قصہ جاوید احمد غامدی سے ملاقات اور ان کے فکری خیالات کا

دانش ریاض الموارد کے ڈائریکٹر جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے(فوٹو کریڈٹ :حسن الیاس)
دانش ریاض الموارد کے ڈائریکٹر جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے(فوٹو کریڈٹ :حسن الیاس)

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
غامدی صاحب کو ہم نے اس وقت پڑھنے کی کوشش کی تھی جب ہمارا ستارہ عروج پر تھا اور گردش دوراں کا شکار نہیں ہوئے تھے۔چونکہ ہم لوگ انہیں پاکستان کے مولانا وحید الدین خان سمجھتے تھے لہذافکری طور پر کبھی خاطر میںہی نہیں لاتے تھے۔لیکن اب جبکہ دل میں ہر اس شخص کے لئے جو ملت کی بھلائی کے لئےمخلصانہ لِیک سے ہٹ کر سوچتا ہے جگہ بن گئی ہے تو ہر شخص کو قریب سے دیکھنے کی خواہش بھی موجزن رہتی ہے۔استاد محترم مولانامحمد عنایت اللہ اسد سبحانی دامت برکاتہم جب ملیشیاکے دورہ پر گئے اور الموارد کے ڈائرکٹر جناب جاویداحمد غامدی صاحب سے ملاقات کی تو سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں دیکھ کر ہی معلوم ہوا کہ موصوف پاکستان میں نہیں بلکہ ملیشیا میں مقیم ہیں اور وہیں سے اپنی دینی و فکری خدمات انجام دے رہے ہیں۔
لہذاجب میں نے ملیشیا کا قصد کیا اورجن لوگوں سے وہاں ملاقات کرنی تھی اس کی فہرست تیار کرنے لگا تو غامدی صاحب کا نام سر فہرست رہا۔میں نے وہاں پہنچتے ہی ان کے معاون جناب حسن الیاس سے رابطہ کیا تو انہوں نے دوسرے روز کا ہی ’’نویتا ‘‘بھیج دیالیکن میری مصروفیات اس قدر تھیں کہ ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے ہندوستان کے لئےروانہ ہوناتھا۔انتہائی پُرفضا مقام پر چاک و چوبند محافظوں کے درمیان بیٹھے غامدی صاحب اپنی تعمیر کردہ خانقاہ کے مالک ہیں ۔تبلیغ و ارشاد کے لئے جن جدید ذرائع کا استعمال الموارد کے احباب کرتے ہیں اس کی ایک چھوٹی سی شاخ وہاں بھی قائم ہے۔پہلی نظر میں ہی جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ سلیقہ اور قرینہ تھا۔ہر چیز جس سلیقے سے سجائی گئی تھی اور جس قرینے سے رکھی گئی تھی یہ بہت کم دینی اداروں میں دیکھنے کو ملتا ہےممکن ہے کہ مقامی تہذیب کا بھی اثر ہو جسے ہمارے پاکستانی دوستوں نے قبول کر لیا ہو۔چونکہ ملاقات کا وقت دوپہر کے ڈیڑھ بجے (1:30) طے کیا گیا تھا لہذا جیسے ہی میں پہنچا نماز ظہر کے لئے لوگ تیار ہو رہے تھے ۔چار نفوس پر مشتملجماعت کی امامت برادرم حسن الیاس نے کی اور پھر سنتوں سے فارغ ہوکر ہم ڈرائنگ روم میں آبیٹھے۔علم کا پہاڑ اگر سامنے ہو اور کسی مبتدی کو اسے سرکرنے کے لئے کہا جائے تو بیچارے کی حالت کیا ہوگی تقریباً وہی کیفیت میری تھی ۔میں نے معیشت میڈیاکا تعارفی بروشر،معیشت میگزین ان کی خدمت میں پیش کیا جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے قریب ہی رکھ دیا۔گفتگو شروع ہوئی تو تہذیبی کشمکش سے شروع ہوئی جسے انہوں نے خارج کرتے ہوئے اسے محض مسلمانوں کا واہمہ قرار دیا اور ایک سوال یہ داغ دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کون سی تہذیب تھی ؟روم و ایران کی تہذیب کیا تھی؟بات پھر خلافت راشدہ پر جاپہنچی ۔انہوں نے دوبارہ پوچھ لیا یہ خلافت راشدہ کیا چیز ہے؟میں نے کہا جہاں مساوات تھا ،انہوں نے کہا کہ مساوات تو فیم نزم کی پیداوار ہےاسلام تو عدل کا علمبردار ہے۔پھر کہنے لگے تحریک والوں نے از خود بہت سارے تصورات گھڑ لئے ہیں اور یہ ایک بڑا المیہ ہے۔پھر کہنے لگے’’ہم لوگوں نے پہلے اپنا ایک تصور قائم کیا ہواہے اور پھر اس کی روشنی میں اسلام کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتے بلکہ اسلام کو اپنے خاکہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک داعی ہمیشہ ہابیل کے نقش قدم پر چلتا ہے وہ قابیل بننے کی کوشش نہیں کرتا ۔