غفلت سے جاگو جو کچھ بھی کھویا ہے، اسے دوبارہ حاصل کرنے کیلئے تعلیم کی دنیا میں دوڑ لگاؤ اپنے حق کیلئے تعلیم کو ہتھیار بناکر لڑنا سیکھو۔ آخر کب تک اوروں پہ الزام لگاتے رہوگے کبھی تو اپنی ذمہ داری کو سمجھو، صرف 15 اگست اور26جنوری کے دن اپنی دیش بھگتی ثابت نہ کرو بلکہ ہر لحاظ میں خود کو قابل بناتے ہوئے خود سے ملک کا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بدلو ورنہ آنے والی نسلیں ہم سبھی سے پوچھینگی کہ ’’کیا یہی ہے جمہوریت ‘‘ ؟؟؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *