بے گھر اور بھوکے لوگوں کو کھانا کھلانا اظہر کا مشن
حیدرآباد کے ایک فلائی اوور پل کے نیچے فقیر، کوڑہ چننے والے اور مزدور حسب معمول پلیٹ لیے کسی کے منتظر ہیں۔ جیسے ہی ساڑھے بارہ بجتے ہیں ، ایک دبلا پتلا آدمی وہاں آتا ہے اور سب کے پلیٹ میں گرم گرم چاول اور دال ڈالنا شروع کردیتا ہے۔
حیدرآباد کے دبیر پور فلائی اوور کے پاس یہ نظارہ سال 2012 سے روز دیکھا جا رہا ہے۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب شہر کے اس فلائی اوور کی نیچے بھیڑ دوپہر کے کھانے کے لیے نہ اکھٹی ہوئی ہو یا یہ آدمی اس وقت نہ پہنچا ہو۔
یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ سید عثمان اظہر مقصودی ہیں جنہوں نے پچھلے چھ سال سے بھوکے اور ضرورت مندوں کی بھوک مٹانا اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہے” بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔”
اظہر ان لوگوں میں سے ہیں جن کےسر سے والد کا سایہ چار سال کی عمرمیں ہی اٹھ گیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے بھوک کی اذیت کو بھی خود بھی برداشت کیا تھالہذا اظہر بھوکوں کا درد سمجھتے ہیں اور ان کی دکھ کادرماں ثابت ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
اسی فلائی اوور کے نیچے چھ سال پہلے انہیں اتفاقا ََ ایک بے گھر عورت ملی جس کی پریشانی دیکھ کر ان کوبھوکے لوگوں کو مفت کھانا کھلانے کے لئے ایک پروگرام شروع کرنے کی تحریک ملی۔
36سالہ اظہر اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” لکشمی بھوک سے بلک رہی تھی۔ میں نے اسے کھانا کھلایا اور تبھی سے فیصلہ کیا کہ میرے پاس جو بھی محدود وسائل ہیں اس سے جتنا ممکن ہوگا بھوکے لوگوں کی بھوک مٹاؤں گا۔”
ابتدا میں ان کی اہلیہ گھر ہی میں کھانا پکاتی تھیں او ر و ہ فلائی اوور کے پاس کھانا لاکر لوگوں کو پیش کردیتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے وہیں کھانا پکانا شروع کردیا ، اس سے کھانا لانے کے خرچ سے بھی بچت ہونے لگی۔
اظہر نے بتایا کہ شروعات میں یہاں صرف 30-35 لوگ ہی آتے تھے لیکن اب 150 سے بھی زیادہ لوگوں کو کھانا ملتا ہے۔”
اب یہ پورا کام اظہر کی ایک تنظیم ثانی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ تنظیم نے کھانا پکانے کے لئے دوباورچی بھی رکھے ہیں۔
پچھلے تین سال سے انہوں نے یہاں کے علاوہ سکندرآباد میں واقع گاندھی اسپتال میں بھی کھانا کھلانے کاکام شروع کردیا ہے۔ یہ یہاں پر سب سے بڑ اسرکاری اسپتال ہے۔ فاؤنڈیشن کی گاڑی میں روزآنہ 150-200 لوگوں کا کھانا یہاں سے جاتا ہے۔ فاؤنڈیشن کچھ این جی اوز کے تعاون سے یہ کام بنگلور ، گوہاٹی، رائچوراور تاندور شہر میں بھی انجام دے رہا ہے۔
اظہر اس بات سے کافی خوش ہیں کہ جو کام انہوں نے اکیلے شروع کیا تھا اب اس کو کرنے کے لیے ان کے ساتھ ایک کارواں ہے اور بہت سارے افراد اور تنظیموں کو ان کے کام سے تحریک ملی ہے۔
اظہر اپنے مشن کی کامیابی کا احساس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” آج آپ شہر کے مختلف مقامات پر لوگوں کو مفت کھانا بانٹتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔” حالاں کہ ان کا ماننا ہے کہ ان کا خواب اس وقت تک ادھورہ ہے جب تک کہ پورے ملک اور دنیا سے بھوک نہ مٹ جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھوک نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہونی چاہیے۔
دبیرپورہ فلائی اوور کے پاس ان کی پلاسٹر آف پیرس کی دوکان ہے جہاں وہ روزآنہ صبح وشام کچھ گھنٹے بتاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ “بقیہ اوقات میں دونوں مقامات پر کھانے کے انتظام میں لگا رہتا ہوں۔” اظہر کے اس کام میں ان کے بھائی اور گھر کے دوسرے لوگوں کے علاوہ کچھ رضاکار ہفتہ میں چھٹیوں کے دن ہاتھ بنٹاتے ہیں۔
اظہر اپنی دوکان پر بیٹھے تھے تبھی ایک صاحب خیر اپنی موٹر سائیکل پر تین بور ی چاول لے آئے۔ اظہر نے خود ہی ان بوریوں کو اتارا۔
پچھلے مہینے بالی وڈ اداکار سلمان خان نے انہیں اپنے فاؤنڈیشن “بی انگ ہیومن” کے ایک پروگرام میں حصہ لینے ممبئی بلایا تھا۔ان کا انتخاب پورے ملک کے چھ ایسے لوگوں میں کیا گیا جو واقعۃعملی زندگی میں مشعل راہ تھے۔ اظہر نے سلمان خان کے ساتھ بات چیت کی اور فوٹو بھی کھینچوائی۔
اس سے پہلے سماجی کارکن اظہر “آج کی رات ہے زندگی” نامی پروگرام میں بھی شامل ہوئے جس کی میزبانی امیتابھ بچن کررہے تھے۔
کئی تنظیموں نے ان کو ایوارڈ سےبھی نوازا ہے۔ حالاں کہ اظہر آج بھی زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں ” میرے پاس کوئی آفس یا ملازم نہیں ہے۔میرے طرز زندگی میں کئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ “
اظہر کسی سے چندہ نہیں مانگتے۔ ان کا کہنا ہے ” جو لوگ چاول اور دال لے کر آتے ہیں میں اسے قبول کرلیتا ہوں۔ میں کسی سے نقد رقم نہیں لیتا الا یہ کہ دینے والا چاول یا دال دینے کی پوزیشن میں نہ ہو ۔”
اظہر اپنےچار بھائی بہنوں میں تیسے نمبر پر ہیں اور وہ جب پانچویں کلاس میں تھے تبھی انہوں نے پڑھائی چھوڑ دیاتھا اورمزدوری کرنے لگے تھے۔
اظہر نے بتایا کہ”ہم اپنے دادا کے گھر میں رہتے تھےاور وہ اکیلے پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔ ہمیں دن میں ایک ہی بار کھانا ملتا تھا اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن حالات چاہے جیسے ہوں ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔”
اظہر کو سب سے زیادہ تحریک ان کی ماں سے ملی، جنہوں نے ان کی پرورش کے لیے کافی جدوجہد کی۔ اظہر کا ماننا ہے کہ اللہ غریبوں کے لیے ان کی ذریعہ کھانے کا انتظام کرتا ہے۔
اظہر نے کہا کہ ” میں یہ نہیں دیکھتا کہ کھانےکون کو آرہا ہے، میں بس یہ جانتا ہوں کہ اسے بھوک لگی ہے اور اس کی تقدیر اسے یہاں لائی ہے۔ دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام۔
(یہ مضمون آئی اے این ایس اور فرینک اسلام فاؤنڈیش کے اشتراک سے چلائے گئے ایک خصوصی سلسلہ کا حصہ ہے۔ )