
امریکہ میں مقیم ہندوستانی آخر اتنے اہم کیوں ہیں؟

فرینک اسلام
ہندوستان کے 31 ملین سے زیادہ تارکین وطن یا ہندوستانی نسل کے لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان میں سے دس فیصد یا 31 لاکھ ہند نژاد صرف امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ امریکہ میں رہائش پذیر یہ ہندوستانی ملک کی معیشت اور سیاسی وسماجی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
دویش کپور نے سال 2010 میں اپنی شاندار کتاب
“Diaspora, Democracy and Development: The Domestic Impact of International Migration from India”
میں اوورسیز یا تارکین وطن ہندوستانیوں کی اہمیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کپور نے اس کتاب میں 1960 سے لے کر 20ویں صدی کے آخر تک کا تجزیہ کیا ہے۔ہند نژاد امریکیوں کا نفوذ، اثر اور تعاون انتہائی شاندار رہا ہے اور جیسے جیسے ہم اکیسویں صدی میں آگے بڑھ رہے ہیں ، یہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہند نژاد امریکی آبادی معاشی اور تعلیمی طور پر دوسرے ایشیائی امریکیوں اور عمومی طور پر امریکی آبادی کے شانہ بہ شانہ رہی ہے۔
سال 2013 میں پیو کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں مقیم ایک ہندوستانی خاندان کی سالانہ آمدنی 88000 ڈالر تھی جب کہ دوسرے تمام ایشیائی لوگوں کے ایک خاندان کی اوسط آمدنی 66000 ڈالر اور امریکی خاندانوں کی 49800ڈالر تھی۔ اس تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ 38فیصد ہندنژاد امریکیوں کے پاس ایڈوانس ڈگریاں ہیں جب کہ ایسی ڈگری والوں کا ایشیائی ممالک میں تناسب 30 فیصد اور امریکی آبادی میں دس فیصد ہے۔
ہند نژاد امریکیوں نے کاروباری دنیا میں بھی کافی نام کمایا۔وویک وادھوا کی ایک تحقیق کے مطابق سال 2006 اور 2012 کے درمیان مہاجرین کا کاروبار سال 1995 سے 2005 کے مقابلہ میں بحیثیت مجموعی مندی کا شکار رہا ۔لیکن امریکہ میں مقیم ہندوستانی مہاجرین کے ذریعہ شروع کیے گئے کاروبار میں سات فیصد کا اضافہ ہوا اور ساری نئی شروع کی گئی کمپنیوں میں ہند نژاد امریکیوں کے ذریعہ شروع کی گئی کمپنیوں کا تناسب 32 فیصد تھا۔
بات صرف اتنی ہی نہیں کہ ہند نژاد امریکی اچھا کام کررہے ہیں بلکہ وہ اپنے مادر وطن سے سرمایہ کاری، خدمت خلق اور وہاں کے معاملات میں ذاتی طور پر شمولیت کے ذریعہ جڑے رہتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم ہندوستانی ملکی معیشت کو نمایاں طور پر نفع سے مالا مال کر سکتےہیں۔ وہ نت نئی اختراعات ، تجارت، حفظان صحت، تعلیم اورفنی مہارت کے میدانوں میں کافی معاون ہوسکتے ہیں۔ وہ پورے ملک میں کام کے نئے مواقع اور نئی کمپنیوں کے قیام میں مددگار ہوسکتے ہیں۔وہ ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرسکتے ہیں جہاں چھوٹی اور اوسط درجے کی کمپنیوں کوانتہائی اعلیٰ لیاقت ،ٹکنالوجی کی سہولت مہیا ہو ۔اس کے علاوہ وہ مالیات کی فراہمی میں بھی یہ حضرات کافی معاون ثابت ہوسکتےہیں۔
مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے اپنے سال 2014 کے مضمون ” امریکہ میں ہندنژاد ہندوستانی” میں یہ کہا تھا کہ” بیرون ملک مقیم ہندوستانی اپنی بہتر تنظیم اور ہر طرح سے اپنے مادروطن سے جڑے رہنے کے لئے جانے جاتے ہیں اور وہ اپنے وطن میں مختلف مواقع پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئےخرچ کرنے کو فرض سمجھتے ہیں ۔ “
