
وہ لمحے یاد ہیں اب تک:مولانا مطیع اللہ فلاحی جو اب نہیں رہے

از قلم پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنوء یونیورسٹی
رفیق محترم مولانا مطیع اللہ فلاحی صاحب کا گذشتہ شب تقریبا بارہ بجے دل کے دورہ پڑنے کے سبب اچانک انتقال ہو گیا۔۔۔مولانا کی ناگہانی وفات نہ صرف ان کے اہل خاندان و و متعلقین بلکہ ان کے تمام شناسائوں، خیرخواہوں اور رفقائے تحریک کے لئے ایک بہت ہی دلخراش اور غمناک حادثہ ہے۔۔۔۔ ابھی تو ان کی وہ دلآویز مسکراہٹ بھی تازہ ہے جو 30 مارچ تا 1 اپریل جماعت اسلامی کے آل یوپی اجتماع ارکان کے وقت جامعة الفلاح ميں رفقاء اور مہمانوں سے ملتے ہوئے ان کے ہونٹوں پر سجی نظر آئی تھی، ابھی تو ان کے اخلاص و محبت کی تمام سوغاتیں تازہ ہیں، پھر یہ اچانک؟۔۔۔ لیکن کیا کریں گے موت دراصل ایک ایسی ہی حقیقت ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی نمودار ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ ہم انسانوں کے منصوبوں کی پا بند نہیں ہے۔ بلک وہ تو بس اس ذات ستودہ صفات کے حکم پرعمل کرتی ہے جو موت و حیات دونوں کا ماک ہے اور جس کےحضورآج یاکل ہرایک کوپنچناہے۔۔اناللہ و اناا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم جاامعة الفلاح کے سابق استاذ اور جماعت اسلامی علاقہ گورکھپور کے ناظم رہے ہیں۔اللہ تعالی نے انھیں اس دار فانی کی کل 72 بہاریں دیکھنے کا موقع دیا، بلیریا گنج میں مستقل مقیم تھے، خود بھی شاداب و پر بہار تھے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی دیکھنا انھیں پسند تھا۔ ….. یرحمه الله رحمة واسعة
مرحوم مطیع اللہ صاحب جامعة الفلاح كے فارغ التحصیل تھے، بعد میں مدینہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی اور وہاں سے کلیة الدعوہ کا کورس مکمل کیا، ، مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اپنی مادر علمی کی خدمت کے لئے جامعة الفلاح لوٹ آئے اور یہاں ریٹائرمنٹ تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،، ریٹائر منٹ کے بعد ادھر چند سالوں سے وہ جماعت اسلامی کے علاقہ گورکھپور کے ناظم کے طور سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔۔
زندگی کے کچھ یادگار لمحات میں مرحوم کے ساتھ میں بھی شریک تھا، انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ گورکھپور کے ناظم علاقہ تھے ، ان کے ساتھ میں نے تین سال قبل خوشینگر میں ان متاثرہ خاندانوں کا دورہ کیا تھا جو ریپ اور کیڈنیپ کے واقعات (Rape and kidnap Cases ) سے متاثر تھے، اس مخصوص سفر میں امیر حلقہ یوپی بھی ہمارے ساتھ تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب خوشی نگر میں غریب و بیکس مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نے علاقہ اور ملک کے حساس لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، یہاں کے مظلوم مسلمان یوپی کے موجودہ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی اور ان کی ہندو یووا واہنی کے خوف کے سائے میں جی رہے تھے اور مختلف قسم کی ظلم و زیادتی کا شکار تھے، اس وقت لوگوں پر اس قدر خوف طاری تھا تھا کہ متاثرہ گھروں کے افراد ظالموں کے تعلق سےہم سے کھل کر بات کرتے ہوئے اور اپنی داستان الم سناتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔۔۔۔اس دورے کا اصل مقصد واقعات کی ڈایرکٹ تحقیق اور متاثر بھائیوں کو تسلی و دلاسہ دینا تھا ۔یہ دورہ فی الواقع بڑا پر خطر تھا ، لیکن مولانا مطیع اللہ صاحب مرحوم کو میں نے کسی مرحلے میں نہ تو گھبراتے دیکھا اور نہ کبھی حالات سے پریشان پایا، وہ ان لوگوں میں سے بھی نہیں تھے جو ممکنہ خدشات کی وجہ سے دورے کو سمیٹ کر ہم پر پر جلد واپس چلنے کا دبا ؤ بنا رہے تھے ۔، بلکہ انھوں نے اس پیرانہ سالی میں بھی ہم نوجوانوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر خطرات سے بھرے ہوئے دور دراز علاقوں کا ہنستے مسکراتے دورہ کیا، اور مجھے وہ لمحات بھی یاد ہیں جب متاثر خاندانوں کی داستانیں سن کر اور مظلوم کمسن لڑکیوں کو دیکھ کر ہمارے ساتھ ان کی انکھیں بھی بار بار بھر آتی تھیں۔۔۔۔ امید ہے تحریک اسلامی کی نسل نو وفا کی ان سخت راہوں میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرے گی، اور ان کی زندگی کے ہر روشن ورق سے درس عبرت حاصل کرے گی۔ یہ امیدیں بے جا تو نہیں ہیں؟مولانا مطیع اللہ فلاحی مرحوم و مغفور بہت نیک طینت اور خوش خلق و خوش مزاج انسان تھے، رشتوں کو نبھانا اور تعلقات کو سنبھالنا جانتے تھے۔
مولانا کو ہندی زبان پر بھی خاصہ عبور حاصل تھا، عام جلسوں میں، جس میں غیر مسلموں کی بھی شرکت ہوتی، اپنے خطابات میں ہندی زبان بڑی برجستگی کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔۔۔برادران تحریک سمیت عام مسلمانوں کے ساتھ وہ ہمیشہ انتھائی مخلصانہ و برادرانہ تعلقات رکھتے تھے، راقم سے بھی وہ بڑی محبت کرتے اور جب بھی ملتے تعلق خاطر کا احساس ہوتا۔
مولانا رحمہ اللہ کے ساتھ میرے تعلق کی مختلف جہتیں تھیں، تحریکی رشتہ اخوت کے علاوہ ان کے ساتھ میرے تعلق کی ایک نسبت ہہ بھی تھی کہ ان کی ایک صاحبزادی لکھنؤ یونیورسٹی میں میری طالبہ رہی ہیں۔
مرحوم مدرسة الاصلاح اور جامعة الفلاح کے فکری و تعلیمی روابط کو بھی خاص اہمیت دیتے تھے، اور ان دونوں عظیم اداروں کو ایک ہی نظام کا حصہ اور ایک ہی مقصد کا عکس سمجھتے تھے۔ یہ وہ پہلو ہے جو ان دنوں ایسا محسوس ہوتا ہے، ان دو مخصوص مدارس کے فارغین کی نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے۔وہ ایک وسیع النظر اور دور اندیش انسان تھے اور ان لوگوں مین سے تھے جو مسلکی و مدرسی نسبتوں پر ملی و دینی نسبت کو ہر حال میں قابل ترجیح مانتے ہیں۔
مولانا مرحوم کے ساتھ بتائے ہوئے تمام لمحات اس وقت بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں، یہ لمحے خوشگوار یادوں کے حامل پیں اسی لئے تو وہ اب تک دل میں بسے ہیں ، لیکن وہ اندر سے دل کو زخمی بھی کر رہے ہیں کیوں کہ اب وہ لوٹ کر دوبارہ نہیں آئیں گے ، اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔۔۔ جانے والا بڑی خوبیوں کا مالک تھا
پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، سینٹر فار عرب اینڈ اسلامک کلچر، لکھنوء یونیورسٹی