اپنی انفرادیت کے ساتھ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق کام تجارت کو فروغ دیتا ہے

فلمی نگری میں لائٹس کا کاروبار کرنے والےمعاذ الرحمن مارکیٹ کی اس ضروت کو پورا کر رہے جس سے دوسرے خالی نظر آتے ہیں پیش ہے معیشت کے مدیردانش ریاض کی تحریر جو موصوف سے گفتگو پر مبنی ہے۔
ممبئی کا اندھیری برقی قمقموں کی وجہ سے رات کا دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔فلمی ہستیاں رات گئے جب گھروں سےباہر نکلتی ہیں تو روشنیاں ان کا تعاقب کرتی نظر آتی ہیں ۔گوکہ نام اندھیری ہے لیکن وہاں اندھیرے میں وہ بھی نہیں رہ پاتے جو اپنی تنگ دامانی کی ستر پوشی کے لئے کسی فٹ پاتھ کا سہارا لیتے ہیں۔وہاں کی اسٹریٹ لائٹ بھی غریبوں کی جھگی جھوپڑیوںپر ایسے نظریں گڑائے رکھتی ہیں کہ جیسے ساراخزانہ انہوں نے ہی چھپا رکھا ہو اور اگر اندھیرا ہوا تو کہیں کوئی ان خزانوں پر ہاتھ نہ صاف کر لے۔ اسی اندھیری کے ڈی این نگر میں معاذ الرحمن فلاحی برقی قمقموں کے شاندار شو روم کے مالک ہیں جہاں سے بھانت بھانت کے برقی قمقمے ہزاروں گھروں کو بقعہ نور بنا چکے ہیں۔
اعظم گڈھ کے مشہورمدرسےجامعۃ الفلاح سے فراغت کے بعد جب انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویشن کی تکمیل کی تو گھر والوں نے تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھنے کی پیشکش کی لیکن طبیعت میںتجارت ایسےسوار ہوئی کہ انہوں نے ممبئی کا رخ کیا اور ’’جوگیشوری ‘‘کو اپنا مسکن بنا لیا۔
معاذ الرحمن کہتے ہیں’’لائٹنگ اور وہ بھی ماڈرن لائٹنگ کے کاروبار کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا نہ ہی گھر و خاندان میں کسی نے تجارت کی تھی لیکن جب میں ممبئی آیا تومختلف تجارت میں قسمت آزمائی کرنے لگا اور پھر چچازاد بھائیوں کے مشورے سے لائٹنگ کے کاروبار میں قدم رکھ دیا۔لہذا ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لی اور اس بزنس کے رموز و نکات سمجھنے لگا ، چونکہ مذکورہ دکان مارکیٹ سے باہر تھی لہذا اس سے خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں ہوا لہذا اسی دوران میں نے مین مارکیٹ میں شفٹ کرنے کا پلان بنایااور تقریباً آٹھ لاکھ کے نقصان کے ساتھ جب لائٹنگ کے لئے مشہورڈی این نگر میں اپنا شوروم قائم کیا تو مجھے مذکورہ نقصان پر کسی طرح کا کوئی افسوس نہیں ہوا۔‘‘
معاذ کہتے ہیں ’’تجارت میں نقصانات بھی بہت سارا سبق دے جاتے ہیں ،لہذا جس وقت میں اپنا نقصان کر رہا تھا اسی وقت میں تجربات کے دور سے بھی گذر رہا تھا اور ایک ایسی فیلڈ جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا اس کی تمام باریکیاں جاننے کی کوشش کر رہا تھا‘‘۔
معاذ لائٹنگ کے کاروبار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں’’مذکورہ کاروبار میں مارواڑیوں کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ ان کی آپسی ٹیوننگ اس قدر مضبوط ہے کہ کوئی دوسرااس کاروبار میں ٹِک نہیں پاتا،وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد بھی اس خوش دلی سے کرتے ہیں کہ دوسری برادری کا کوئی نیا کاروباری بزنس جمانے سے پہلے ہی مارکیٹ میںخسارہ برداشت کرتے ہوئے آئوٹ ہوجاتا ہے۔لہذاشروع میں مجھے بھی مارکیٹ کے اس راز کو سمجھنے میں کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑالیکن جب اس حقیقت سےواقفیت ہوئی تو اس کے تدارک کے لئے ’’نقد خریداری‘‘کو ہتھیاربنایا اور تمام پارٹیز کو فوری طور پر ادائیگی کرنے لگا۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگ تجارت پیسہ کمانے کے لئے کرتے ہیں لہذا جب انہیں فوری طور پر منافع ملنا شروع ہوگیا تو انہوں نے میرے ساتھ معاملات کرنے میں بہتری سمجھی اور سب سے زیادہ میرے آرڈرس پر توجہ دینے لگے‘‘۔ دوسری اہم بات جو میں نے تجارت کے آغاز سے ہی برتنے کی کوشش کی وہ دوست و احباب یا رشتہ داروں سے کم سے کم معاملات کا کرنا تھا۔عموماً ہوتا یہ ہے کہ دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے آپ معاملات تو کر لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کی بات آتی ہے تو عموماً تعلقات خراب ہو جاتے ہیں لہذامیں نے ایک اصول یہ بنا لیا کہ کسی دوست یا رشتہ دار سے محض تعلقات کی بنیاد پر کوئی معاملہ نہیں کروں گا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ملا ،کیونکہ نہ تو میں نے معاملات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی بنے بنائے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
تجارت میں ایمانداری و دیانت داری پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’رزق کا مالک اللہ رب العزت ہے ۔اس نے جس قدر لکھا ہے اسی قدر رزق حاصل ہوگا لہذا رزق کے حصول کےلئے میں نے کبھی لالچ کا سہارا نہیں لیا۔ابتداء میں ہی جب میرا اچھا خاصا نقصان ہوچکا تھا اور میں نے مین مارکیٹ میں نئی دکان کا آغاز کیا تھا ایک صاحب آئے اور انہوں نے کئیلاکھ کا آرڈردینے کا وعدہ کیا ۔غالباً شاہ رخ خان کی اہلیہ غوری خان کے بنگلے کا ڈیکوریشن ہورہا تھا انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ دو لاکھ کا مال دیں لیکن بِل آٹھ لاکھ کا بنائیں، باقی رقم میں ہم آپس میں تقسیم کر لیں گے ۔چونکہ ان کی طرف سے رقم بل کے مطابق چیک کی صورت میں آنا تھا جبکہ مجھے انہیں نقد ادائیگی کرنی تھی ،لہذامیں نے کسی توقف کے صاف منع کردیا اور کسی لالچ میں نہیں آیا ،وہ شخص پڑوس میں گیا اور کمیشن پر معاملہ طےکر لیا ۔چونکہ اس وقت میں خود بھی مالی طور پر نقصان اٹھا چکااور مسلسل نقصان اٹھا رہاتھا لہذا اس ڈیل کے نہ کرنے پر رات بھر سوچتا رہا کہ میں نے اچھا کیا یا خراب۔دوسرے ہی روز مجھے اتنے ہی منافع کا جائز آرڈر مل گیا اور میں گذشتہ کل کے واقعہ پر جس تاسف میں مبتلا تھا وہ کافور ہوگیا۔لہذا وہ دن ہے اور آج کا دن کبھی کسی بچولئے کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی کمیشن خوری کی بنیاد پر تجارت کوفروغ دیا ہے۔ مارکیٹ میں بھی لوگوں کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ یہاں کمیشن خوری نہیں چلتی لہذا وہ بھی اب یہاں آنے میںاحتیاط سے کام لیتے ہیں‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک ایسی تجارت جس کے رموز و نکات سے بھی واقفیت نہ ہو اس میں قدم رکھنا اور اپنی ساکھ قائم کر لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔یقیناً معاذ الرحمن نے جس کم عمری میں جس خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے وہ کم لوگوں کے ہی حصہ میں آتا ہے۔اندھیری جیسی جگہ جہاں ’’مایا نگری ‘‘اپنی پورے جوبن کے ساتھ موجود ہوتجارت میں کامیابی کے قدم بڑھانا اور بدلتے زمانے کے نت نئے اصولوں کے ساتھ کاروباری سفر جاری رکھنا یقیناً نئے آنے والوں کو حوصلہ دیتا ہے۔
معاذ کہتے ہیں ’’اس کاروبار میں تقریباً بیس ہزار سے زائد ڈیزائنس ہیں۔ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہوں جسے میں نہ جانتا ہوں۔ لہذا میں نے( Customized Item) کسٹمائزڈ آئیٹم کے ساتھ ساتھ(Antic Item ) اینٹک آئیٹم کی طرف خصوصی توجہ دی ہے، میرے اپنے تیار کردہ اتنے سارے آئیٹم ہیں کہ جنہوں نے ایک بار خریداری کر لی ، وہ بار بار تشریف لاتے ہیں۔‘‘
عمومی طور پر گھروں میں جلائے جانے والے بلب، ٹیوب لائٹس ،ٹیبل لائٹس پر گفتگو کرتے ہوئے معاذ معیشت سے کہتے ہیں’’روزانہ استعمال میں لائی جانے والی چیزیں بھی میرے پاس موجود ہیں لیکن جب سے میں نے مارکیٹ سے ہٹ کر اپنی ڈیزائنس سے خریداروں کو لبھانے کا کام شروع کیا ہے اس کے بعد سے نئے خریدار زیادہ قریب آئے ہیں۔قریب ہی فلم انڈسٹری ہے جہاں ہر سیٹ کے لئے نئے ڈیزائنس کی ضرورت پڑتی ہے لہذا ایک ہی بار اتنے سارے ڈیزائنس کا آرڈر آجاتا ہے کہ اب فرصت نہیں ملتی۔‘‘
معاذ کے مطابق’’اپنا خریدار جہاں آپ کے معاملات سے مطمئن ہو وہیں اسے اس بات کی بھی خیال ہو کہ اگر میں فلاں دکان پر گیا تو وہاں تمام مطلوبہ چیزیں مل جائیں گی اسے آپ تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے ۔لہذا اپنی انفرادیت کے ساتھ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اگر آپ کام کریں گے تو یقیناً تجارت میں کامیابی ملے گی اور آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکےگا‘‘۔