راقم الحروف کا تعلق بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جنہیں اس ذمہ داری کا ادراک ہے۔میرے اور میری اہلیہ دیبی کے ذریعہ قائم کیے گئے فاؤنڈیشن کے ذریعہ ہم نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فرینک اسلام اینڈ دیبی اسلام مینجمنٹ کمپلکس کو قائم کیا اورگزشتہ سال مادرعلمی میں اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔ ہم نے ملک عزیز میں عورتوں کے لئے ایک ٹیکنیکل ٹریننگ اسکول کے قیام کے لئے خصوصی مالی مدد فراہم کرنے بھی عہد کیا ہے ،جس میں طالبات کو اعلی تعلیم دی جاسکے گی۔
ہند نژاد امریکیوں کے لیےہندوستان میں خدمت خلق کا کام کرنا کافی آسانی ہے کیوں کہ امریکہ میں ہی آے آئی ایف، پرتھم یو ایس اے اور ایکل جیسے کئی گروپ ہیں جو منظم طور پر کافی بڑے پیمانے پر اس طرح کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور ان لوگوں کی کوششوں سے کئی کافی مؤثر کام تعلیم، غربت کے انسداد اور ملازمت کے لئے تربیت کے میدانوں میں ہندوستان میں ہوئے ہیں۔
امریکہ میں مقیم ہندوستانی مختلف تنظیموں کے ذریعہ ہندوستان میں اچھا اثر چھوڑ سکتےہیں۔ جیسا کہ ایم پی آئی نے اپنی تحقیق میں پایا ہے کہ” بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں نے متعدد منظم، مالی وسائل سے بھرپور اور پیشہ ورانہ طور پر چلائے جانے والے گروپ کو قائم کیا ہے۔ یہ تنظیمیں بہت سارے میدانوں میں فعال ہیں ۔ بطور خاص خدمت خلق کے وہ کام جن سے تعلیم اور صحت میں بہتری آئے، عوامی بیداری کی تنظیمیں ، بزنس اور پیشہ ورانہ نیٹ ورک، میڈیا اور ایسی انجمنیں جن کے ذریعہ ہندوستانی تہذیب، زبان اور مذہب کا فروغ ہو۔
موجودہ نریندر مودی حکومت نے ہندوستان اور امریکہ کے مابین رشتے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سال 2015 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر براک اوباما کے دورے کے وقت اسٹریٹجک اور اقتصادی ڈائیلاگ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد انڈیا-امریکہ ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کو منظوری ملی۔
اس ڈائیلاگ کا محور ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن تھے اور اس کو 18،19 اپریل کو ہونا تھا لیکن ٹلرسن کو ٹرمپ کے ذریعہ ہٹائے جانے کی وجہ سے اسے مؤخر کردیا گیا۔
اب مائیک پومپیونئے امریکی وزیر خارجہ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ مئی یا جون میں کسی وقت منعقد ہوں گے۔ یہ میٹنگ ہندوستان اور امریکہ کے باہمی رشتے کے لئے بہت اہم ہے۔لیکن یہ بھی واضح رہے کہ دو اور دو مل کر محض چار ہی ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی ایک عظیم خواہش ہے اور اس کی میک ان انڈیا مینوفیکچرنگ پالیسی کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ امریکہ اس کا ایک اہم شریک ہو۔ اس کے لئے محض خواہشات سے آگے نکلنا ہوگا۔ ہندوستان کو بڑے اور بلند اہداف کے حصول کے لئے متوقع تعاون کا کئی گنا درکار ہوگا۔
ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ہند نژاد امریکی کافی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور یہ اس سے کچھ زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔اس کے پیچھے امریکہ میں ان کی کامیابیاں اور ہندوستان کی سمجھ ہے جس کی وجہ سے وہ ہندوستان میں بہتر اور مکمل نتائج کے حصول کے لئے اہم ایشوز کے اختیار کرنے اور ترجیحات کی ترتیب میں دخیل رہےہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی لوگ ہند نژاد امریکی افراد اور ان کی تنظیموں کے رابطے میں رہیں اور ہندوستان کی تعمیر و ترقی کے اس عمل میں ان کو مرکزی کردار بنائیں۔ کیوں کہ وسائل کی فراوانی اور بہتر رابطے کے ذریعہ ہی کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہےاور اسی ذریعہ سے بات چیت اور ڈائیلاگ کو نتائج میں بھی تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نژاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں