
تعلیم کے ذریعہ لڑکیوں کا مستقبل تابناک بناناہی سیما یادوکا مقصد

ہردوئی: کلاس روم میں مدھم لائٹ ہے، دیواریں بچوں کی پنٹنگ سے سجی ہوئی ہیں اور 36 سالہ سیما یادو 25 لڑکیوں پر مشتمل ایک گروپ کو پڑھا رہی ہیں جو ایک کونے میں دائرہ بنائے ہوئے بیٹھی ہیں۔ یہ وہ لڑکیاں جنہوں نے کبھی اسکول کا منھ نہیں دیکھا تھا یا مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول چھوڑ دیا تھا۔ یہ اس وقت اپنی عمر کی دوسری طالبات کے مقابلے میں تعلیمی اعتبار پیچھے ہیں۔
سیما ریاستی دارالحکومت لکھنؤ سے 125کلومیٹر دور کیئر انڈیا کے اڑان نامی ایک برج اسکول میں 10 سے 16سال کی لڑکیوں کو پڑھاتی ہیں۔
ہر سال تقریبا 100 لڑکیاں، چھ سال کے نصاب کو گیارہ مہینہ میں مکمل کرتی ہیں۔ یہ لڑکیاں اس وقت پانچویں درجہ کے سالانہ امتحان کے لائق ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے عام اسکولوں میں ان کا داخلہ ہونا آسان ہوجاتا ہے۔
1999 میں سرودیا آشرم کے تعاون سے کیئر انڈیا پروجیکٹ کے تحت تیار کئے گئے اس اسکول کے ذریعہ اب تک 1800 لڑکیاں تعلیم پاچکی ہیں۔
ہندوستان میں لڑکیوں کا ایک بڑی تعداد میں درمیان میں ہی تعلیم چھوڑ دینا ایک بہت بڑ امسئلہ ہے۔ سال2017 کے ایسر کی سالانہ تعلیمی سروے کے مطابق ابتدائی آٹھ سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑنے کا تناسب لڑکیاں میں لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پرائمری سطح پر 5.7 فیصد لڑکیاں اسکول میں داخلہ نہیں لے پاتیں جب کہ لڑکوں میں یہ تناسب 4.7 فیصد ہی ہے۔ اور جیسے جیسے لڑکیوں کی عمر بڑھتی ہے اسکول میں اندراج کا یہ فرق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ثانوی درجہ کی سطح پر جب یہ 18 سال کی عمر کو پہنچتی ہیں تو 28 فیصد لڑکوں کے مقابلہ میں 32 فیصد لڑکیاں اسکول جانے سے محروم رہتی ہیں۔
سروے کے مطابق لڑکیوں کے ذریعہ ترک تعلیم کی اہم وجہ خاندانی بندشیں ہیں اور نوجوان بچے اور بچیاں جو اسکو ل نہیں جارہی ہیں میں سے 70 فیصد کی مائیں بھی کبھی اسکول نہیں گئی تھیں۔
مرزا پور ضلع کی رہنے والی سیما نے یہ تعلیمی سلسلہ اپنی پڑھائی کی مالی ضرورتوں کے لئے اس وقت شروع کیا جب وہ محض 17 سال کی تھی۔اور اب اس رہائشی اسکول سےوابستہ ہوئے اسے 18سال ہوچکا ہے۔ اس اسکول کی تقریبا ہر لڑکی کی اپنی ایک المناک کہانی ہے۔ گھریلو تشدد، غربت، چھوا چھوت، امتیازی سلوک اور پسماندگی جو اترپردیش کے اکثر اضلاع میں موجود ہیں۔ سیمابھی انہیں حالات سے گزری ہیں۔
بچپن سے ہی سیما نے سالوں تک گھریلو تشدد کوبڑی بے بسی دیکھا۔ وہ اپنے کمرے کے ایک کونے میں کانپ رہی ہوتی تھی اور اس کا بے روزگار باپ گھر میں ہراسانی کا ماحول بنائے رہتا اور سارا غصہ اس کی ماں پر اتارتا۔
اس نے اس ماحول سے نکلنے کے لئے کافی جد وجہد کی اور بالآخر ایک دوسری ذات کے آدمی کے ساتھ گھر سےبھاگ گئی۔ سیما کی یہ جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی جب اس کے شوہر ہری رام سنگھ سیتا رام پور کورٹ میں شادی ہونے کے کچھ سال بعدہی کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا۔
سیما نے بتایا کہ “میرے والد نے مجھ سے سب کچھ بھول جانے کو کہا ،جیسے کہ میں نے کبھی شادی ہی نہیں کی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں دوسری شادی اسی صورت میں کروں گی جب مجھے گھریلو تشدد نہ ہونے کی ضمانت دی جائے گی، اس پر انہوں نےکوئی جواب نہیں دیا۔ “
سیما نے بتایا ” بچپن کےکچھ واقعات اور حادثات آپ کی پوری زندگی کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ میں نے اپنےگھر میں ایسی خوفناک چیزیں دیکھی ہیں جن سے میری روح تک زخمی ہوگئی ہے۔”
جب سیما بچی تھی تو اس پر کافی دباؤ تھا کہ وہ پڑھائی کو چھوڑ دے اور کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کردے لیکن اس نے غریبی اور غیر امتیازی سلوک کے درمیان پھنس کر بھی کافی جدجہد کی ۔ بالآخر آسانی تکلیف اور پریشانی پر غالب آگئی اور اس نے اپنا گریجویشن مکمل کرکے گاؤں کی ان چند لڑکیوں میں اپنا شمار کرالیا جو کچھ کرنے کے قابل تھیں۔
اس کے بعد اس نے ماسٹر کی تعلیم مکمل کی، بی ایڈ کیا اور سرکاری اسکول میں ملازمت کے لئے اہلیتی امتحان بھی پاس کیا۔
سیما ان لڑکیوں کو اب ریاضی اور لائف اسکل مضامین پڑھاتی ہیں جنہیں سیما کی طرح ہی مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اور ان کا مقدر تعلیم کے ذریعہ بدلنے میں مشغول ہے۔
14 سالہ سنگیتا اور 16 سالہ ریتو جو اڑان اسکول میں پڑھتی ہیں کا کہنا ہے کہ سیما دیدی ان کے لئے انتہائی قابل تقلید ہیں۔
ریتو جس نے خود اپنے باپ کو گھر میں شراب کے نشہ میں مارپیٹ کرتے دیکھا ہے، کہتی ہیں کہ” جب ہمارا کچھ مہینہ پہلے اس اسکول میں داخلہ ہوا تھا، ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ قلم پکڑنے سے ڈر تے تھے، خود اعتمادی اور حوصلہ کی کمی اتنی زیادہ تھی کہ ہم نہ تو صحیح سے پڑھ سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی صحیح طریقہ سے بول پاتے تھے۔لیکن اب ہم کہانی کی کتابیں پڑھتے ہیں، ریاضی کے سوالات حل کرتے ہیں اور دوسری غیر تعلیمی سرگرمیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔”
وہ ایک پولیس آفیسر بننا چاہتی ہے تاکہ گاؤں میں شراب پینے والے مجرمانہ سرگرمیوں سے باز آجائیں۔
اسکول کے پروگرام کے کوآرڈیننیٹر ارمیلا سریواستوا کا کہنا ہے کہ اڑان پروجیکٹ نے اترپردیش کے صوبائی تعلیمی نظام کو ایک حوصلہ دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تعلیم کے لیے تیاری کا یہ ماڈل پورے اترپردیش کے اس طرح کے تمام اسکولوں میں رائج ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا نصاب کافی موثر ہے۔
پروگرام مینیجر وندنا مشرا نے بتایاکہ” یہاں لڑکیوں کو صرف پڑھایا ہی نہیں جاتا بلکہ ہم انہیں زندگی گزارنے کے ضروری اصول جیسے قائدانہ صلاحیت، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور ذاتی حفظان صحت بھی سکھاتے ہیں۔ تاکہ کم عمری کی شادی ، ذات برادری، ناخواندگی بے روزگاری جیسے مسائل کی اصلاح ہوسکے ۔ صرف لگن اور توجہ کے ساتھ کی جانے والی پڑھائی ہی معاشرے میں ایک دورس سماجی انقلاب کی ضامن ہوسکتی ہے۔”
اڑان میں پڑھانے والے اساتذہ کے ذریعہ کئے گئے ایک سروے کے مطابق 1567 لڑکیوں میں سے 460 لڑکیاں ایسی ہیں جو اس اسکول سے پاس ہونے کے بعد ابھی غیر شادی شدہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اپنی شادی کے بارے میں خود معاملات کرسکتی ہیں ۔ سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ وہ لڑکیاں اب خود کفیل ہیں اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تعلیم میں کافی مددگار ثابت ہورہی ہیں۔
وندنا نے مزید بتایا کہ گیارہ مہینہ اس اسکول میں گزارنے کے بعد اکثر لڑکیاں گھر پر اپنے بھائی بہنوں کو پڑھنےمیں دلچسپی پیدا کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں تاکہ وہ اپنی ذاتی حفظان صحت کو درست رکھ سکیں۔
ان سب چیزوں کے باوجود طالبات کو مجموعی طور پر اپنے گھروں میں جس سب سے بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ غریبی ہے اور ذرائع کی کمی کی وجہ سے وہ اکثر پانچویں کلاس مکمل کرنے کے بعد تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکتیں۔
سیما نے 2017 میں اپنےایک رشتہ دار سے نو سالہ انورودھ کو گودلیاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پسماندہ طبقہ کے بچوں کی نگہداشت اتنی زیادہ اطمئنان بخش ہوتی ہیں جسے وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔
“میں ان کی آنکھوں میں خود کودیکھتی ہوں۔ مجھے ان کی زندگی کے ذریعہ اپنی جدوجہد کا خیال آتا ہے ۔۔ میں اکثر ان کے ساتھ روتی ہوں۔۔۔۔ یہ چیزیں ان کی زندگی بدلنے کے لئے مجھے مزید جد وجہد کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں” سیما نے جب یہ جملہ مکمل لیا اس وقت آنسو اس کی آنکھ سے رواں تھے۔
(یہ مضمون آئی اے این ایس اور فرینک اسلام فاؤنڈیش کے اشتراک سے چلائے گئے ایک خصوصی سلسلہ کا حصہ ہے۔ )