وہ ہمیشہ پٹتا ،مارکھاتا ہے اور اسلام کی دعوت عام کرتا ہے ۔وہ کبھی بھی ہاتھ میں تلوار اٹھاکر اسلام کو فروغ دینا نہیں چاہتا بلکہ نظام اسلام قائم ہونے کے بعد نظام اسلام کو چست درست رکھنے کے لئے تلوار کا سہارا لیتا ہے‘‘۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ اصل میں خلافت تھے ان کےجسم و جان میں جو اسلام رچا بسا تھا وہ لوگوںکے لئے نمونہ تھا لہذا ان کے جاتے ہی دیکھیں خلافت کا کیا حشر ہوا۔البتہ جب بھی اس کردار کے لوگ آئے انہوں نے اسلام کونافذ کرکے دکھایا۔‘‘’’اگر آپ تہذیب کی بات کریںتو تہذیبیںتو اپنے آپ کو منواتی ہیں ۔اگر لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اسی انداز میں پیش کیا ہے کہ لوگ ان کو قبول کریں،اگر مغربی پروڈکٹس بازار میں زیادہ فروخت ہو رہے ہیں تو یہ اس کی کامیابی ہے کیونکہ آپ کے پاس ایسا کوئی پروڈکٹ ہی نہیں جو انہیں مات دے سکے‘‘۔اختراعات میں ملیشیا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پوری مسلم دنیا میں جتنے اختراعات ہوتے ہیں اس میں صف اول پرملیشیا دکھائی دے گا اس کے بعد ہی ایران اور ترکی کا نمبر آتا ہے‘‘۔
چونکہ مجھے ملاقات کا وقت آدھےسےپون گھنٹے تک کا دیا گیا تھا لیکن میریبےتکی باتوں کو دیکھتے ہوئے ہی شاید جناب حسن الیاس نے یہ کہتے ہوئے کہ آپ کے لئےUberبک کردیا ہے گفتگو کو ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔گفتگو کے اخیر میں میں نے جب ہندوستان و پاکستانی معاشرے کے تقابل کی روشنی میںیہ کہا کہ ’’ہندوستان کے بالمقابل پاکستان کا مسلم معاشرہ انتہائی خراب ہوچکا ہے تو انہوں نے نہ صرف اس کا اعتراف کیا بلکہ یہ کہا کہ آج بھی ہندوستانی معاشرے میں وہ مشرقی روایات باقی ہیں جو پاکستان میں ناپید ہوچکی ہیں۔
غامدی صاحب نے چلتے چلتے جو بات کہی وہ یہ تھی کہ ’’میں مولانا وحید الدین خان صاحب کے تمام خیالات سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن ہندوستانیوں کو چاہئے کہ وہ انہیں دوبارہ پڑھیں یقیناً وہ وقت آئے گا جب لوگ ان کی پوجا کریں گے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی فکری اعتبار سے نابغہ روزگار شخصیت ہیں ۔ان کے فکر و خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے علم سے استفادہ طالبان علم دین کے لئے انتہائی مفید ہے۔دراصل قومیںفکری معراج اس وقت حاصل کرتی ہیں جب ان کے یہاں نئے افکار کے دخول کی مکمل آزادی ہو۔فکری جمود نہ صرف جسم و جان کو لاغر بنا دیتا ہے بلکہ قومیںیکسر مفلوج ہوجاتی ہیں۔اسلام جس فکری ارتعاش کی پذیرائی کرتا ہے جب تک لوگوں نے دین کی ساز پر اسے بجانا ضروری سمجھا اس وقت انہوں نے منجنیق بھی بنائی اور ساحل سندھ و ہند کو تسخیر بھی کیا لیکن جیسے ہی فکری جمود نے اختراعات و انکشافات کو یکسر خارج از اسلام قراردیاوہ نہ صرف جبہ و دستار کی زینت بن کر مسجد کی چہار دیواریوں میں قید ہوگیا بلکہ اہل مدرسہ نے ایسا گلا گھونٹا کہ اب توصدائے لاالہ الااللہ بھی کم ہی سنائی دیتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے غامدی صاحب سے ملاقات کی تصویر جیسے ہی فیس بک پر اپلوڈ کی ۔ایک طرف جہاں تہنیت و مبارکباد ی کے پیغامات موصول ہوئے وہیں دوسری طرف وہی کمنٹس ملے جو ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آئے ہیں۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک صاحب نے تحریر کیا کہ’’جاوید احمد غامدی صاحب اچھی اور خوشحال زندگی گذار رہے ہیں،ماشاءاللہ اور کیا چاہئے،نئے افکار ونظریات پیدا کرواور مقبول ہوجائو۔اسلام اور قرآن وحدیث تو ہر قسم کی ہرزہ سرائی کے لئے تیار ہے ہی‘‘۔۔اب کسی کا خوشحال زندگی گذارنا بھی اسے خارج ازاسلام قرار دیتا ہوتوایسے افراد کا خدا ہی حافظ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *